امتیاز علی تاج کا ڈراما انارکلی کا جائزہ
ڈراما" انار کلی"کا جائزہ
اُردو ڈرامے کی روایت میں انار کلی ایک اہم حیثیت رکھتا ہے۔ سید امتیاز علی تاج نے اہا معروف ڈراما انارکلی پہلی بار۱۹۳۲ء میں کتابی صورت میں شائع کیا۔ ڈراما نگاری کے فن کے ماہر سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ڈراما سٹیج کی چیز ہے جبکہ انارکلی بنیادی طور پر ایک اد بی ڈراما " ہے اور کتابی شکل میں اس کے متعد دایڈیشنوں کی فروخت اس امر کی دلیل ہے کہ : قارئین کے لیے بھی زبر دست کشش کی حامل ہے۔ انار کلی کے قصے کی تاریخی حیثیت کے بارے میں کوئی معتبر شہادت نہیں ملتی لیکن لاہور میں اس کی حیثیت ایک معروف افسانے کی کی ہے۔ یہاں انارکلی کا مزار بھی موجود ہے۔ لاہور کے معروف ترین بازار کا نام بھی انار کی ہے۔ انار کلی کے مقبرے میں لگے فریم میں یہ روایت درج ہے کہ انار کلی" کا خطاب شہنشاہ اکبر کے درم میں نادرہ بیگم یا شرف النساء بیگم، ایک منظور نظر کنیز کو ملا تھا۔ ایک روز اکبر شیش محل میں بیٹا تھا۔
نوجوان انارکلی اس کی خدمت میں مصروف تھی تو اکبر نے آئینوں میں دیکھ لیا کہ وہ سلیم کے اشاروں کا جواب تسلیم دے رہی ہے ۔ بیٹے سے مجرمانہ سازش کے لبے پر شہنشاہ نے اسے زندہ گاڑ دینے کا حکم دیا۔ چناں چہ حکم کی تعمیل میں اسے مقررہ مقام پر سیدھا کھڑا کر کے اس کے گرد دیوار چی دی گئی۔ سلیم کو اس کی موت کا بے حد صدمہ ہوا۔ تخت پر بیٹھنے کے بعد اس نے انارکلی کی قبر پر ایک نہایت ہی عالیشان عمارت بنوادی۔ ڈاکٹر محمد سلیم ملک اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ انار کلی کا قصہ، یورپی سیاحوں نے وضع کیا عام لوگوں نے لوگ کہانی بنایا، لاہور کے مؤرخوں نے اس میں رنگ ملائے اور کئی ادیبوں نے امتیاز علی تاج نے اس حر انگیز روایت کی روشنی میں اپنا فائی ڈراما انا کی کیا۔
امتیاز تاج نے " انار کلی کے قصے کو تین ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب کا عنوان عشق دوسرے کا رقص اور تیسرے کا موت ہے۔ مذکورہ ابواب کے عنوانات اس ڈرامے کی مثلث کے تین زادیے ہیں۔ پہلے دو ابواب میں چار، چار اور آخری باب میں پانچ مناظر رکھے ہیں۔ آخری باب کا آخری منظر انتظامیہ" ہے۔ ڈرامے کا مقام قلعہ لاہور ہے اور زمانہ ۱۵۹۹ء کا موسم بہار ہے۔ ڈرامے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ اکبر کے دربار کی ایک کنیز ، نادرہ جو رقص و سرود اور حسن درویے میں انفرادیت رکھتی ہے، اکبر کی منظور نظر ہو کر انار کلی خطاب پاتی ہے۔ شہزادہ سلیم اس کی محبت کا امیر ہو جاتا ہے۔ انار کلی بھی سلطنت کے ولی عہد شہزادے کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ انار کلی کی چھوٹی بہن ثریا، شہزادے کی انار کلی سے ملاقاتوں کا وسیلہ بنتی ہے۔
اکبر کی ایک درباری کنیر دلاً رام اس صورتحال کو دیکھ کر حسد اور رقابت کا شکار ہو جاتی ہے اور ایسے حالات پیدا کر دیتی ہے جن کے نتیجے میں شہنشاہ اکبر، شہزادے سلیم اور انارکلی کی محبت کے بھید سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ سلیم، شادی کی ضد کرتا ہے مگر حالات و واقعات، انارکلی کا گھیرا تنگ کرتے چلے جاتے ہیں۔ شہزادہ سلیم ، انار کلی کوزندان سے نکالنے کی آخری کوشش کرتا ہے۔ مگر کامیاب نہیں ہو پاتا اور ظلِ الہی ،سلطنت کے وسیع تر مفاد میں ایک حقیر اور معمولی کنیز کو مستقبل کے شہنشاہ ہند سے محبت کرنے کی پاداش میں زندہ دیوار میں چنوا دیتے ہیں۔
