نظم امید کا خلاصہ
الطاف حسین حالی، کی نظم’امید کا خلاصہ درج ذیل ہے ۔ یہ ایک تاریخی نظم ہے اس نظم میں مولانا الطاف حسین حالی نے مسلمانوں اور ہندی لوگوں کو پست حال سے نکالنے کے لیے بہترین جہاد کی ہے جو الفاط کی صورت میں نظم ہے۔ مثلا مولانا الطاف حسین حالی کہتے ہیں کہ امید ہی ہے جس کی وجہ سے انسان ست کاہلی اور ذہنی غلامی سے نجات پا سکتا ہے اور اس امید سے ہی دنیا یعنی پوری کائنات قائم دائم ہے رہے گی۔
1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستانی لوگ خاص طور پر مسلمان سخت مایوس اور نا امید ہو چکے تھے ۔ ان مشکل حالات میں مولانا حالی نے قلم اٹھایا اور اس نظم کے ذریعے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی۔ آپ فرماتے ہیں کہ اے امید تو آ کر اپنی جھلک دکھا دے تا کہ مایوی کے گھنے بادل چپٹ سکیں اور ناامید لوگ مایوی کے اندھیرے میں امید کے چراغ کی روشنی پاسکیں ۔ شاعر کہتے ہیں کہ اے امید ! تو نے ان لوگوں کو بھی پھر سے تازہ دم کر دیا تھا جوموت کے کنارے پر پانی چکے تھے۔ اور تو ہی وہ طاقت ہے جو سوکھے درختوں کو پھر سے سرسبز کر دیتی ہے ۔ طوفان نوح میں جب ساری دنیا تباہ ہوگئی تھی جب کشتی نوح میں تو ہی تھی جس کے سہارے وہ لوگ زندہ تھے ۔ اور حضرت یعقوب اپنے بیٹے حضرت یوسف کے خون آلود کر تے کو دیکھ کربھی یہ امید رکھتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے کو زندہ دیکھ سکیں گے اور حضرت یوسف جیل کی کال کوٹھڑی میں بھی امید کے سہارے آرام وسکون سے رہ رہے تھے ۔ شاعر کہتے ہیں کہ جب کوئی مشکل آن پڑتی ہے تو امید ہی سہارا دیتی ہے اور ڈوبنے والے امید کے سہارے ہی کنارے آ لگتے ہیں ۔ بگڑے ہوۓ کام امید کے سہارے ہی سنورتے ہیں اجڑے اور بر باد گھروں کو امید ہی پھر سے آباد کرتی ہے۔
اور اندھیروں کو اجالے میں بدل دیتی ہے ۔ امید ہی کی وجہ سے ہر بوڑ ھے اور نو جوان کی ہمت مضبوط رہتی ہے ۔ امید ہی وہ چیز ہے جس سے دنیا جہاں کا سارا نظام چل رہا ہے۔ اگر امید نہ ہوتو انسان خوف کے گھنے جنگل میں کھو جائے ۔ لا چاروں اور فقیروں کوامید نے ہی تو گر بنایا ہے اور کشتی چلانے والوں کوامید نے ہی بادشاہ بنایا۔ ہے۔ سکندر کواسرانی بادشاہوں والی شان امید ہی نے عطا کی ہے اور کولمبس نے امید ہی کو سہارا بنا کر نی و نیاور یافت کی ہے ۔ وہ مسافر جو بالکل خالی ہاتھ کسی بیابان میں چلتے ہیں دوامید کی بدولت ہی خوشی خوشی اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں اور بیش قیمت خزانے پاتے ہیں ۔ کسان اندھیرے میں زمین جو سنے کے لئے لگاتا ہے اور امید کے سہارے زمین میں بیج ہوتا ہے۔ ساری و نیا سوئی ہوتی ہے اور وہ اپنے کام میں مصروف ہوتا ہے ۔ وہ امید کے سہارے ہی اتنی محنت کرتا ہے ۔ یہ مصائب اور مشکلات تو کچھ بھی نہیں اگر اس سے بھی زیادونم والم، دکھ درد کے پہاڑوں کا سامنا کرنا پڑے تو جب بھی گھبرا نامت ، کیونکہ امید تمہارے دلوں کا حوصلہ بڑھاتی رہے گی۔