مولوی عبدالحق کا مقدمہ انتخاب کلام میر
بابائے اردو مولوی عبد الحق اور اردو لازم وملزوم ہیں، وہ لیلائے اردو کے تیس تھے جنہوں نے اپنی زندگی اردو کی ترویج و ترقی کے لیے وقف کر دی۔ مولوی عبدالحق ایک متنوع شخصیت کے مالک تھے ، یوں تو انہوں نے بہت سی اصناف ادب میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا مگر تحقیق و تنقید کے شعبے میں ان کی خدمات آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خود تحقیق میں دلچسپی لی بلکہ محققوں کی ایک پوری کھیپ تیار کر کے گلستان اردو ادب کی آبیاری پر مامور کر دیا۔
انہوں نے ہمارے کلاسیکی ادبی ورثے کو جس طرح محفوظ کیا اور آنے والی نسلوں تک پہنچایا ، ان کا صرف یہی کارنامہ انہیں اردو ادب کی دنیا میں حیات جاوداں عطا کرنے کے لیے کافی ہے، ان کی تحریروں میں تحقیق وتنقید کا عمدہ امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ مولوی عبدالحق کے مقدمات اور تبصروں کو غیر معمولی اہمیت ملی ، ان کے شائع شدہ مقدمات کی دو جلدوں میں ہر متنوع موضوعات سے متعلق مقالات ملتے ہیں،
مگر تنقید کے نقطۂ نظر سے ان کے مقدمات کو زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ جن میں سے انتخاب کلام میر کا مقدمہ سب سے اہم قرار دیا جاتا ہے۔ اس مقدمے میں کی شخصیت شعری عظمت کے نقوش کو جس طرح اجاگر کیا گیا ہے، اسے تحقیق و تنقید کی زریں مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے اس مقدمے کے ذریعے یہ ثابت کیا ہے کہ معیاری تحقیق ہی ، معیاری تنقید کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح ان کا نقطہ نظر تھا کہ اچھی تخلیق ہی اچھی تنقید کے در کھولتی ہے، وہ لکھتے ہیں:
تنقید پر کتابیں پڑھنے سے تنقید نہیں آتی ، بلکہ اعلیٰ درجے کا کلام اور اعلیٰ پائے کی تنقیدیں پڑھنے سے اس کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔"
مولوی صاحب کی تنقید میں مذکورہ اصول کی مکمل پاسداری دکھائی دیتی ہے۔ پروفیسر عبد المغنی انتخاب کلام میر کے مقدمے کو ان کا اہم ترین اور بہترین ادبی کا زمانہ قرار دیتے ہوے لکھتے ہیں :
واقعہ یہ ہے کہ اس مطالعہ میر میں عبدالحق نے جو تنقیدی نکات پیش کیے ہیں ان . پر اب تک مبسوط کتا ہیں بھی کوئی اضافہ نہیں کرسکی ہیں ، یہ ایک ایسا علامانہ ومحتقانہ مطالعہ ہے جس میں تنقیدی بصیرت بہت نمایاں ہے۔" مولوی عبد الحق نے اپنے مقدمے میں میر کی شخصیت اور فن کی گر ہیں ہی نہیں کھولیں، تقابلی مطالعے کے ذریعے میر کی شاعری کے نمایاں خدو خال کو اجاگر کرنے کی بھی کوشش ہے۔
مثلا میر تقی میر اور میر درد کا تقابل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سلاست و فصاحت زبان جدت و تازگی اور اخلاقی مضامین کے باعث درد، میر صاحب کے لگ بھگ پہنچ جاتے ہیں مگر : بیان میں وہ گھلاوٹ نہیں جو میر صاحب کے یہاں ہے اور نہ غایت درجہ سادگی و سلاست کے ساتھ وہ سوز و گداز ہے اور نہ تخیل کی وہ شان ہے جو شاعری کی جان ہے، خصوصا بیان کا وہ انوکھا انداز جس میں خاصی نزاکت ہوتی ہے جو بہترین پیرائے میں بند کر لیتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔اردو ادب میں بہترین مرثیہ نگار اور خالق مرثیہ
میر انیس کے یہاں خیال کے مقابلے میں الفاظ کی بہترین بہتات ہے اور ان کا خیال سے پہلے لفظ گہری پر نظر پڑتی ہے،
لیکن میر کے اشعار میں الفاظ، خیال کے ساتھ اس طرح لیئے ہوئے ہیں کہ پڑھنے والا مسحور ہو کر رہ جاتا ہے اور اسے لفظ ، خیال سے الگ نظر نہیں آتا، میر انیس کے یہاں دھوم دھام اور بلند آہنگی ہے میر کے یہاں سکون اور خاموشی ہے اور اس کے شعر چپکے چپکے خود بخود دل میں اثر کرتے چلے جاتے ہیں، جس کی مثال اس نشتر کی ہی ہے جس کی دھار نہایت باریک اور تیز ہے اور اس کا اثر اس وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ دل پر جا کر کھنکتا ہے، میرا نہیں رلاتے ہیں، میر خود روتا ہے۔ یہ آپ بیتی ہے اور دو جگہ ہیں ہے۔" بابائے اردو مولوی عبدالحق کے نقطہ نظر کچھ یوں ہے کہ اس میں کچھ اختلاف کی بھی گنجائش نکلتی ہے کیونکہ خواجہ میر درد، اور مرثیہ نگار میر انیس اور خدائے سخن میر تقی میر کے اظہار کے دائرے مختلف ہیں، اس کے باوجود مولوی صاحب کی تنقید قارئین کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