کربل کتھا از فضلی
شمالی ہند میں اردو نظم ونثر کی تصنیف کا سلسلہ محمد شاہ کے عہد سے شروع ہوتا ہے اور فضلی کی کربل کتھا بھی اس زمانے میں لکھی جاتی ہے۔ سب سے پہلے اسکا ذکر مولوی کریم الدین مؤلف طبقات شعراء ہند نے کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان کے پاس کربل کتھا کا قلمی نسخہ ہے ۔ لکھتے ہیں: فضل علی نام خاص فضلی محمد شاہ بادشاہ کے عہد میں وہ موجودتھا۔ اس نے ایک کتاب دو جلس اردوزبان میں قدماء کے محاورات پر لکھی ہے ۔ وہ خود کہتا ہے کہ اون ایام میں میری عمر بائیس برس کی تھی ۔ اوس کتاب کا نام اوس نے کربل کتھا رکھا ہے ۔ سبب تصنیف اوس کتاب کا جواؤں نے بیان کیا ہے بعینہ اوس کی عبارت ہے کم وکاست لکھتا ہوں ۔“
( طبقات شعراء ہند مؤلفہ مولوی کریم الدین طبع ۱۸۴۸ ۶۱۶ ) فضلی نے یہ کتاب ملاحسین واعظ کاشفی کی تصنیف ''روضۃ الشہداء کے خلاصے سے ترجمہ کی ہے ۔ روضۃ الشہداء فارسی کی مشہور تالیف (سنہ تالیف ۱۵۰۲۵٫۹۰۸ء) ہے جس کے ترجمے بہت زبانوں میں ہوئے فیضلی نے محرم کی مجالس کے لیے سنہ ۱۱۴۵ ۱۷۳۲/۵ء میں اس کا ترجمہ اردو نثر میں کیا اور نثر کے علاوہ بعض حصے نظم میں ترجمہ کیے۔ یہ ترجم لفظی نہیں ہے ملک فضلی نے اس میں حسب موقع تصرفات بھی کیے ہیں اور روضۃ الشہداء کے نفس مضمون کو اردو کے قالب میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ منظوم حصوں کو جہاں ترجمہ کیا ہے وہاں ترجمہ لکھا ہے۔ جہاں خود تخلیق کیا ہے وہاں لمولفہ لکھا ہے ۔ مجموعی طور پر کربل کتھا کی عبارت روضۃ الشہداء سے اتنی مختلف ہے کہ اسے بجا طور پر فضلی کی تصنیف کہا جا سکتا ہے ۔ غالبا ابتدائی مسودہ صرف مجالس میں سنانے کے لیے لکھا گیا اور مؤلف نے اسے عام نہیں کیا۔ پندرہ سولہ سال کے بعد سنہ ۱۱۲ھ/ ۱۷۴۸ء میں اس نے نظر | مانی کر کے حذف واضافہ کیا اور اسے آخری شکل دی۔
فضلی کی ” کربل کتھا‘اردوادبیات کے طلبہ کے لیے غیر معروف چیز نہیں لیکن عام طور پر فضلی کا یہ کارنامہ’ د مجلس‘ کے نام سے مشہور ہے ۔ یہ مغالطہ سب سے پہلے مولوی کریم الدین نے پیدا کیا۔ ( دیکھیے اقتباس از طبقات شعراء ہند ،سطور بالا میں ) حالانکہ فضلی نے اس کا نام ” کربل کھتا ہی رکھا ہے اور یہی درست بھی ہے ۔ خوش قسمتی سے یہ کتاب جناب مالک رام اور ڈاکٹر مختارالدین احمد کی کوششوں سے اکتوبر ۱۹۹۵ء میں چپ کر سامنے آ گئی ہے۔اس کتاب میں مؤلف کے دیباچے کے بعد بار وجلسیں ہیں اور ایک خاتمہ جس کی پانچ فصلیں ہیں ۔کربل کتھا کی طباعت واشاعت کے بعد فضلی کے اس کارنامے کی لسانی وادبی اہمیت کے بارے میں زیادہ وثوق سے کچھ کہا جا سکتا ہے۔
کربل کتھا“ کی لسانی اهمیت
کربل کتھا‘ شمالی ہند میں اردونثر کا پہانقش ہے ۔ یہ کتاب اس زمانے میں لکھی گئی جب خاص و عام ہر محفل میں اردو کا چر چاہونے لگا تھا اور فارسی کا چلن کم ہو گیا تھا۔ اردواب کو چہ و بازار کے علاوہ مجلس و در بار میں بھی بولی جانے گئی تھی ۔ شعراء کثرت سے اس میں دادشن دینے لگے تھے ۔ تا ہم نثر کے لیے ابھی فارسی ہی کا سہارا لیا جا تا تھا۔ اردو شعراء کے تذکرے اور آپ بیتیاں فارسی ہی میں لکھی جارہی تھیں ۔ اس حالت میں کہ شمال میں اردو بھی نثری نگارش کی زبان نہیں بنی تھی فضلی نے یہ جرات مندانہ قدم اٹھایا نقش اول میں جو خامیاں ہوتی ہیں وہ کربل کتھا میں بھی ہیں ۔ تاہم اردونٹر کا پیش اول اتنا خام اور نامانوس بھی نہیں کہا جا سکتا۔ ظاہر ہے کہ اس زمانے میں اردوزبان ایک بولی کے طور پر تو سن بلوغت کو پانچ چکی تھی لیکن تحریری زبان کی جزئیات اور تفاصیل بھی متعین نہیں ہوئی تھیں ۔ زبان کا ذخیرۂ الفاظ پہلے سے موجود تھالیکن خام مال کی صورت میں ۔اسے جملوں ، ترکیبوں اور محاوروں اور فقروں میں ابھی تبدیل ہونا تھا۔ صرف ونحو کے قواعد ابھی مقرر ہونے تھے ۔ تذکیر وتانیت ، واحد ، جمع ، زیر، زبر، پیش وغیرہ کے اصول طے ہونے تھے۔ حتی کہ الفاظ کا املا تک بھی ابھی غیر یقینی تھا۔ ایک ہی لفظ کہیں ایک طرح اور کہیں دوسری طرح لکھا جار ہا تھا۔ کربل کتھا میں زبان و بیان کی یہ الجھنیں موجود ہیں ۔ اس سلسلے میں چند بنیادی امور یہاں پیش کیے جاتے ہیں ۔
اردواپنی اصل اور ساخت میں ایک ہند آریائی زبان ہے۔اس لیے اس میں سنسکرت الفاظ کے مشتقات یا ان کی ارتقائی شکلوں ( یا ہندی لفظوں کی موجودگی قدرتی بات ہے ۔ سیس، بہرام ، سوگند من موہن ، اچرج ، سنگت وغیرہ یہ الفاظ بہت کچھ اصلی حالت اور تلفظ میں ہیں اور پچھلے بدلے ہوۓ ہیں ۔ دراصل بیوہ دور ہے جب الفاظ شعر وادب میں مسلسل استعمال کی خراد پر چڑھ کر صاف ہورہے تھے فضلی نے پنجابی کے الفاظ درج ذیل ہیں ۔ملاحظہ فرمائیں ۔
اور لہجہ بھی استعمال کیا ہے ۔ مثلا:
نال
کل
ساتھ
نال/ساتھ
چنگا/تندرست
کلھ/کل
بھوئیں/زمین
سیوانی/سیانی عورت
ایانی/معصوم
چوئے/ٹپکے
کاھلا/تیزی