افسانہ حج اکبر کا تنقیدی جائزہ
Prim Chand,
Best Fiction Reater,
پریم چند طبعاً غیر متعصب مصنف تھے اس میں شک نہیں کیونکہ تو افسانوں میں پیش کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ خود ہندو تھے اور ہندو دھرم ان کے رگ رگ میں بسا ہوا تھا لیکن انہوں نے جہاں جہاں مسلم کچر کے پس منظر مں کہانیاں لکھی ہیں ان میں بھی ان کے مشاہدے کی گہرائی اپنے کمال پر ہے ۔اس کی ایک عمد ومثال ان کا افسانہ "حج اکبر ہے“
ڈاکٹر قمر رئیس کی تحقیق کے مطابق یہ افسانہ ۱۹۱۷میں لکھا گیا یہ ایک اصلاحی کہانی ہے لیکن براہ راست مقصد بیت پریم چند کو پسند نہیں تھی وہ بنیادی طور پرفنی جمالیات کے قائل تھے اس افسانے میں بھی ان کی مقصد بیت ایک فنی پہلو کے ساتھ اسلامی معاشرت پیش کرتی ہے ۔اس افسانے کی کہانی یوں ہے کہ منشی صابر حسین نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ،ان کا ایک ہی بیٹا نصیر ہے جس کے لیے انہوں نے ایک دا یا عباسی ملاز مدرکھی ہے ،صابرحسین کی بیوی شاکر و عباسی کو ایک مالی بوجھ بھتی ہے اور اکثر اسے تنگ کرتی رہتی ہے ۔ ایک روز تنگ آ کر عباسی ملازمت چھوڑ کر چلی جاتی ہے نصیر جواب عباسی سے بہت زیادہ مانوس ہوتا ہے یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکتا اور سخت بیمار ہو جا تا ہے ۔اس کی حالت روز بروز خراب ہونے لگتی ہے کوئی علاج اثر نہیں کرتا ۔ عباسی بھی نصیر کی یاد میں تڑپتی ہے ایک روز صابر حسین عباسی کو لینے اس کے گھر جاتے ہیں تو پڑوسی بتاتے ہیں کہ وہ حج کرنے جارہی ہے وفورا اسٹیشن پر جا تا ہے اور عباسی انھیں دیکھتے ہی ریل سے اتر آتی ہے عباسی اسے بتاتی ہے کہ وہ حج کرنے جارہی ہے ،اور پھر نصیر کا حال پوچھتی ہے ۔ صابرحسین جب اسے نصیر کا حال بتا تا ہے تو وہ بے قرار ہوکر ان کے گھر آ جاتی اور نصیر کو گود میں لے لیتی ہے۔ نصیر کا چہرہ روشن ہو جا تا ہے ۔افسانے کے آخر میں عباسی صابر حسین سے کہتی ہے کہ تو نے مجھے حج پر نہ جانے دیا تو صابر حسین کہتا ہے کہ تم نے نصیر کو بچا کر حج اکبر کر لیا ہے۔ بظاہر سی سیدھی سادی کہانی اپنے اندر گہری معنویت اور مقصد یت رکھتی ہے پریم چند نے مسلم معاشرے کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا، یہ کہانی ان کے اس دور سے تعلق رکھتی ہے جب ان کے افسانوں میں لفظوں کی کفایت شعاری کا سلیقہ پیدا نہیں ہوا تھا ۔ بہت سے نقادوں کا خیال ہے کہ حج اکبر میں بہت ی تفصیل غیرضروری ہے ، جس کا افسانے کے پلاٹ پر ایک نا خوشگوار اثر پڑتا ہے لیکن کے اس کے باو جودبھی افسانہ حج اکبر پریم چند کے گہرے مشاہدے کا شاہکار ہے ۔ مقصدیت کے ساتھ ساتھ اصلاح پسندی پریم چند کے فن کا بنیادی عنصر ہے۔
