ہندوستانی معاشرہ اور نظریات کا تصادم
(سولہویں صدی سے اٹھارویں صدی تک)
ہندوستان کی تاریخ کے بارے میں مغربی مورخین اور مفکرین نے یہ تاثر دیا تھا کہ اس کی کوئی تاریخ نہیں ہے، یعنی ہندوستانی معاشرہ منجمد اور ساکت ہے۔ اس میں کوئی حرکت نہیں، کوئی خیالات و افکار کا تصادم نہیں ، اس لیے تبدیلی کا عمل بھی نہیں۔ اب جب کہ ہندوستان تاریخ پر تحقیق شروع ہوئی ہے تو نتائج اس کے برعکس نکلے اور یہ ثابت ہوا کہ ہندوستانی معاشرہ ہر عہد اور ہر زمانہ میں نہ صرف متحرک رہا ہے بلکہ خیالات کے تصادم کے نتیجہ میں فکری تحریکیں پیدا ہوتی رہی ہیں جو معاشرہ کو ذہنی طور
پر آگے بڑھاتی رہی ہیں۔ نو آبادیاتی دور میں اس خیال کو مقبول بٹایا گیا کہ ماضی میں ہندوستان نے بے انتہا پس ماندہ روایات تشکیل دیں، لہذا ہندوستان کی ترقی کا حل یہی ہے کہ ماضی اور اس کی روایات کو ختم کر کے آگے کی جانب دیکھے۔ یہ ترقی کا ماڈل یورپی معاشرہ تھا کہ جس کی روایات میں جدیدیت اور ترقی کے راز پنہاں تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدیدیت کے حامیوں نے اپنی تمام روایات کو رد کر دیا اور روشن خیالی کی راہیں مغربی تہذیب و کلچر میں تلاش کیں۔
اس ضمن میں ہندوستان میں تاریخ کے اس عمل کو فراموش کر دیا گیا کہ روایات میں کبھی بھی یک جستی نہیں ہوتی ہے۔ ایک تو وہ روایات ہوتی ہیں کہ جو مراعات یافتہ طبقے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تشکیل دیتے ہیں، مگر یہ روایات پورے معاشرے کے ذہن کی عکاسی نہیں کرتی ہیں، وہ محروم طبقے بھی ہوتے ہیں کہ جو ان کے خلاف بغاوت کرتے ہیں ان کی مزاحمت کرتے ہیں، کبھی ان انکار کا اظہار فرقوں کی شکل میں ہوتا ہے، تو کبھی یہ بغاوت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اب تک تاریخ حکمراں طبقوں کے ہاتھ میں تھی، اس لیے ان کی روایات اور افکار تاریخ کا ایک حصہ تھیں، مگر اب جب کہ تاریخ کو نچلی سطح سے دیکھا جا رہا ہے عوامی احتجاج اور رد عمل بھی تاریخ کا حصہ بن رہے ہیں اور ان روایات کی نشان دہی ہو رہی ہے کہ جس میں بغاوت ہے احتجاج ہے، تبدیلی کی خواہش ہے۔ ہندوستان کا معاشرہ اس وقت سے ایک نئے چیلنج سے دوچار ہوا کہ جب یہاں پر مسلمان بحیثیت فاتح کے آئے اور اپنے ساتھ ایک نیا مذہب بھی لائے۔ دونوں مذاہب کے درمیان تصادم اور کشی کمی اس لیے قتل ذکر ہے کہ اسلام ایک مشنری مذہب ہے کہ جو تبدیلی مذہب کے لیے لوگوں کو آمادہ کرتا ہے، جبکہ ہندو مذہب میں تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس لیے ہندو مذہب کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج تھا کہ خود کو کیسے بچالیا جائے، کیا یہ کوشش کی جائے کہ اسلامی عقائد کو اپنے اندر ضم کر لیا جائے؟ یا اپنی خالصیت کو برقرار رکھا جائے؟ یہ دونوں رحجانات ہمیں اس دور کی تاریخ میں ملتے ہیں۔
ہندوستان کے حکمران کی حیثیت سے سلاطین دہلی اور بعد میں مغل بادشاہوں کے لیے یہ ایک اہم مسئلہ تھا کہ کیا یہاں شریعت کا نفاذ کر کے ایک اسلامی حکومت قائم کی جائے؟ یا سیکولر بنیادوں پر مذہبی رواداری کے ساتھ حکومت کی جائے؟ مسلمان حکمران طبقوں میں ان دونوں نظریات کے درمیان تصادم رہا ہے۔
سولہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک ہندوستانی معاشرہ اور اس کے نظریات میں تین صدیوں میں ہونے والے ان نظریات و افکار کے باہمی تصادم کی تاریخ کو بیان کیا ہے کہ جس سے ہندوستانی معاشرہ دوچار تھا اس نے خاص طور سے ان روشن خیال اور ترقی پسند نظریات کا تجربہ کیا ہے کہ جو اکبر کے عمدہ اور شاہی سرپرستی میں شامل کیاگیا ۔