انار کلی اور دلآ رام دونوں درباری کنیزیں ہیں لیکن ان کی شخصیت اور کردار میں زمین و آسمان کا تفاوت ہے۔ انار کلی ایک سادہ لوح ، حساس، نازک اندام ، چمپئی رنگت اور غم ناک آنکھوں والی لڑکی ہے۔ اس کے حسن سلیقے اور درباری رکھ رکھاؤ کا شہنشاہ اکبر بھی قائل. ہے۔ انارکلی کے لیے شہزادے کی محبت ہی زندگی کا محور ہے مگر وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے ان دیکھے خوف اور وسوسوں میں مبتلا ہے۔
مجموعی طور پر اس کی شخصیت کی یاسیت اور انفعالیت ہی اس کے ایسے کے اسباب دکھائی دیتے ہیں۔ انار کلی کے مقابلے میں دلآرام کا کردار منفی نوعیت کا ہے اور اس کے کردار کو دیکھتے ہوئے شیکسپیئر کے معروف ڈرامے اوتھیلو کے کردار کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ دل رام ، انار کلی کو نیچا دکھانے اور شہزادے کی منظور نظر بننے کے لیے جس طرح سازش کا تارو پود تیار کرتی ہے اور جس طرح شہنشاہ اکبر جیسا تدبر اور فہم فراست کا مالک انسان بھی نادانستگی میں اس کی سازش کا شکار ہو کر انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دیتا ہے۔ اس کے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک شاطر کنیز ہے اور اپنے مقصد کے حصول کے لیے کسی انتہا پر بھی چھی سکتی ہے۔
شہزادہ سلیم اس ڈرامے کا ہیرو ہے۔ وہ ان تمام علوم و فنون میں مہارت رکھتا ہے جو ایک شہزادے کے شایان شان ہوتے ہیں، مگر استقامت، اولوالعزمی اور قوت فیصلہ سے محروم ہے۔ وہ اُردو غزل کے روایتی عاشق کی طرح انفعالیت کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ وہ کبھی ماں سے لپٹ کر آہ وزاری کرتا ہے اور کبھی باپ کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر حالات کا دھارا تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا اور آخر کار ایک شکست خوردہ اور خر ماں نصیب عاشق کی طرح انار کلی کی موت پر آنسو بہا تا دکھائی دیتا ہے۔ شہنشاہ اکبر کا کردار خاصا مؤثر اور جان دار ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ اکبر کا کردار اس ڈرامے کے نظام شمسی کا سورج ہے تو بے جانہ ہوگا۔ اکبر کی شخصیت میں بادشاہت اور شفقت پدری کے مابین کشمکش کو ڈراما نگار نے فنی بصیرت کے ساتھ اُجاگر کیا ہے۔ انار کلی کے سلسلے میں وہ ظالم اور جابر نہیں ہے لیکن ملکی مصلحت کے پیش نظر وہ اپنے بیٹے کی محبت اور اپنی منظور نظر کنیز کو عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔
اپنے المیہ تاثر کے باعث مذکورہ ڈرامے نے اس بحث کو بھی جنم دیا کہ بنیادی طور پر یہ ڈراما کس کردار کا المیہ ہے۔ پروفیسر عبدالسلام اور سید وقار عظیم اسے انارکلی کا المیہ قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر احتشام حسین اور عشرت رحمانی اسے اکبر کا المیہ جبکہ ڈاکٹر اے بی اشرف اسے انار کلی کے ساتھ ساتھ غربت اور طبقاتی نظام کا المیہ قرار دیتے ہیں ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی اسے المیہ کی بجائے میلو ڈراما قرار دیتے ہیں۔ اُردو ڈرامے کی تاریخ میں انار کلی'' اپنی نوع کی واحد پیشکش ہے، اس ڈرامے کی نثر اپنے غنائی حسن، جذباتی اثر ، شائستگی اور شکوہ کے باعث اُردو ڈرامے کی روایت میں ایک حیات افروز نشان راہ بن کر زندہ رہے گی ۔