رومی اور اقبال کا تصور مردمومن
اسلامی فکر وجود انسانی کا اثبات کرتی ہے ۔ اس باعث سید عبدالواحد نے اقبال کے تصور خود میں مولانا روم کے تصور خودی کے اہم تین نکات درج کی ہے۔
مرد مومن کا مقام
مرد مومن کی عرفانیت اور روحانیت
لاحددوخودی ( اللہ ) اور خودی (انسان ) کا ربط ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ نے خود کو مرید ہندی کہہ کر مر شد رومی کی رہنمائی قبول بھی کی ہے ۔ رومی کے ہاں بڑے انسان کی آرزو بھی ملتی ہے اور اس کی ضرورت کا احساس بھی ۔رومی نے کہا تھا کہ
دی شیخ با چراغ می گشت گرد شہر
کز دام ورد ملوم انسانم آرزوست
( کل شیخ ہاتھ میں دیا لئے شہر بھر میں گھومتا رہا یہ کہتے ہوئے کہ میں کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں جیسے انسانوں سے بیزار ہوگیا ہوں آدمی کو ڈھونڈتا ہوں ) اس ساری غزل میں رومی نے بڑی عمدگی سے مرد مومن کی رونمائی کی ہے۔ ویسے بھی رومی کی شعری فضا عشق کی جس مستی سے لبریز ہے۔ اس کے افکار بھی اقبال کے تصور عشق سے ملتے ہیں کہ روی کے ہاں بھی عشق بھی جذب وگل کی سرخوشی سے عبارت ہے۔ شیخ اکبری الدین العربي کے بھی ذات مطلق کے ظہور کے مدارج کے ساتھ انسانی کردار کے ارتقاء کے تصورات ملتے ہیں اسی طرح فلسفی عبد الکریم جیلی کے ہاں بھی انسانی کردار کی ارتقائی صورت کی آرز دولتی ہے۔ اقبال مردمومن کی علامت کے طور پر لالہ کے پھول کو کوئی جگہ سامنے لاتے ہیں۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب
اقبال چاہیے اس کو خون عرب سے
لالہ کے پھول سینے میں داغ مردمومن کے دل داغ داغ کی علامت ہے صاف ماحول میں کھلا ہوالالہ مردمومن کے اہل صفا ہو نے سے عبارت ہے۔
اس لیے خودار پرندہ شاہین کی علامت مردمومن کے لیے زیادہ استعمال ہوتی ہے اور یہ علامت تکرار اور مباحث میں بھی بہت آئی ۔ شاہین کی صفات حیرت انگیز طور پر بلندی کردار کا ایک استعارہ بنتی ہیں وہ دور بین ہے بہت بڑے فاصلے سے شکار کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کے بازو سب پرندوں سے زیادہ توانا ہوتے ہیں وہ سیدھا نوے درجے کے عمودی زاویے پربھی اڑان لے سکتا ہے اس کی ذہانت ایسی ہے کہ اپنے سے کئی درجہ بڑے جاندار کو چوپیچ مار کے اندھا اور اپنی مرضی کے مطابق چلا کر لے آتا ہے۔ شاہین کے رعب کا یہ عالم ہوتا ہے کہ جس درخت پر آ بیٹھے ہیں کوئی دوسرا پرندہ بیٹھنے کا تصور نہیں کر سکتا اور اگر وہاں بیٹھا ہو تو دہشت سے مر جا تا ہے ۔ وہ حرام خوری اور مردارخوری سے بچا ہے دوسرے کا چھوڑا ہوانہیں کھا تا ۔ خود شکار کرتا ہے دوسرے دن کیلئے چھپا بچا کر نہیں رکھتا وہ صاحب ترک دنیا بھی ہے کہ خودگھونسلہ نہیں بنا تا کھلے موسموں میں بھی لیتا ہے۔
یہ ساری صفات اقبال کو مر دمومن والی صفات لگتی ہیں کہ
حمام کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ زندگی باز کی راہیانہ
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ
ترقی پسند اہل قلم نے اگر چہ خود طاقت کے فلسفے کور نہیں کیا تا ہم شاہین کے جھپٹنے پلٹنے کو دوسرے پرندوں کی جاں کے ضیاع کی قیمت پر قبول نہیں کیا اور بعض ایک نے اسے خون آشانی کہا۔ نظریاتی طور پر کتنے ہی لطیف مباحث اس بابت کئے جائیں مگر حقیقت وہی ہے جو ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ نے بتائی کہ
فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جلترنگ
زندگی کی بہار میں نرم دلی کی روش کئی با رسخت مقامات کے مقابل آنے پر مجبور ہے ۔ جن دانشوروں نے ؟ شاہین کے جھپٹنے ملنے پر اعتراضات کئے انہوں نے عموما غیر معمولی نازک مزاجی کی وکالت کی ۔ جب کہ زندگی کا سوال یہ ہے کہ طاقت کو قانون اور قاعدہ کا پابند کیا جائے نہ یہ کہ طاقت حاصل کرنے سے بھی انکار کر دیں ۔