سوانح اور سیرت نگاری
علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی اور اس کا سب سے زیادہ اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا۔ اٹھارو میں صدی میں مسیحی مبلغین نے بادی اسلام حضرت محمد اور دیگر نامور مسلمانوں کے غلط سوانحی کوائف شائع کر کے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ مسیحی مبلغین کی ان کوششوں میں کبھی کبھی ہند و مورخ بھی شامل ہو جاتے تھے۔ علی گڑھ تحریک چونکہ مسلمانوں کی نشاہ ثانیہ کو فروغ دے رہی تھی اس لیے اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالہ کی کو شش کی گئی۔
چنانچہ سر سید کی ’’خطبات احمد یہ مولوی چراغ علی کے دور سالے ”بی بی حاجرہ‘‘ اور ’’ماریہ قبطیہ ‘‘ڈپٹی نذیر احمد کی ’’امہات الا‘‘ میں تاریخی صداقتوں کو پیش کیا گیا۔ لیکن اس دور کے سب سے بڑے سوانح نگار شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی تھے۔ مولا ناشیلی نے ناموران اسلام کو سوانح نگاری کا موضوع بنایا اوران کی زندگی اور کارناموں کو تاریخ کے تناظر میں پیش کر کے عوام کو اسلام کی مثالی شخصیتوں سے روشناس کرایا جبکہ مولاناحالی نے اپنے عہد کی عظیم شخصیات کا سوانحی خاکہ مرتب کیا۔ چنانچہ ’’یاد گار غالب ” ‘‘ حیات جاوید ‘‘ اور ’’حیات سعدی‘‘ اس سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس عہد کے دیگر لوگ جنہوں نے سوانح عمریاں لکھیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد ، مولوی چراغ علی اور عبدالعلیم شرر شامل ہیں۔
تاریخ نگاری
سر سید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدید بیت کے علمبردار تھے انہوں نے حضور نبی کریم کے اسووحسنہ پر عمل کرنے کے لیے اخلاقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا اسے بیدار رکھنے کے لیے ملی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کو شش کی گئی۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہو ادل محفوظ ہوتا ہے ۔ جس کا آہنگ دریافت کر لینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقاء کے تسلسل کو برقرار رکھا جاسکتا ہے ۔ اسی نقطہ نظر سے سر سید احمد خاننے ’آئین اکبری ،تزک جہانگیری‘‘
اور تاریخ فیروز شاہی دوبارہ مرتب کیں۔ شبلی نعمانیےالفار وق‘‘ ’’المامون‘‘ اور اور نگزیب عالمگیر پر ایک نظر لکھ ر لکھیں۔ جبکہ مولوی ذکا اللہ نے تاریخ ہندوستان‘‘ مرتب کی۔ علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسلاف کی عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں کو یاد رکھنا چھی اور بر ادونوں طرح کا پھل دیتا ہے ۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذ کرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لیے ایک معیار مقرر کر سکے ۔ علی گڑھ تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیادر کھی بقول سر سید ہر فن کے لیے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے ۔
تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخانہ طرز کو کیسی ہی فصاحت و بلاغت سے برتا گیا ہو دونوں کو بر باد کر دیتا ہے ۔ اس لیے علی گڑھ تحرے ک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانبداری سے تاریخ نگاری میں استعمال کیا۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے ۔ تاہم سر سید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں ہر گز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی کچی شیرازہ بندی کر نا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ کے لیے سادہ اور بیان یہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور اس نقطہ نظر کے تحت آثار الصنادید کی بو جھل نثر کو سادہ بنایا۔ علی گڑھ تحریک اور تنقید :
علی گڑھ تحریک نے زندگی کے جمال کو اجا گر کرنے کی بجاۓ مادی قدروں کو اہمیت دی۔ چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کی بجاۓ ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جومادی زندگی کو بدلنے اور اسے مائل بہار تقاور کھنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ادب کا یہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل ہے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس کی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنادیا۔ اس اعتبار سے بقول سید عبد اللہ سر سید سب پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے ۔ اول الذکر حیثیت سے سر سید احمد خان نے ادب کو تنقید حیات کا فرائضہ سر انجام دینے پر آمادہ کیا اور موخرالذ کر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کر کے اپنے رفقاء کو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی ۔
