مرزا اسد اللہ خان غالب کی شاعرانہ عظمت
غالب کی عظمت کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کی شاعری ہر دور میں ایک نئی معنویت سے جلوہ گر ہوئی اور اس قدر داد تحقیق و تنقید کے بعد بھی ۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے بجا طور پر کہا تھا: ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں" مقدس وید اور دیوان غالب۔ بیسویں صدی اس اعتبار سے مرزا اسد اللہ خاں غالب کی صدی قرار دی جاتی ہے کہ اس میں غالب کے گنجینۂ معنی کی طلسم کشائی کرتے ہوئے اس کے فن اور فکر میں پنہاں دائگی اور اعلیٰ قدروں کا ادراک حاصل کیا گیا اور مروجہ علوم کے دائرے میں وسعت کے پیش نظر جہاں نئے سانچوں کی ضرورت محسوس کی گئی وہاں غالب کی فکر کے آفاقی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سطحوں پر قابل قدر کوششیں کی گئیں۔ جیسویں صدی میں غالب کی فنی عظمت کے ساتھ ساتھ اس کے فکری سرمائے کی تفہیم پر بھی زور دیا گیا، چنانچہ علمائے فن اس نتیجے پر پہنچے کہ غالب کو اس کے مخصوص دور کے تناظر میں دیکھا جائے تو وہ بنیادی طور پر ایک فلسفی تھا
جس نے اپنے افکار کے لیے شاعری کو پیرایۂ اظہار بنایا۔ اس طرح نہ صرف غالب کو بدلتے ہوئے عصری شعور کے تناظر میں پر کھنے اور سمجھنے کا نیا امکان میسر آیا بلکہ یہ عظیم کی تہذیبی زندگی کی رنگارنگی اور دلکشی کو بھی دیوان غالب کے حوالے سے اظہار و ابلاغ کا ایک مؤثر وسیلہ میسر آیا۔ آل احمد سرور اپنے مضمون "غالب" میں اظہار خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ غالب پر سے ارتحقیقی وتنقیدی مقالات قلم بند ہوئے اس کے باوجود یہ موضوع فرسودہ نہیں ہوا کیونکہ: اس میں ایک ابدی تازگی ہے ۔ ایک ترشے ہوئے ہیرے کی طرح اس میں سینکڑوں پہلو ہیں۔
اس کی شعاعوں سے اہل نظر کا وہی عالم ہے جو پر تو خورشید سے شبنمستان کا ۔ اس لیے ایک روشن اور واضح نقطہ نظر کی تلاش ضروری ہے۔" غالب کے فکری سرمائے کی تلاش کے لیے ایک روشن اور واضح نقطہ نظر کی ضرورت اس کا لیے بھی ہے کہ بڑی شاعری کی تفہیم اور قدر کے تعین کے لیے روایتی سانچے محدود اور ناکافی ثابت ہوتے ہیں۔ غالب نے نہ تو کوئی صنف سخن ایجاد کی، اور نہ ہی کوئی نیا موضوع اردو شاعری کو عطا کیا انہوں نے کہیں پرانے پیالے میں معنویت کی نئی شراب بھر دی اور کہیں صہبائے کہن کو نئے شیشوں میں بھر دیا ۔
غالب نے غزل کی اندرونی دنیا کو جدت اور معنویت کی نئی رمزوں سے آشنا کر دیا۔ ذاتی جذبات کے اظہار میں انفرادیت کو لحوظ رکھا اور شارع عام سے ہٹ کر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ خیال کونئی راہیں ملیں تو زبان میں بھی زندگی کی نئی رمق دوڑ گئی۔ غالب اپنے زمانے میں سانس لینے کے باوجود اپنے عہد میں مکمل طور پر مدغم نہ ہوسکا کیونکہ اس کا تعلق آنے والے زمانوں سے تھا۔ اسی لیے آنے والے زمانوں نے غالب سے زیادہ بہتر قربت محسوس کی۔
غالب کا کمال فن یہ تھا کہ پامال مضامین کو بھی چھو کر ان میں ایک نئی روئیدگی اور بالیدگی پیدا کر دی۔ جدت تخیل اور جدت ادا کے علاوہ وہ تشبیہات و استعارات کے بادشاہ ہیں۔ معنی آفرینی، حسن آفرینی اور اختصار تینوں کی جھلکیاں ان کے اشعار میں نمایاں ہیں، جن کے باعث اردو شاعری نئے سانچوں اور نئی روشوں سے روشناس ہوئی، جیسے درجہ خیال، غبار شمر، دام شنیدن، آتش خاموش ، موج نگاه خود داریی ساحل، دریائے بیتابی ، وادی خیال، جنت خیال، فردوس گوش، دام موج ، تار اشک و غیرہ یہ غالب کی لسانی صنعت گری کا کمال ہے کہ ان کی شاعری کا آب گینه تندی صہبا سے پگھلا جاتا ہے،