مومن خان مومن
مومن خان مومن، ( پیدائش: 1800ء وفات: 14 مئی 1851ء) دبستان دہلی سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے مشہور شاعر اور اسد اللہ خاں غالب کے ہم عصر تھے۔
مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوۓ اور حکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبد العزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔
چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام نا پسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے ۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی ، طب ، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، ریا کی واسوانت، غزل، ترکیب بند ، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔
ولی سے پانچ مرتبہ بام نکلے مگر وطن کی محبت نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ مومن نہایت آزاد مزاج، قانع اور وطن پرست تھے۔ امر اور اور روسار کی خوشامد سے انہیں سخت نفرت تھی۔ یہی ان کے کریکٹر کی ایک نمایاں خصوصیت تھی۔ مومن کی یادگار ایک دیوان اور کچھ مثنویاں ہیں۔ 1851ء میں اپنے کوٹھے سے گر کر وفات پائی۔
مومن کی جنسی توانائی کا اخبار عملی زندگی سے ہی نہیں بلکہ کلام سے بھی ہوتا ہے۔ دبستان لکھنؤ کے شعرا کے بر عکس انہوں نے میٹس اکاری کوشش او را پنڈال سے بچا کر صحت مند حدود میں رہنے دیا۔ بیشتر اشعار میں روایت یا مفروضات کم ہیں اور ذاتی تجربات زیادہ ، اسی لیے شاعری میں عاشق کا تصور ابھرتا ہے وہ میر تقی میر کی خود سپردگی اور خاکساری ، لکھنوی شعرا کی ہوسٹا کی اور کجروی اور غالب کی فر جمعیت اور خود پسندی سے قطعی مختلف ہے۔ مومن کا عاشق واضح طور پر مر جاتی ہے۔ ان کا یہ شعر عاشق کے تمام فلسفہ حیات کا نچوڑ ہے۔
ہم بھی چھ خوش نہیں وفا کر کے
تم نے اچھا کیا تباہ نہ کیا
به وی انداز ہے جس نے داغ دہلوی کے پاس جا کر رنڈی بازی کی صورت اختیار کر لی۔ اگر خالص جنس نگاری کے لحالا سے دیکھیں تو مومن غالب سے بڑھ جاتے ہیں۔ صرف اشعار کی تعداد کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ شدت اور وار قلی میں بھی غالب کے ہاں بعض اوقات مجنس کو حراح و غیرو سے کیمو فلاج کرنے کا رجحان ملتا ہے ۔ لیکن مومن کا انداز کسی حقیقت نگار کا ہے ۔ البتہ رشک میں دونوں کا یکساں حال ہے۔
یہی نہیں بلکہ مومن نے آواز سے اپنی خصوصی جنسی دناپی کا اظہار بھی کیا۔ اسی طرح بعض ملبوسات اور زیورات سے وابستہ جنسی تلازمات بھی ابھارے گئے ہیں اور ایسی غزلوں کی بھی کمی نہیں جن میں واضح طور پر ایسے اشارات کیے کہ کسی مخصوص ہستی کی جھلک دیکھنے پر بھی استاندار و لگا ناد شوار نہیں رہتا کہ خطاب صنف مخالف سے ہے اور لائینس شاعری کے اس دور میں یہ بہت بڑی بات ہے ۔
مومن نے شاعری کی ابتدا بچپن سے ہی کی۔ ابتداء میں شاہ نصیر دہلوی سے اصلاح لیتے رہے لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں شاعری میں مہارت حاصل کی۔ خود استاد بن گئے اور اصلاح نینا چھوڑ دی۔ مومن کا دل مشق کی لذت سے خوب واقف تھا اس لئے مومن کے کلام کی سب سے پہلی خصوصیت رنگ تغزل ہے۔ ان کی غزلیں فلسفیانہ ساخت سے بھی خالی نہیں ہیں ، نازک خیالی میں وہ مرزا غالب سے سبقت لے گئے ۔ اس سلسلہ میں حالی نے بھی اعتراف کیا ہے ۔ مومن نے حیات و موت کی کشمکش کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے ۔ان کا کلام کہیں کمیں الفاظ اور تحصیل کا مفہوم پورا نہیں کرتا لیکن الجھاؤ اور ابہام سے پاک ہے۔ مومن کی شاعری کا اہم جزو حسن مقطع ہے اور اپنے مخلص کو اس طرح باندھا ہے کہ دو شعر کا ایک حصہ بن گیا ہے ۔ ان کا رنگ تغزل منفرد ہے۔