قیام پاکستان کے بعد اردو افسانہ
افسانے کا شمار اردو کی مقبول ترین اصناف میں ہوتا ہے۔ افسانے کی روایت اگر چہ مغرب سے آئی مگر قصص، حکایات اور داستانوں کی شکل میں کہانی کی ایک مضبوط روایت ہماری تہذیب اور ادب میں پہلے سے موجود تھی۔
افسانے کی پہلی خوبی اس کا اختصار ہے، غزل کی طرح اس صنف میں بھی روز و ایما کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔ افسانے کی دوسری خوبی یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی خاص بیت معین نہیں ہے، کہانی کے واقعات اور کردار جس سانچے میں ڈھلتے ہیں، وہی اس کی جیت قرار پاتا ہے ای لیے افسانہ امکانات کی وسیع دنیا کا حامل ہے۔ اردو افسانے کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ابتداے ہی تین اہم رویے میسر آ گئے۔
سجاد حیدر یلدرم نے رومانی رجحانات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ پریم چند نے حقیقت نگاری کی بنیاد پر اردو افسانے کی پرشکوہ عمارت استوار کی۔ راشد الخیری نے اپنی کہانیوں کے ذریعے اسلامی اور روحانی سطح کا اطلاق عام کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اردو افسانے کو پہلی باری جت انگارے کی اشاعت کی صورت میں ملی ۔ انکار نے " کی اشاعت ، ترقی پسند تحریک کا آغاز ثابت ہوئی۔ نئے ادب کی تحریک نے ساری حقیقت نگاری اور انقلابی شعور کی بدولت لکھنے اور ان کو طرز احساس سے روشناس کیا۔ اس دور میں افسانہ نگاروں کی ایک ایسی کہکشاں اولاد المنانے کے افق پر طلوع ہوئی جس نے اس عہد کو اردو افسانے کا عہد زریں بنا دیا۔ افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر اور غلام عباس نے اردو افسانے کو علمت ورفعت سے ہمکنار کیا۔
تقسیم ملک کے موقعے پر ہجرت اور فسادات نے اردو افسانے میں ایک اہم موضوع کی
حیثیت حاصل کر لی۔ قیام پاکستان کے وقت کے افسانوں اور افسانہ نگاروں کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے اس امر کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ایک وہ نسل ہے جو پہلے سے لکھ رہی تھی اور جس نے ۱۹۴۷ تک فنی پختگی حاصل کر لی تھی ، ان میں کرشن چندر، بیدی، منٹو، احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس وغیرہ شامل ہیں ۔ ۱۹۴۷ء سے قبل لکھنے والوں کی نسل جو ۱۹۴۷ء کے بعد فنی بلوغت کو پہنچی ، ان میں عزیز احمد ، شوکت صدیقی ، ہاجرہ مسرور، اختر اور ممتاز شیریں، اے حمید، بلونت سنگھ ، قرۃ امین حیدر، ممتاز مفتی اور قدرت اللہ شہاب وغیرہ شامل ہیں۔ اس دور میں افسانہ نگاروں کی ایک اور ذہین نسل سامنے آئی، جس نے افسانہ نگاری کے کینوس کو وسعت عطا کی ، ان میں انتظار حسین، رام محل، جیلانی بانو ، واجدہ تبسم، غلام الثقلین نقوی ، بانوقدسیہ اور جمیلہ ہاشمی وغیرہ شامل ہیں۔ انتظار حسین کے ابتدائی افسانوں میں ماضی پرستی (Nostalgic consciousness) کا رویہ غالب نظر آتا ہے۔ ۱۹۵۸ء کے لگ بھگ انہوں نے علامتی و اساطیری انداز کے حامل افسانے لکھنے شروع کیے ، انور سجاد نے بھی اسی دور میں استعاراتی اور تجریدی انداز اختیار کیا۔