اگرچہ سرسید احمد خان نے خود فن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن ان کے خیالات نے تجدیدی رجحانات پر بڑا اثر ڈالا۔ان کا یہ بنیادی تصور کہ اعلی تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو ، جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے ۔ سر سید احمد خان نے قبل عبات آرائی اور قافیہ پیائی کو اعلی نشر کی ضروری شرط خیال کیا جاتا تھا لیکن سر سید احمد خان نے مضمون کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا۔ انہوں نے انداز بیان کی بجاۓ مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کے تابع کر دیا۔ سر سید احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوۓ ہیں اور ان سے سرسید احمد خان کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے
کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی کتاب پر عمل کیا۔ علی گڑھ تحریک سے اگر پہلے کی تنقیدی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی۔ لیکن سر سید احمد خان نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقیدی کی۔ گو کہ سر سید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی۔ تاہم ان کے رفقاء میں سے الطاف حسین حالی نے ’’مقدمہ شعر و شاعری“ جیسی اردو تنقید کی با قاعدہ کتاب لکھی اور اس کا عملی اطلاق ’’یاد گار غالب ‘‘ میں کیا۔ مولاناحالی کے علاوہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔
ان نظریات کی عملی تقلید ”شعر الجم“ ہے۔ سرسید نے صرف ادب اور اس کی تخلیق کو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے قاری کو اساسی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے مضمون کو طر زاد اپر فوقیت دی۔ لیکن انشاء کے بنیادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ طرز ادا میں مناسب لطف پیدا کر کے قاری کو سحر اسلوب میں لینے کی تلقین بھی کی ۔ چنانچہ ان کے رفقاء میں سے مولاناشبلی اور ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں مضمون اور اسلوب کی ہم آہنگی فطری طور پر عمل میں آتی ہے اور اثر و تاثیر کی ضامن بن جاتی ہے۔اگرچہ ان کے مقابلے میں حالی کے ہاں تشبیہ اور استعارے کی شیر بنی کم ہے تاہم دو موضوع کا فکری زاویہ ابھارتے ہیں اور قاری ان کے دلائل میں کھو جاتا ہے۔ اس طرح مولوی ذکاء اللہ کا بیانیہ سادہ ہے لیکن خلوص سے عاری نہیں جبکہ نواب محسن الملک کا اسلوب تمثیلی ہے اور ان کی سادگی میں بھی حلاوت موجود ہے ۔ علی گڑھ تحریک اور مضمون نویسی :
اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کار نامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے ۔ اردو نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کیے ۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران سر سید احمد خان وہاں کے بعض اخبارات مثلا سپکٹیڑ، میلر اور گارڈین وغیرہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سر سید احمد خان نے انہی اخباروں کے انداز میں ہندوستان سے بھی ایک اخبار کا اجراء کا پروگرام بنا یا تھا۔ چنانچہ وطن واپسی کے بعد سر سیداحمد خان نے ’’ر سالہ تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں سرسید احمد خان نے مسائل زندگی گوای فرحت بخش اند از میں پیش کرنے کی کو شش کی جو مذکورہ بالا ر سائل کا تھا۔ سر سید احمد خان کے پیش نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لیے ان کے مضامین اگرچہ انگریزی Essay کی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت اردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہو گیا
جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگارنگ قرینے موجود تھے۔ تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں میں سرسیداحمد خان، محسن الملک اور مولوی پیر بخش کے علاوود مگر کئی حضرات شامل تھے۔ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعدار دو میں مقالہ نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا۔ چنانچہ محسن الملک، و قار الملک ، مولوی چراغ علی ، مولانا شبلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