نطشے کافوق البشر
نطشے کا فوق البشر قوت محض کا نمائندہ جذبہ اور جوش کی علامت اور مذہب واخلاق سے بے نیاز توانائی ہے وہ خدا کا منکر تھا عیسائیت کو اس نے عروج انسانی کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ عیسائیت اور بدھ مت مذہب کو اس نے نفی حیات والے مذاہب کہا۔ اس کا خیال ہے کہ تاریخی طور پر عیسائیت کمزور حکوموں اور غلاموں کی اپنے فاتحوں اور طاقتور مالکوں کے خلاف سازش تھی کہ اس کے ذریعے انہوں نے اپنے ہاں موجود غلاموں والے اخلاق کو بلند اخلاقیات کرغزی کو نعمت عاجزی کو خدا کے ہاں پسند ی صفت اور صبر وخوبی قرار دے لیا۔ وہ کہتا ہے اس ہتھیار سے کمزور یہودیوں نے طاقتور اہل روم کو شکست دی ۔ وہ غلاموں کے اخلاق کو آ گاؤں کے اخلاق سے جدا کر کے دیکھتا ہے وہ کہتا ہے حوصلہ جرات عمل پسندی اور عمل کی سودوزیاں سے بلندی اور ماورائیت آقاؤں کے اخلاق ہیں اور عاجزی برداشت انتظار نری وغیرہ غلاموں کی اخلاقیات میں شامل ہیں ۔ اخلاق کو تقسیم کرنے والانطشے خیر اور شر کو منقسم اور الگ الگ نہیں جانتا۔ وہ کہتا ہے کہ اچھائی اور خیر شروع میں قوت کو کہا جا تا ہے اچھا آ دی طاقتو ر آ دی ہوا کرتا تھا یہی ہونا چاہیے وہ اس چیز یا عضر کوشر کہتا ہے جو کمزوری کی طرف لے جاۓ ۔ کمزور کو بچانے کا عمل اس کی نگاہ میں عروج آدم کی دشمنی میں گنا جاۓ گا ۔ وہ کہتا ہے بعض رسم ورواج کی پابندی کولوگوں نے نیکی کہنا شروع کر دیا اور لوگ اس لئے نیک ہوتے ہیں کہ اس میں سہولت رہتی ہے یا میدان کی عادت کی مجبوری ہوتی ہے۔ اور ثواب کو بھی اس بیانے سے جانتا ہے وہ کہتا ہے کہ فوق البشر کے تسلسل میں آنے والے زمانے نیکی اور بدی کے بجاۓ حکمت کو معیار بنائیں گے ۔ تہذ یب قلم سے چھوٹی اعلی تہذیب اس کے تجزیے کے مطابق وہاں انجری جہاں مجبور محنت کرنے والا طبقہ بھی تھا اور اپنے اختیار سے محنت کرنے والا بھی وہ جمہوریت اور اشتراکیت ہر دو کو رد کرتا ہے انسانی مساوات اسے کسی طرح برداشت نہیں ۔ وہ کہتا ہے ارتقاء میں صرف اعلی افراد اٹھیں گے سب نہیں۔ زندگی اس کی نگاہ میں تنازع للبقا میں بقاۓ کا قائل ہے کہتا ہے کہ ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کے لیے دوسروں سے تصادم اور مسلسل تصادم میں مصروف ہے ۔ وہی نسلیں آج تک باقی رہیں جو ماحول موسم آب و ہوا اور زمانہ کی سختیوں کے دباؤ کو سہ سکیں ۔ زیادہ قوی فرد جوفوق البشر ہے وہی باقی بچے گا بلکہ اس کو باقی رہنا چاہیے اسے ان آزادمردوں کا انتظار ہے جو توانائیوں' نفع وضرر پر صداقت کو اہم سمجھیں ۔ خیر وشر کے چکر میں نہ آ ئیں جو صرف اسے قبول کر میں جو حیات بخش ہو ۔ وہ فوق البشر کی عظمت کے آگے کسی تصور قد ر معیار شخصیت کو کچھ نہیں سمجھتا۔ برتر انسان کی تلاش نطشے رومی' عبد الکریم جبلی اور اقبال کے ہاں مشترک عصر ہے اگر چہ برتر انسان کا تصور لطے کا سب سے مختلف ہے۔ عقل کے مقابلے پر معرفت سکھانے والا جذ بہ یا عشق روی نطشے اقبال تینوں میں موجود ہے۔ نکلے اور روی استدلال اور منطقیت کے بجاۓ موسیقی کو اہم کہتے ہیں۔ اقبال شاعری کو فلسفے سے بہتر قرار دیتے ہیں تینوں جدوجہد کو زندگی کہتے ہیں۔ خودی کا استقرارکے روی اقبال تینوں کے ہاں موجود ہے۔ انسان کا عروج غیر محدود ہے۔۔ یہ عنصر بھی تینوں کے ہاں موجود ہے ۔ تاہم روی اور اقبال کے اشتراکات بے شمار ہیں ۔ دونوں تقریر کو غیر معین کہہ کر اسے آئین حیات کہتے ہیں ۔ دونوں کا خیال ہے کہ موجودات ادنی سے اعلیٰ کی طرف سفر کر رہے ہیں قرآن کے آدم کو دونوں عظیم کہتے ہیں۔
فلسفے کی دنیا میں نطشے کا تصور فوق البشر ایک بڑے آدمی ( بلکہ ایک طاقتور آ دی ) کے تصور تک محدود رہتا ہے جسے وہ Superman کہتا ہے۔ اس شخصیت کے تین عناصر ترکیبی ہیں ,Resurrection Dionysus اور Superman یونان کی پرانی دیو مالا یا ضمیات میں جو دیوی دیوتاؤں کے قصے بتاۓ گئے ہیں ان میں Dionysus کار عشرت اور شراب کا دیوتا ہے ۔ وحشت اور ظلم کی رسوم اس کی شخصیت کے ۔ ساتھ گندھی ہوئی ملتی ہیں ۔ وہ پیش فراواں اور لامحدود طاقت کی علامت بنتا ہے ۔ یہ لامحدود لا قانونیت اقبال کے تصورات ہی کے برعکس ہے۔
نطشے کے اس تصور فوق البشر کا دوسرا حوالہ Eternal Resurrection ہے جو تخلیقی سفر کے بجاۓ دائرے کے اندر کی دائی حرکت ہے۔ اقبال اس حرکت کو تقدیر پرستی کہتے ہوۓ رد کرتے ہیں ۔نئے کے تصور کا تیسراعصر خودفوق البشر کی ذات ہے ۔ یہ تو انا شخص ہر Value( قدر ) کے تصور سے بے خبر اور محروم ہے قوت اور اندھی قوت کی علامت ہے ۔ وہ سخت کوش بھی ہے مسلسل حرکت میں بھی ہے مگر ہر اخلاقی حس ہر مذہبی قید سے ماورا ہے۔ اقبال اس تصور کو بھی قبول نہیں کر سکتے ان کا مردمومن تو بہت سی ذمہ داریاں ساتھ لے کے چلتا اور بہت سی پابندیوں میں سفر کرتا ہوا اپنی شخصیت کو تہذیب دیتا ہے۔