پنجاب میں سکھوں اور انگریزوں کی حکومت
پنجاب کی تاریخ کے مطالعہ اور اس کے تجزیہ سے اس علاقے کے رہنے والوں کے کردار اور ان کی ذہنیت کی ساخت اور تشکیل کے بارے میں کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ تاریخ کے اتار چڑھاؤ میں پنجاب کن کن ادوار سے گزرا اور اس کے نتیجہ میں یہاں کے معاشرے کی بیٹیوٹ میں کیا کیا تبدیلیاں آئیں۔ اس سلسلہ میں اگرچہ کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر خاص طور سے سکھوں اور برطانوی ادوار کے دوران پنجاب کسی صورت حال سے دوچار تھا۔ اس پر اینڈریو ہے۔ میجر کی کتاب " ریٹرن ٹو امپائر" (Return to Empire) ایک مفید کتاب ہے، جسے 1996ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی ہے۔
اینڈریو میجر نے پنجاب کو ایک سرحدی ریاست سے موسوم کیا ہے کہ جو کابل وسط ایشیا اور ہندوستان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے مسلسل حملہ آوروں کا شکار رہی، مثلاً 11 صدی سے 18 ویں صدی تک اس پر 70 مرتبہ حملے ہوئے اور ان حملوں کی وجہ سے یہاں سیاسی اقتدار غیر پنجابیوں کے ہاتھوں میں رہا۔ ان حملوں اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہاں پر کلچر کی وہ ترقی نہیں ہو سکی کہ جو ہونا چاہیے تھی۔ اس کے علاوہ پنجاب کا معاشرہ ذات پات کے ساتھ ساتھ مختلف قبائل میں بٹا ہوا تھا جن میں خاص طور سے جائوں اور راجپوتوں میں باہمی تصادم رہتا تھا۔
جب ریاست کی طاقت نہ ہو اور قانون و فیصلہ کرنے والے ادارے نہ ہوں تو اس صورت میں قبائلی جھگڑے اور تصادم خوں ریزی و قاتل گری میں ملوث ہو کر کئی نسلوں تک چلتےہیں۔
پنجاب کی اکثریت انیسویں صدی تک گاؤں اور چھوٹے قصبوں میں آباد تھی۔ اس کے بڑے شہروں میں لاہور، ملتان اور امرتسر تھے۔ 18 ویں صدی میں جب مغل خاندان کمزور ہوا اور مرکز کی طاقت اس قابل نہیں رہی کہ پنجاب پر کنٹرول کر سکے تو اس وقت سکھوں کے گروہ کہ جو مسل کہلاتے تھے وہ صوبہ میں ابھرے اور انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اقتدار قائم کر کے مرکزی اور صوبائی حکومت کو لگان دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن ان مسلوں کے سامنے کوئی واضح سیاسی وژن یا پلان نہیں تھا، اس لیے ان کی سرگرمیاں لوٹ مار پر تھیں۔
ایک دوسرے کے علاقوں اور گلوس پر قبضہ کرنے کی وجہ سے یہ آپس میں بھی لڑتے رہتے تھے۔ ان مسلوں کے جھگڑوں میں رنجیت سنگھ کی مسل نے بالاخر دوسروں کو شکست دے کر اپنی فوقیت کو تسلیم کرایا۔ پھر شادی کے ذریعہ اس نے اہم سرداروں سے تعلقات قائم کر کے اپنی ذاتی حیثیت کو طاقتور کر لیا۔
جب 1799ء میں رنجیت سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تو اس نے باقاعدہ ایک ریاست کی بنیاد ڈالی اور خود مہاراجہ کی پوزیشن اختیار کرلی۔ ریاست کی تشکیل کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلوں اور سرداروں کی لوٹ مار ختم ہو گئی۔ اب وہ ایک ریاست کے ماتحت ہو گئے۔ علاقہ میں امن و امان ہوا اور سیاسی استحکام نے لوگوں میں اطمینان کے جذبات کو پیدا کیا۔
سکھ ریاست کے قیام کی ایک اہم خصوصیت یہ تھی کہ پہلی مرتبہ پنجاب میں پنجابیوں کی حکومت قائم ہوئی۔ لیکن اب تک ریاست کے دیہی علاقوں میں سرداروں کا اثر و رسوخ باقی تھا۔ اس مقصد کے لیے رنجیت سنگھ نے ایک بڑی فوج رکھی تاکہ اس کے ذریعہ سے نہ صرف اندرونی بغاوتوں کا خاتمہ کرے ، بلکہ سلطنت کی توسیع بھی کرے ماکہ سرداروں کو فوجی کاروائیوں میں مصروف رکھا جائے اور فتوحات کے نتیجہ میں لوٹ مار اور مال غنیمت کے لالچ میں انہیں اپنا وفادار بنائے رکھا جائے۔ مزید فوج کی اس لیے بھی ضرورت تھی کہ ریاست کا انگریزی توسیع پسندی سے دفاع کیا جائے۔