مجلس شوری کا فنی و فکری جائزہ
نظم ابلیس کی مجلس شوری علامہ اقبال نے اپنے وفات سے دو سال قبل ۱۹۳۶ء میں لکھی تھی۔ جس وقت یہ نظم لکھی گئی اس وقت یورپ کی استعماری طاقتیں اپنی استعماریت کے دوام کے لیے اور اپنی نو آبادیاتی نظام کو وسعت دینے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہولناک جنگ کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ مسلم دنیا کی حالت ابتر تھی۔ اکثر مسلم ممالک استعماری طاقتوں کے خونیں پنجہ میں قید تھے۔ بعض ممالک بظاہر آزاد تھے لیکن ذہنی اور تہذیبی طور پر وہ مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار تھے۔ غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے نماز، روزہ، حج اور جہاد جیسی اسلامی عبادت روح و جذبے سے خالی ہو کر ایک ظاہر نمود و نمائش کی چیزیں بن گئی تھیں۔
نظم ابلیس کی مجلس شوری کا فکری جائزہ:
دنیا کے مختلف نظاموں کی طرح ابلیسیت کو بھی ایک مستقل نظام کا درجہ حاصل ہے۔ اس نظام فکر کے تمام سوتے ابلیس کی ذات سے پھوٹتے ہیں۔ نظم " ابلیس کی مجلس شوری" دراصل ابلیسی پارلیمنٹ کے ایک اجلاس کی روداد پر مشتمل ہے۔ جس میں ابلیسی نظام کو در پیش مسائل اور چیلنجوں پر بحث کی جاتی ہے اور دنیا کی سیاسی و تہذ یہی صورت حال خاص طور پر مسلمان معاشرے کی موجودہ کیفیت زیر بحث آتی ہے۔ فکری لحاظ سے اس نظم کی موضوعات درج ذیل ہیں
ابلیس کے کارنامے
شیطانی مجلس شوری کی ابتدا ابلیس کی افتتاحی خطاب سے ہوتی ہے۔ جہاں اس کا ادعائی لہجہ بہت نمایاں ہے۔ گستاخی کے پاداش میں بارگاہ خداوندی سے مردود قرار دینے کے بعد ابلیس کو دنیا میں ضلالت اور گمراہی کے فروغ کی مہلت ملی تھی۔ جس میں اس نے عہد کیا تھا کہ سب لوگوں کو بہو کا کر رہوں گا۔ کرشمہ ساحری انجام دینے میں ابلیس امپیریلسٹ حکمرانوں کے ایجنٹ کا فریضہ انجام دیتا ہے۔ دنیا پر سرمایہ داری کا ظالمانہ نظام مسلط کرنے میں بھی ابلیس کا ہاتھ ہے۔ افتتاحی تقریر کے آخری دو اشعار میں ابلیس یہ چیلنج دے رہا کہ ابلیسی نظام کے محل کہن کو دنیا میں کوئی طاقت بھی سرنگوں نہیں کر سکتی۔
نومیدی، آرزو کی موت: جس طرح آرزو نشاط فکر وفن کی ایک علامت ہے اس طرح نومیدی بھی فکر وفن کے تکرار کی علامت ہے۔ روز ازل سے انسان کو رجائیت عطا کی گئی تھی جبکہ ابلیس کو قنوطیت ملی تھی لیکن اب قنوطی رجائی کو قنوطی بنا رہا ہے۔ رحمت خداوندی سے مایوس شیطان کے لیے انسان اور خدا کے آخری پیغام کے حامل انسان کے اندر شرار آرزو کی تابانی سب سے زیادہ پریشانی کی بات ہے۔ یہی وہ شرار آرزو اور رحمت خداوندی کی تمنا اور اس وابستہ اطاعت الہی کا جذبہ ہے جس نے ہر دور میں انہیں کو شکست دی ہے اور ابلیسی نظام کے تاروپود بکھیر دیے ہیں۔ چنانچہ ابلیس اپنی اصل حریف کی طاقت کو اچھی چرح پہچانتا ہے اور اس کی خصوصیت سے بھی واقف ہے لہذا جب وہ دیکھتا ہے کہ شرار آرزو سے شعلے کی طرح روشن ہو کر اشک سحر گاہی سے وضو کرنے والے ابھی باقی ہے تو پکار اٹھا ہے۔ جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے مزد کیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے امت مسلمہ کا نوحہ : صدیوں کی سیاسی غلامی نے مسلمانوں کی آزاد فطرت کا گلا گھونٹ کر انہیں فرنگیوں کا ذہنی غلام بنا دیا ہے۔ مسلمان بظاہر تو عبادتیں کرتے ہیں مگر یہ صرف ریا کاری کی حد تک عبادتیں ہیں ان کے اندر روح ختم ہو چکی ہے۔
