اردو ادب میں نئی تنقید کا آغاز
نئی تنقید (New Criticism) کی اصطلاح سب سے پہلے جویل اسپنگارن (Joel Spingarn) نے 1910 ء میں وضع کی تھی۔ اس نے اس اصطلاح کے عنوان سے ایک لکچر دیا تھا۔ اس کے بعد 1920 ء کی دہائی میں برطانیہ میں رفتہ رفتہ ٹی۔ایس۔ ایلیٹ ، آئی ۔ اے۔ رچرڈز اور ولیم ایمپسن کی تحریروں میں نئی تنقید کے خد و خال ابھرنے لگے۔ رچرڈز نے اپنی کتاب "The Principles of literary criticism (1924) میں کچھ ایسے نکات کی طرف توجہ کی جواد بی تنقید میں زبان و بیان ، تناسب و توازن وغیرہ پر زور دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ 'Practical Criticism (1929) میں بھی اس نے شاعری کے تجزیہ کے دوران معروضی متوازن اور استعاراتی (Figuratie) زبان پر زور دیا ہے۔ لیکن یہاں جس نئی تنقید پر بحث مقصود ہے اس سے اسپنگارن اور ایلیٹ، رچرڈز اور ولیم ایمپسن وغیرہ کار است طور پر کوئی تعلق نہیں ہے۔ نئی تنقید کا یہ دبستان امریکہ میں اس وقت نمو پذیر ہوا جب 1930 ء کی دہائی میں وہاں کچھ ایسے نقاد سامنے آئے جنہوں نے مذکورہ بالا ناقدین کے خیالات اور نظریات کو قطعیت اور معروضیت کے ساتھ آگے بڑھایا اور اس کو پورے فکری ماحول کا حصہ بنایا اور کچھ سنجیدہ ناقدین نے اس کی طرف ملتفت ہو کر اسے ایک تنقیدی دبستان کی شکل میں قائم کیا۔ ان ناقدین میں جان کر ورین سم (Jhon Crove Ransom)، امین ٹیسٹ Alen Tate) کلینتھ بروکس ( Cleanth (Brooks ، رابرٹ چین وارن (Robert Penn Waren) اور ڈبلیو۔ کے۔ ومساٹ (W.K.Wimsatt) وغیرہ کے اسمائے گرامی اہم ہیں۔ جان کر ورین سم (1974ء - 1888ء) نے شاعری کے ایک رسالے جو The" "fugitive کے عنوان سے منظرِ عام پر آیا، میں نئی تنقید کے لیے فضا ہموار کی۔ اس رسالے کے ادارتی عملے میں 1922 ء سے 1935 ء تک رابرٹ بین وارن ( Robert Penn Warn) اور ڈونالڈ ڈیوڈسن (Donald Davidsen) بھی شامل تھے۔ نئی تنقید کو متعارف کرنے والے دوسرے جرائد میں 42-1935ء) The southern Rivew ( پن وارن اور کلینتھ بروکس)، (59-1935) The Kenyon Review جان کر ورین سم ) اور Sewance Revien نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ موخر الذکر جریدہ تا حال نئی آب و تاب کے ساتھ شائع ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد تحریر میں بھی اس دوران منصہ شہود پر آئیں جنہوں نے کہیں راست طور پر تو کہیں بین السطور میں نئی تنقید کے لیے ماحول سازگار بنایا۔ مثلاً ڈبلیو ۔ کے۔ ومساٹ اور منرو بیرڈ سلے ( Monroe Boardsley) کے مضامین 1946 The Intentional Fallacy اور The Affective Fallacy، ڈی ہرش کی کتاب The Validity in (1967) interpretation ، آسٹن وارن کی The Theory of literature (1949)، ڈبلیو۔کے۔ ومساٹ کی (1954) The verbal icon اور مرے کریگر کی New Apologists for poetry جیسی تحریریں قابل ذکر ہیں۔ مذکورہ بالا شخصیات میں سے رین سم کو نئی تنقید کا دستور وضع کرنے کا امتیاز اور افتخار حاصل ہے۔ اس نے (1941) The New Criticism اور (1938) The World's Body جیسے موقر جرائد میں ایک نہایت ہی موثر مضمون ,.Criticism, Inc شائع کیا۔ اس مضمون نے نئی تنقید کو ایک نئی جامعیت اور قطعیت کے ساتھ پیش کیا جس نے ادبی حلقوں میں ایک صحت مند بحث و مباحثہ کو جنم دیا اور ایک نئی فکری جوت جگانے کی طرح پڑھ گئی۔
نئی تنقید (New Criticism) اپنے دائرہ کار میں فن پارے کے جمالیاتی محاسن سے بحث کرتی ہے۔ اس دبستانِ نقد سے پہلے بھی یوروپ میں ادب کی جمالیات پر کافی بحثیں ہوئی ہیں لیکن نئی تنقید سے وابستہ ناقدین نے فن پارے کی جمالیاتی اساس کو اپنی تنقید کا مرکز و محور بنا کر اُس عظیم ترین تنقیدی روایت کی بازیافت کی ہے جس کے بنیاد گزاروں میں عالمی شہرت یافتہ کانٹ (I.Kant)، ٹیلنگ (Shielling)، گوئے (Goethe) اور شیلر (Schiller) کے اسمائے گرامی نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ دراصل جمالیات ایک ایسا نظریہ ہے جو ادب پارے کے حسین ، با اثر ، خوبصورت اور با معنی ہونے پر دلالت کرتا ہے اور ادب پارے سے حاصل ہونے والی مسرت و انبساط کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ وہ مادی، اخلاقی، سیاسی اور تہذیبی اعتبار سے فائدہ مند ہو۔ اس تنقیدی نظریہ کے بانیوں کے مقاصد کو مختصر بیان کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ نئی تنقید کو زیادہ سائنٹفک، جامع اور منضبط بنانا چاہتے تھے۔ ان کے مطابق ” نئی تنقید تاریخی اور سوانحی طریقہ ہائے نقد کے خلاف ایک رد عمل ہے جو ادب پارے اور قاری کے درمیان ایک غیر ضروری شے تصور کیے جاتے ہیں اور جن کی موجودگی میں قاری پر متن کے پُر اسرار در بیچے دانہیں ہوتے۔ یہ روایتی تنقیدی دبستان قاری کو مصنف اور تاریخی وسماجی پیچ وخم میں الجھا دیتے ہیں اور اس طرح فن پارے اور قاری کے درمیان مصافحے اور مکالمے کے امکانات کو تاریک کر دیتے ہیں۔ جان کر ورین سم فن پارے کی قدر شناسی میں تاریخی اور سوانحی پس منظر کو یکسر رد بھی نہیں کرتے مگر فن پارے کی جمالیاتی اقدار اور تحسین کاری کے لیے وہ کسی دوسری چیز سے مفاہمت پر آمادہ نظر نہیں آتے۔