اسلامی ریاست کا قیام
Establishment of Islamic State,
سقوط دہلی The fall of Delhi سے لے کر 1947 ء تک کا دور انگریزوں کی مکمل حکمرانی اور آزادی کی نئی تحریکوں کا دور ہے ۔نوے سال کا یہ عرصہ مسلمانوں نے انگریزوں کی غلامی میں گزارا۔ اس زمانے میں مسلمانوں میں ایسے رہنما پیدا ہوۓ جنہوں نے تجدد کا راستہ اختیار کیا نئے علوم تک رسائی حاصل کی اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ فروغ تعلیم کوبھی اہمیت دی سرسیداحمد خان علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح Sir Syed Ahmad Khan Allama Iqbal and Quaid-e-Azam Muhammad Ali Jinnah اس دور کی تین ایسی شخصیات ہیں جنہوں نے شجر قومیت کی آبیاری کی اور انگریز اور ہندو کی سیاست کاری کو دانشمندی سے سمجھ کر مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ برپا کی۔ چنانچہ 1947 ء میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔ اس وقت مغلیہ سلطنت Mughal Empire اگر چہ بحال نہ ہوئی اور نہ ہوسکتی تھی لیکن برصغیر کے ایک وسیع خطے پر ایک خودمختار اسلامی ریاست قائم ہوئی جس کی قومی زبان اردو قرار دی گئی اور اب پاکستان ہی اردو کا وفن کار ہوتا ہے۔
جغرافیائی اعتبار سے برصغیر ایک قلعہ ہے شمالی حصے میں پہاڑوں کا لمبا سلسلہ ہے اور جنوب میں سمندر ہے۔ ازمنہ قدیم سے مسلمانوں کی آمد تک جتنے حملہ آور بھی آۓ ان کی تہذیب کی لہر میں اس ملک کی مٹی میں مل جاتی رہیں ۔ ہندوستان کی قدیم تہذیب زمین کے ساتھ وابستہ تھی لیکن آریاؤں کا مزاج عارضی تھا۔ ان دو تہذ یوں کی آویزش نے جو نیا مزاج مرتب کیا اس کی زمین دراوڑی لیکن روح آریائی تھی ۔
مسلمان اپنے ساتھ اسلامی افکار اور اسلوب حیات لے آۓ تھے ۔ اس طرز زندگی کو فاتحین نے حکومت کی سطح پر اور مشائخ اور صوفیاء نے عوام کی سطح پر رائج کرنے کی سعی کی ۔ تجد تحریک کی اس لہر نے بلاشبہ مقامی اثرات بھی جزوی طور پر قبول کئے لیکن اپنی اساس کو قائم رکھا اور یوں ہندومت کے چاند تصور پر نہ صرف بالادستی قائم کی بلکہ ایک طویل عرصے تک حکمرانی بھی کی ۔ تا ہم اس تمام تر سے میں ہندوؤں میں چھوت چھات اور تعصب قائم رہا اور انہوں نے بتاۓ باہمی کے بجاۓ آویزش کی صورت قائم رکھی ۔اس آویزش نے اردو کو ہندی سے الگ وجود کا احساس دلایا اور سرسید کے عہد میں ہندی کالج قائم کیا گیا توانہیں احساس ہو گیا کہ اب یہ دونوں قو میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں ۔“
برصغیر میں مسلمانوں نے بلاشبہ مختلف نوع کا تحرک پیدا کیا لیکن معاشرے نے داخلی طور پراپنا خول قائم رکھا ۔ چنانچہ اس ملک کی تہذیب کو شہری ہوئی تہذیب میں شمار کیا گیا۔ ترکوں افغانوں اور پٹھانوں کے حملے اور مقامی آویزشوں نے بھی حقیقی زندگی کی طرف پیش قدمی کو روک دیا اور مقاومت کمترین کی راہ ہموار کی گئی جس سے بے رخی کا رویہ پیدا ہوا۔ ڈاکٹر محمد صادق نے اس قسم کے حالات سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس سے منصب واقتدار کی کچی اور وفادارانہ فرمانبرداری کا رحجان پیدا ہوا۔ چنانچہ جب بھی کوئی احیائی تحریک پیدا ہوئی اس کی شدید مخالفت عمل میں آئی اسلام نے اس قسم کی بے عملی پر ضرب کاری لگائی تھی اور انسان کو خود’ تقدیر یزداں‘ بننے کا سبق دیا تھا لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فکر ومل کا صحت مند روسی بھی ہندوستانی مزاج کا داخلی خول توڑ نہ سکا۔ چنانچہ ایک مبرمنم کی افزائش ہوئی ۔ بہت سے تخلیق ہان قنوطیت کا شکار ہو گئے اور احساس کی شدت کے باوجود جذبات کے اظہار میں سوز و گداز در آیا۔ متذکر و بالا سیاسی سماجی اور تہذیبی عوامل نے تخلیق کاروں پر مختلف نوعیت کے اثرات مرتب گئے اور یہ سب تخلیقی اصناف میں منعکس ہوۓ ۔