پریم چند کے افسانوں کے موضوعات بھی سیاسی زندگی سے متعلق ہیں لیکن فن اور معیار کے اعتبار سے پہلے دونوں ادوار کے مقابلے میں بہت بلند ہیں ۔’سوز وطن‘ کے افسانوں کے بعد پریم چند کے قلم حج اکبر، بوڑھی کا کی، دوئی ، دو تیل نئی بیوی اور زاد راہ جیسے افسانے تخلیق ہوۓ اور پھر کا فن بتدریج ارتقائی منازل طے کرتا رہا۔ یہاں تک کہ کفن‘ بیا افسانہ لکھ کرانہوں نے دنیاۓ ادب میں اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوالیا۔ کفن کی کہانی دو چماروں کی کہانی ہے جو بے حیائی اور ڈھٹائی میں اپنا جواب نہیں رکھتے یہ نئے کے چھمارا پی کاملی دستی کی وجہ سے پورے گاؤں میں بد نام ہیں۔ بدھیا کے مرنے کے بعد اس کا شوہر مادھواور اس کا سر گھی اس کے کفن فین کے لیے زمیندار سے پیسے مانگ کر لاتے ہیں اور پھر یہ سوچ کر کہ کفن تو لاش کے ساتھ جل جاتا ہے وہ پیسے شراب و کباب میں از رہے ہیں۔
بہترین اسلوب۔
آخری دور کے افسانوں میں پریم چند ایک عظیم افسانہ نگار دکھائی دیتے ہیں اس دور کے افسانے مقامی ہونے کے باوجود فاقی کہلانے کے مستحق قرار دیے جاسکتے ہیں کیونکہ اب ان کے افسانوں میں وہ تمام خوبیاں پیدا ہوگئی تھیں جو تھے اور معیاری انسانوں کا خاصہ بھی جاتی ہیں ۔ان کی زبان بھی صاف ہوگئی تھی اور انداز بیان میں بھی دلکشی آگئی تھی ۔ وہ چھوٹے چھوٹے خوبصورت جملے استعمال کرنے لگے تھے ۔سادگی و پرکاری ، متانت وسنجیدگی ان کی تحریر کے جو ہر تھے ۔ منظرکشی میں بھی انہیں کمال حاصل ہو گیا۔
تنوع۔
مجموعی طور پر دیکھا جاۓ تو پریم چند نے اپنے افسانوں میں زندگی کے ہر دو پہلوؤں المیہ دوطر بی کوسمودیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں ہر طبقے کے لوگ پاۓ جاتے ہیں ۔ وہ روبیلوں، بند میلوں اور راجپوتوں کی جنگ جو یا نہ صفات اور جرات مندانہ اقدار کا ذکر بھی کرتے ہیں اور ہندومہاجنوں ، ساہوکاروں ،سیٹھوں اور زمینداروں کے ظلم وتشدد اور گھناؤنے کرداروں کو بھی بے نقاب کرتے ہیں اور غریب کسانوں ، مفلس کا شتکاروں اور نیچی ذات کے چماروں کی بے بسی اور بے کسی کی المناک داستانیں رقم کرتے ہیں ۔ان کے ہاں رانی سارندھاجیسی جاں باز اور آن پر مٹنے والی رانیاں بھی ہیں اور کام چورو کابل گھیسو اور مادھو جیسے المیہ کردار بھی ملتے ہیں۔
انسانی نفسیات۔
انسان ایک ہی قسم کے واقعات سے کس طرح متاثر ہوتا ہے؟ اس کے تعجب ، حیرت ، رنج ، خوشی ،غصہ، نفرت ، حسد، بغض، رشک ، رقابت اور اس قسم کے فطری جذبات کا اظہار کس طرح ہوتا ہے؟ یہ چیز میں سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں اور اس لیے افسانوی بلندی حاصل کرنے کے لیے افسانہ نگار نفسیات سے زیادہ سے زیادہ کام لیتے ہیں ۔ پریم چند کے افسانے نفسیاتی مطالعہ اور مشاہدہ پر ہیں ۔ اس چیز سے پریم چند نے اس قدر کام لیا ہے کہ وہ ان کے طرز بیان کی ایک خصوصیت بن گئی ہے ۔ شا وہ جملوں میں جہاں تشبیہات کا استعمال کرتے ہیں تو انہیں نفسیاتی محسوسات کو کام میں لاتے ہیں ۔ ایک جگہ لکھا ہے:۔ ایک یتیم بچہ ماں کا تذکر سن کر رونے لگتا ہے ۔ اس طرح اور چھا کی کی یاد سے چپت رائے کی آنکھوں میں آنسو چھلک آۓ۔