آتش اور صوفیانہ شاعری
خواجہ حیدر علی آتش کا خاندان ایک پیر پرست خاندان تھا۔ مگر آتش کے حالات نے ان کو اپنے گھریلو ماحول سے دور رکھا بچپن میں یتیم ہو گئے ہجرت کر کے لکھنؤ چلے گئے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ بنیادی طور پر ایک صوفی منش انسان ثابت نہ ہوئے مگر پھر بھی شاعری میں وہ محاسن جو کہ اخلاق اور اسلام کے متعلق ہیں انکو تصوف سے تعبیر کیا جاتا ہے تو اس لحاظ سے آتش کی شاعری میں تصوف کا عصر پایا جاتا ہے۔ ان کے حالات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھنگ سے بھی شغف تھا اور بھنگی ملنگوں کو قلندری ملنگ بھی کہا جاتا ہے ۔ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی مستی میں مست رہتے ہیں۔ آتش کا بھی کچھ یہی حال رہا۔ انہوں نے کسی شاہی محل سے رابطہ استوار نہیں کیا۔ اور نہ ہی کسی دنیاوی بادشاہ کی تعریف میں کوئی قصیدہ لکھا۔ انہوں نے اخلاق اور اسلام کے متعلق بہت سے ایسے اشعار کہے جن کی نظیر ملنی ناممکن ہے۔ اپنے انہی شعروں کی وجہ سے انکوصوفی شاعر کہا جاتا ہے۔
معرفت حق تعالى
اللہ تعالیٰ کی معرفت کو تصوف کی شہ رگ مانا جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ جس طرح اللہ ایک ہے تو معرفت کا کوئی ایک پہلو ہوتا تا کہ ہر کوئی اس تک رسائی حاصل کر سکتا مگر صوفیوں نے اس کو ایک گورکھ دھندا بنا کر رکھ دیا ہے اب عام آدمی کی سمجھ سے یہ بالا تر ہے کہ ہم اللہ کی کیا تعریف کریں۔ حالانکہ سورۃ تو حید ( قل ھو اللہ ) میں جو بیان ہوا ہے تو حید کا مکمل خلاصہ ہے ۔ مگر صوفیوں نے اپنے معیار عرفان پر معرفت ایزدی کی اپنے اپنے انداز میں لذتیں لی ہیں۔ آئیے ذیل میں آتش کا نظریہ معرفت حق دیکھتے ہیں۔
معزز قارئین! اب شاعری کے بہت سے نقصانات ہیں جن کی وجہ سے اسلام ( قرآن ) نے شاعری کو کوئی اچھی چیز نہیں کہا اور ساتھ ہی کہا کہ یہ قرآن مجید شاعری نہیں ہے۔
ماسٹر گائیڈ والوں نے مندرجہ ذیل اشعار کا احاطہ کرتے ہوئے صفحہ نمبر 142 پر لکھا ہے کہ ان اشعار میں آتش انسان کو خدا کا جز سمجھتے
ہیں اور ان کے نزدیک یہ جزا ایک نہ ایک دن اپنے کل سے ضرور جا کر ملے گا۔ اب اگر ذرا غور کریں یا تو آتش اپنے حرف سے چوک گئے ہیں یا پھر ماسٹر گائیڈ والوں کوسمجھ میں نہیں آیا کہ آتش کہنا کیا چاہتے ہیں یہ تو و ہی بات ہوئی کہ جیسے عیسائی حضرت عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور یہاں ہر انسان خدا کا جزو ہے۔ گوانسان کو خدا نے انسانوں کی طرح نہ جتا ہو مگر پھر بھی جز ہونا اسکا شریک ٹھہرانا ہوتا ہے۔ جس کو کہ سورۃ توحید ( لم یلد ولم یولد ) کہہ کر ٹھکرا رہی ہے۔ جز تو کسی شئے کا ہوتا ہے اللہ تو لا شئے ہے تو پھر جزو کیسا۔؟
حباب آسا میں دم بھرتا ہوں تیری آشنائی کا
نہایت غم ہے اس قطرے کو دریا کی جدائی کا
ہو سکتا ہے اس شعر میں آتش کا خطاب اللہ سے نہ ہو ۔ وہ حضرت آدم علیہ السلام کے جنت سے نکالے جانے کا رونا ہور ہے ہوں ۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اللہ کو دریا سے مشہبہ نہ کیا ہو بلکہ جنت کو دریا اور خود ( آدم ۔ آدمی ) کو قطرہ کہا ہو ۔ واللہ اعلم ۔ بالا فرض اگر آتش خدا سے مخاطب ہوں بھی سہی تو ان کا دریا اور قطرے کی مثال دینا توحید کا جزو ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ اس لاشریک کے دربار سے شاعر کی قربت سامنے آتی ہے۔ آیت الله حمد حسین انجھی ( ڈھکو صاحب قبلہ ) تصوف کے بیان میں ایک دفہ فرمارہے تھے کہ: اقبال نے کہیں اپنے مخطوطات میں تصوف کے بارے میں کہا تھا کہ تصوف ایک اجنبی پودا ہے جو کہ اسلام آ کے لگا دیا گیا۔ اور حضرت امام جعفر صادق کا فرمان اقدس بھی ساتھ میں پیش کیا کہ آپ نے فرمایا: مفہوم قول امام : سارے صوفی ہمارے دشمن ہیں الغرض تصوف کو دشمنی اہل میت کے لیے ایجاد کیا گیا۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال تصوف کے بارے میں کہتے ہیں: