ایسٹ انڈیا کمپنی
1600ء میں انگلستانی ملکہ الزبتھ نے ایک تجارتی کمپنی کو شاہی چارٹر دیا جس کا نام تھا گورنر اینڈ کمپنی آف مرچنٹ آف لنڈن ٹریڈنگ ان ٹو ایسٹ انڈیز"
(Governor and Company of Merchants trading into East Indies) 1709ء میں اس کو ایک اور کمپنی کے ساتھ ملا دیا گیا۔ اس کے بعد سے اس کا مقبول عام نام ایسٹ انڈیا کمپنی " ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی اسے ”آنر ایبل کمپنی“ اور ”جان کمپنی بھی کہا جاتا تھا۔ ہندوستان میں یہ کمپنی بہادر" کے نام سے مشہور ہوئی۔ جب مغل بادشاہ کے ساتھ ساتھ کمپنی نے سیاسی اقتدار حاصل کیا تو ہندوستان میں اقتدار اعلیٰ کی تقسیم کو اس طرح سے واضح کیا گیا۔ مخلوق خدا کی ملک بادشاہ کا حکومت کمپنی بہادر کی۔"
ایسٹ انڈیا کمپنی اپنی پیدائش سے لے کر اپنی موت تک کہ جو 1858ء میں ہوئی بہت سے سیاسی نشیب و فراز سے گزری۔ اپنے ابتدائی دور میں یہ ایک تجارتی کمپنی تھی، اور اس لحاظ سے اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ تجارت کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے اس وجہ سے اسے فتوحات اور علاقوں پر قبضہ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کیونکہ جنگ کی صورت میں اس کو مالی نقصان اٹھانے کا اندیشہ تھا۔ سترہویں صدی تک انگلستان کے لیے امریکی نو آبادیات اور جزائر غرب الہند کی مقبوضات کی اہمیت تھی، اس لیے وہ ہندوستان میں سیاسی عزائم نہیں رکھتی تھی۔ اس کے علاوہ اس وقت ہندوستان میں مغل بادشاہ فوجی لحاظ سے بہت طاقتور تھے، لہذا ان سے جنگ کرنے کا ان کے ذہن میں کوئی سوال ہی نہ تھا۔ انگلستان کے حکمران طبقوں کی کوشش یہ تھی۔
کہ امریکی نو آبادیات میں غلاموں کی تجارت سے جو منافع ہو رہا تھا، اس کی فکر کی جائے اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کو تجارت اور اس سے ہونے والے فوائد کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
لیکن ہندوستان کی تاریخ میں جو سیاسی اتار چڑھاؤ آئے اس نے کمپنی کو تجارت کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ سیاست میں ملوث کرنا شروع کر دیا۔ اس کی ابتداء جنوبی ہندوستان اور اس کی ریاستوں کے باہمی جھگڑوں سے شروع ہوئی، لیکن در حقیقت یہ ایک سیاسی طاقت 1757ء میں پلای کی جنگ کے بعد ابھری۔ لیکن بنگال کی فتح اور سیاسی اقتدار کے باوجود کمپنی کی دستاویزات میں اسے کالونی یا نو آبادی نہیں کہا گیا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ بنگال کو مقبوضہ علاقہ تسلیم نہیں کرتی تھی۔ اس کے لیے ڈومینین (Dominion) کی اصطلاح بھی استعمال نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کو "تجارتی کمپنی کا غصب شدہ علاقہ" کہا گیا۔ جب کمپنی کو بنگال میں دیوانی کے حقوق ملے تو درحقیقت اس کی حیثیت ایک علاقائی طاقت کی ہو گئی۔ اس کے بعد سے کمپنی تجارت سے سیاست کی طرف آتی گئی۔ ہندوستان کے مقبوضات کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔ ہندوستان پر اقتدار قائم کرنے کے بعد کمپنی کی انتظامیہ میں دو رحجانات تھے : ایک تو یہ تھا کہ یہ قدرت کی طرف سے ایک تحفہ ہے کہ جو اسے ملا ہے۔ اب اس کا فرض ہے کہ ہندوستان کی قدیم تہذیب جو وقت کے ہاتھوں ختم ہو گئی ہے اسے دوبارہ سے زندہ کیا جائے۔ دوسرا مکتبہ فکر یہ تھا کہ ہندوستان کے لوگ تہذیب و تمدن اور ثقافت میں بہت پس ماندہ ہیں، اس لیے انہیں مہذب بنانے کے لیے یورپی روایات اور اداروں سے روشناس کرایا جائے تاکہ یہ ترقی کر سکیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی تجارت اور اس کے ثقافتی اثرات پر انتونی وائلڈ (Antony Wild) نے دی ایسٹ انڈیا کمپنی The East India Company: Trade and Conquest from 1600 (1999) لکھی ہے۔ وائلڈ کمپنی کی تاریخ کی ابتداء اس وقت سے کرتا ہے کہ جب اس نے "
