بیجاپور کے صوفی
اسلامی معاشرے میں صوفیاء کی تحریک نے سماجی و ثقافتی، مذہبی اور سیاسی طور پر اہم کردار ادا کیا ہے۔ عام طور سے صوفیاء کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ عبادت میں مشغول رہنے والے دنیاوی جھگڑوں اور بکھیڑوں سے دور اپنے مریدوں میں گھرے ہوئے رہتے تھے۔ ان کا پیغام امن و آشتی کا پیغام تھا، ان کا تعلق عوام سے تھا، اس وجہ سے انہوں نے اسلام کو پھیلانے میں حصہ لیا۔ خاص طور سے جب ہندوستان میں صوفیاء کی تاریخ لکھی جاتی ہے تو اس میں اس قدر عقیدت کا عنصر ہوتا ہے کہ ان کے ملفوظات اور حکایتوں میں وہ تاریخی حقائق غائب ہو جاتے ہیں، یا مسخ شکل میں سامنے
آتے ہیں۔ ایک دوسرا اہم مفروضہ یہ بھی ہے کہ صوفیاء سیاست سے دور رہے، اور انہوں نے ایک متبادل کلچر پیدا کیا۔ لیکن تاریخی حقائق صوفیاء کے بارے میں ایک دوسری ہی تصویر پیش کرتے ہیں۔ حالات و ماحول کے تحت ان کا کردار بدلتا رہتا ہے۔ ان میں جنگجو اور جہادی صوفیاء بھی نظر آتے ہیں کہ جو حکمرانوں کے ساتھ کافروں سے جنگ و جدل میں مصروف رہتے تھے ، اگر خود ان جنگوں میں شمولیت نہ کر پاتے تھے تو ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں مسلمان حکمراں دشمنوں پر فتح پاتے تھے۔ وہ صوفی بھی تھے کہ جو بادشاہوں کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے تھے اور سیاست میں حصہ لیتے تھے،
اور وہ بھی تھے کہ جو دنیاوی معاملات سے دور عبادت و تبلیغ میں مصروف رہتے تھے۔ اس پس منظر میں رچرڈ میکسول ایشن (Richard Maxwell Eaton) نے بیجا پور کے صوفی (1700-1300) کتاب لکھی (1978) اس میں اس نے قرون وسطی کے ہندوستان میں صوفیاء کے سماجی برول پر سیر حاصل بحث کی ہے۔
بیجا پور کے صوفیاء کی تاریخ سے پہلے وہ اسلامی معاشرے میں تصوف کی ابتداء اور اس کی اہمیت کا ذکر کرتا ہے۔ ابتدائی صوفی روایات عباسی خلافت کی شان و شوکت طاقت اور اقتدار کے رد عمل میں پیدا ہوئیں اس لیے انہوں نے سادگی، علیحدگی اور رہبانیت کا درس دیا جیسے حسن بصری اور ابراہیم بن ادہم کی تعلیمات اس کی عکاس
ہیں۔
ہے۔ اسپنسر ٹری منگھم (I. Spencer Trimingham) نے اپنی کتاب ”اسلام میں صوفی سلسلے" (1971) میں صوفی تاریخ کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ آٹھویں صدی میں دنیاوی معاملات سے علیحدگی کا سلسلہ شروع ہوا۔ نویں صدی میں صوفیاء نے خدا کا جو تصور دیا اس میں خدا رحمان اور رحیم ہے، لہذا اس سے خوف نہیں بلکہ محبت کرنی چاہیے۔ اس مکتبہ فکر کے صوفیاء میں ذوالنون، بایزید بسطامی اور منصور حلاج قاتل ذکر ہیں۔
نویں صدی سے بارہویں صدی میں خانقاہ کا ادارہ وجود میں آیا جو پوری اسلامی دنیا میں پھیل گیا۔ اس وقت تک مرشد اور مرید کی روایات نہیں تھیں۔ تیرہویں صدی میں نظریاتی تشکیل ہوئی جسے وہ طریقت سے موسوم کرتا ہے۔ اب مرشد اور مرید کی تقسیم ہوئی، عبادات کے طریقے اور رسومات کی ابتداء ہوئی۔ مریدوں کو کئی اقسام تقسیم کیا گیا۔ مرشد نے اپنے خلیفہ کی نامزدگی شروع کی۔ اس مرحلہ میں صوفی سلسلہ ایک روایت اور ایک ادارہ بن گیا۔
پندرہویں صدی میں صوفیاء جس مرحلہ میں داخل ہوئے اسے وہ طائفہ کہتا ہے۔ اب پیر کی حیثیت روحانی ہو گئی۔ اور وہ خدا اور مرید کے درمیان واسطہ بن گیا۔ لہذا مریدوں کے لیے ضروری ٹھہرا کہ اس سے برکت حاصل کریں۔ مرنے کے بعد اس کا مزار در گلو" ہو گیا۔ اس کے جانشینوں میں اس کی روحانی برکتیں منتقل ہو جاتی تھیں، اس لیے پیر زادوں کی حیثیت موروثی ہو گئی۔ پیر کی برکت نہ صرف در گلہ میں ہو گئی، بلکہ اس کے جانشینوں میں آگئی۔ اس مرحلہ پر صوفیاء کی تحریک کی شکل بدلی گئی، اب وہ صوفیانہ کے بجائے عقیدت مندانہ (Devotional) ہو گئی۔ اس نے جاہل عوام کو اس تحریک سے منسلک کر دیا جس کی وجہ سے اس کا میں دائرہ اثر مذید بڑھ گیا۔