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام
مجلس شوری کے آخری اشعار میں اقبال کا اشارہ سرسید اور مولوی چراغ علی وغیرہ کے تصور تنسیخ جہاد کی طرف ہے جسے بعد میں کمال اتاترک اور آج کل بعض روشن خیال حکمران فروغ دے رہے ہیں۔ جذبہ جہاد کے فقدان کی وجہ سے آج مسلمان ہر جگہ مار کھا رہے ہیں۔ جہاد کے بغیر اسلام ایک انقلابی نظریے کی بجائے رہبانیت بن کر رہ جاتا ہے۔ علامہ نے غیر اسلامی تصوف کو ایک افیون قرار دیا اور علم الکلام کو بھی قوالی کی طرح کا ایک قسم کا نشہ قرار دیا۔ آخری شعر میں ابلیس کے پہلے مشیر کا طنزیہ لہجہ باور کرانا چاہتا ہے کہ تصور جہاد کی تنسیخ، اسلام ابلیسیت کے مقابلے میں اپنی پسپائی کا اعتراف کر رہا ہے۔
جمہوریت:
اس نظم میں اقبال نے مختلف طرز ہائے حکومت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جس سے ان کے دنیا میں رائج حکومتی نظام کے متعلق نقطہ نظر کی وضاحت ہوتی ہے۔ اقبال مغرب کے جمہوری نظام کو ملوکیت کا ایک پردہ سمجھتا ہے اس لیے کہ مغرب کے جمہوری نظام میں بظاہر اخوت و حریت و مساوات کا جو بھی دعوی ہو یہ عوام الناس کے مقابلے میں محض چند ہو شیار ظالموں کی ہلاکت خیز چنگیزی ہے بلکہ اس سے بھی بدتر ہے۔ بقول اقبال۔
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہر روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر
اشتراکیت:
تیسرا مشیر پارلیمنٹ کی توجہ اشتراکیت کی اس تحریک کی طرف مبذول کراتا ہے جو کارل مارکس کے نظریات و افکار کے ذریعے دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ چوتھے مشیر کا خیال ہے مسولین کی فسطائی تحریک اشتراکیت کا توڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ ابلیس اشتراکیت کو مزدکیت کہہ کر جتانا چاہتا ہے کہ یہ کوئی فتنہ نہیں۔ دور قدیم میں بھی ایران کے مرزدک کے ہاتھوں ایک انقلاب رونما ہوا اور چند دن اپنی بہار دکھا کر ختم ہو گیا۔ اقبال اشتراکیت کو تخریب اور فتنہ و فساد کہتا ہے۔ پھر وہ ابلیس کی زبانی مشیروں کے سوالات اور ان کے ذہنی خدشات کا جواب دیتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ ابلیسی نظام کے لیے حقیقی خطرہ کیا ہے اور اس خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے مستقل میں ابلیسی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔
اسلام:
مشیروں کو اشتراکیت کی طرف سے اطمینان دلانے کے بعد ابلیس اصل خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ خطرہ اسلام ہے۔ اسلام ہی ابلیسی نظام کا حقیقی مد مقابل بن سکتا ہے۔ ابلیس وضاحت کرتا ہے کہ مسلمان تعلیمات قرآنی سے دور ہو کر سرمایہ پرستی کو اپنا دین قرار دے چکتے ہیں اور ان کے مذہبی رہنما اسلام کی روحانی قوت سے تہی دامن ہے۔ تاہم تمام تر غلط اندیشوں اور کجرویوں کے باوجود ان کے اندر ایمان کی چنگاری موجود ہے۔
ابلیس کی حکمت عملی :
ابلیس زندگی کے ایسے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے جس میں امت مسلمہ کو بآسانی الجھایا جاسکتا ہے۔ جیسے آسمانوں پر حضرت عیسی گزند ہے یا نہیں اگر زندہ ہے تو ان کی زندگی کی کیا کیفیت ہو گی۔ عیسی نزول فرمائیں گے یاد نیا میں کوئی شخص پیدا ہو گا جس کے اندر عیسی کی صفات موجود ہو گی۔ قرآن پاک کے الفاظ حادث ہیں یا قدیم۔ وغیرہ۔ ان کے علاوہ ابلیس اپنے مشیروں کو تاکید کرتا ہے کہ مسلمان کو خیالی شعر و ادب اوار مجھی تصوف کی طرف رغبت دلا و تا کہ زندگی کا عملی پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل رہے اور اس کے کردار وافعال میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہ ہو۔
فنی جائزہ
نظم ابلیس کی مجلس شوری آٹھ بندوں پر مشتمل ہے۔ بحر کا نام بحر رمل مثمن مخذوف ہے۔ بحر کے ارکان فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن ہیں۔
تمثیلی و کرداری نظم : اس تمثیلی نظم کی تشکیل و تعمیر میں چھ کر داروں نے حصہ لیا ہے۔ ایک ابلیس ہے اور باقی اس کے پانچ مشیر ہیں۔ اس لیے نظم کا لب ولہجہ یکساں نہیں۔ ابلیس کی گفتگو میں خود نمائی، خود پرستی اور غرور د تکبر اور بڑی حد تک جوش موجود ہے۔ وہ اپنے کارناموں کو میں کی تکرار سے زیادہ وزنی اور اپنے مشیروں کی نظر میں لائق تحسین بناتا ہے۔
ڈرامائیت: ڈرامائیت کے تمام عناصر کے باوصف اس نظم کو ڈرامائی نظم کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس میں علامہ اقبال نے بعض افکار و نظریات کو موثر طریقے سے پیش کرنے کے لیے ڈرامائی وسیلوں سے کام لیا ہے۔ ان میں ابلیس اور اس کے پانچ مشیروں کے کردار، ان کرداروں کا مکالمہ ، مجلس شوری کا اسٹیج اور ایک مخصوص فضا وہ ڈرامائی عناصر ہیں جن سے نظم ایک خوبصورت تمثیل کی صورت میں تشکیل پاتی ہے۔ اس ڈرامائیت نے نظم کی تاثیر اور معنویت کو بڑھا دیا ہے۔
ملٹن کا اثر اور شیطان کا کردار: اقبال کا یہ تصور ابلیس ملٹن کے تصور شیطان سے بہت مختلف ہے۔ اقبال کے ابلیس میں جہاں اس کی متکبرانہ شان و شوکت، طاقتوری اور رنگینی ہے وہاں اس کا قوت شر ہونا بھی واضح ہے اور اس کی قوت کا انسان کے مقابلے میں استعمال کیا جانا بھی معلوم ہے جبکہ ملٹن کا شیطان خدا کا حریف بنے کی کوشش کرتا ہے اور ملکوتی قوتوں کے مقابلے میں اپنی شہ زوری دکھاتا ہے۔ اقبال کا تصور حقیقی، مستند اور متوازن ہے جبکہ ملٹن کی تصویر فرضی، ناقابل اعتبار اور غیر معتدل ہے۔
ایجاز وبلاغت:
اس نظم کے اکثر مصرعے دریا کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔ اقبال کی فنی مہارت کا ایک پہلو بعض اشعار ، مصر ھوں اور بعض تراکیب کا حسن ایجاز اور کمال بلاغت ہے۔ صنعت گری کے نمونے: اس نظم میں اقبال نے صنعت تقلبی، صنعت مراقة النظير، صنعت طباق، صنعت ترافق صنعت طبع، صنعت تنسیق الصفات کا استعمال کیا ہے
طالب دعا۔ محمد عثمان ایم فل سکالر سے لیا گیا موضوع ۔ شکریہ