مسالوں کی تجارت" سے ابتداء کی۔ مسالے مشرق بعید سے حاصل کیے جاتے تھے، جبکہ کپڑا ہندوستان سے لیجایا جاتا تھا۔ انگلستان میں خاص طور سے ان دونوں کی اشد ضرورت تھی۔ مسالوں کے ذریعہ نہ صرف کھانے کو محفوظ کیا جاتا تھا، بلکہ اس کے ذائقہ کو بہتر بنایا جاتا تھا جب کہ روئی کے بنے ہوئے نفیس کپڑوں نے اہل انگلستان کو اون کے کپڑوں سے نجات دلوائی، جو نہ صرف جلد کے لیے تکلیف دہ اور بیماریوں کا باعث تھے، بلکہ صفائی نہ ہونے کے باعث ان میں جوئیں پڑ جاتی تھیں، اور نہ دھلنے کے باعث ان سے بدبو آنے لگتی تھی۔ ان دونوں اشیاء کی درآمد سے انگلستان کے معاشرے میں زبردست ثقافتی تبدیلی آئی۔ بعد میں کافی اور چائے نے ان کی ثقافتی زندگی کو اور زیادہ بدلا۔ چائے یا Tea کا لفظ سب سے پہلے انگریزی زبان میں 1615ء میں استعمال ہوا۔ اگرچہ کمپنی کی تجارتی اشیاء میں اس کی زیادہ اہمیت نہیں تھی، مگر اٹھارہویں صدی کے نصف میں اس کا رواج بڑھتا گیا۔ چین کہ جہاں سے چائے کی درآمد کی جاتی تھی، وہاں اس کو بطور مشروب ہزاروں سال سے استعمال کیا جاتا تھا، وہاں سے یہ برما اور سیام (تھائی لینڈ) میں بھی گئی۔ جاپانیوں نے چائے کے استعمال کو اپنے پڑوسی ملک چین سے سیکھا۔ روس یورپ کا پہلا ملک تھا کہ جس نے اونٹوں کے قافلوں کے ذریعہ صحرائے گوبی سے ہوتے ہوئے آتے تھے، چین سے چائے درآمد کی۔ 1658ء کے ایک اشتہار میں، انگلستان میں بھی اسے چینی مشروب" کے نام سے پکارا گیا تھا۔ لیکن انگلستان میں یہ "شاہی شادی" کے نتیجہ میں زیادہ مقبول ہوئی۔ یہ شادی پر تگیزی شہزادی اور انگلستان کے بادشاہ کی تھی۔ پر تگیزی چائے پینے کے عادی اس وقت ہوئے کہ جب مکاؤ" جزیرہ پر ان کا قبضہ ہوا۔ 1662ء میں چارلس دوم کی کیتھرائن آف برگنزا سے ہوئی کہ جس نے انگلستان کے دربار میں چائے کو روشناس کرایا کہ جہاں چارلس نے چائے پینے کو ایک رسم کے طور پر قائم کر دیا۔ چائے کی طرح کافی نے بھی انگلستان کے معاشرہ پر ثقافتی اثر ڈالے۔ 1639ء میں لندن میں کافی ہاؤسز" کی ابتداء ہوئی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1720ء میں ان کی تعداد شہر لندن میں تین سو تک پہنچ گئی تھی، اور وہاں سے یہ دوسرے شہروں میں بھی مقبول ہونے لگے تھے۔ یہ کافی ہاؤسز ادیبوں، شاعروں، مصوروں، اور دانشوروں کے ملنے کی جگہ بن گئے کہ جس کی وجہ سے علمی و ادبی موضوعات پر بحث و مباحثہ ہونے لگا اور معاشرہ میں ذہنی و فکری سرگرمیاں بڑھ گئیں۔ چین سے آنے والی اشیاء کہ جن میں سلک، چینی کے برتن، نقش و نگار والا فرنیچر اور دیواروں کے لیے کاننذ تھے (Wall Paper) ان سب نے اہل انگلستان کے زوق اور جمالیات کو متاثر کیا۔
کمپنی نے تجارت اور سیاست دونوں پالیسیوں کو برقرار رکھا۔ مثلاً ہندوستان میں تو اس نے فتوحات کے ذریعہ مقبوضات کو بڑھایا، لیکن مشرق کی جانب اس نے مقبوضات کی تعداد کم رکھی اور زیادہ توجہ تجارت پر دی۔ یہ کمپنی کے تجارتی مفادات تھے کہ جن کی وجہ سے سنگاپور اور ہانگ کانگ مشہور تجارتی بندر گلیوں میں تبدیل ہو گئے۔ لیکن کمپنی نے ہندوستان میں اہم کردار ادا کیا کیونکہ یہاں اس کے تجارتی مفادات سے زیادہ سیاسی مفادات ہو گئے تھے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ گورنر جنرل رچرڈ ویلزلی نے گورنمنٹ ہاؤس کی تعمیر کرائی تاکہ ”ہندوستان پر محل کے ذریعہ حکومت کی جائے نہ کہ تجارتی فرم کے آفس سے حکومت کا طریقہ کار حکمرانوں جیسا ہونا چاہیے نہ کہ ململ اور نیل کے تاجر کا۔"
کمپنی نے جب پلاسی کی جنگ کے بعد سیاست کا ذائقہ چکھا تو اس میں اسے تجارت سے زیادہ فائدہ نظر آیا۔ اس لیے کمپنی کے ملازمین نے بدعنوانیوں، اور کرپشن کے ذریعہ بے انتہا دولت اکٹھی کی۔ جب بے تحاشہ دولت کو لے کر یہ انگلستان گئے تو انہوں نے وہاں زمینیں خریدیں اور برطانوی پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کر کے اس کے رکن بھی بن گئے۔ نودولتیوں کا یہ طبقہ انگلستان میں "نوباب" کہلایا۔ ان کی دولت اور رہائش و عادات و اطوار نے انگلستان کے قدیم امراء کو کافی پریشان کر دیا۔