سعادت حسن منٹو کا افسانہ
ٹوبہ ٹیک سنگھ
اردو ادب کا مایہ ناز افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اور ان کا مایہ ناز افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ جو اردو ادب میں پایہ تکمیل کی حیثیت رکھتی افسانہ ہے۔اس میں جو تاثر دیا جاتا ہے آج اس پر نظر ڈالے گے فکری اور فنی حوالے سے۔
نفی کے راستے پر اثبات تلاش کرنے کے لیے جس معروضی شعور اور گہرائی کی ضرورت ہے، وہ اُردو افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ منٹو کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ منٹو جہاں فرد کی سائیکی میں اترنے کا ہنر جانتا ہے وہاں بدلتے ہوئے سماجی تناظر میں اُبھرنے والے سیاسی شعور کو بھی اہمیت دیتے ہوئے زندگی کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ منٹو ہمیشہ انفرادیت کی شاہراہ کا مسافر رہا۔ بر عظیم کی تقسیم بھی ایک ایسا واقعہ ہے جس پر لکھتے ہوئے تخلیق کاروں نے خونِ دل میں انگلیاں ڈبولیں۔ منٹو نے بھی فسادات کے المیے کو دل کے نہاں خانوں میں اتارا مگر اس مرحلے پر بھی اپنی معروضیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ منٹو ایک بڑا تخلیق کار تھا اور بڑے تخلیق کار ہنگامی موضوعات پر جذباتی تحریریں پیش کر کے اپنی تخلیقات کی عمر نہیں گھٹاتے بلکہ ہنگامی موضوعات میں بھی آفاقی اقدار تلاش کر کے معمولی کو غیر معمولی بنادیتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ منٹو نے فسادات کے موضوع پر لکھتے ہوئے بھی فسادات سے صرف تحریک حاصل کی اور آفاقی معنویت اور صداقت کی تلاش میں ایک ایسا افسانہ لکھا جو سیدھا اور سپاٹ نظر آنے کے باوجود اپنے اندر تہ داریاں اور دپیچید گیاں سموئے ہوئے ہے۔ افسانے کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد وسائل کی تقسیم کی جاتی ہے اور جہاں بہت کی اشیاء کا ہوارہ ہوتا ہے وہاں یہ فیصلہ بھی ہوتا ہے کہ پاگل خانے کے پاگلوں کا بٹوارہ بھی ہو یعنی ہند و پاگلوں کو ہندوستان بھیج دیا جائے اور مسلمان پاگلوں کو پاکستان ۔ ٹو بہ ٹیک سنگھ میں منٹو نے ایک پاگل سکھ کردار کے ذریعے اس امر پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ ہوش و حواس سے عاری انسانوں پر جغرافیائی تقسیم کا کیا اثر پڑتا ہے اور ہوشمند انسان ایسے مواقع پر کس قسم کے رد عمل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ انسانی تضادات کی ایک عجیب و غریب کہانی ہے۔ منٹو نے ایک پاگل کے کردار کے ذریعے نقل مکانی کے تجربے کی ایک نئی جہت تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، مذکورہ افسانے کی معنویت کا نقش ابھارنے کے لیے منٹو نے اپنے مخصوص چونکا دینے والے زہر خند لہجے سے بھر پور کام لیا ہے۔ لاہور پاگل خانے میں سنگھ، بہت دوسرے پاگلوں کے ساتھ رہتا ہے۔ اپنے گاؤں کی نسبت سے بشن سنگھ، ٹوبہ ٹیک سنگھ کہلاتا ہے۔ افسانہ متضاد کیفیات کا حامل ہونے کے باعث بیک وقت مختلف قسم کے تاثرات اُجاگر کرتا ہے، پاگلوں کے لطیفے بھی ہنساتے ہیں اور بھی ان کی حالت دیکھ کر آنکھوں میں نمی تیرنے لگتی ہے۔ بشن سنگھ کی ہیئت کذائی کبھی ڈراتی ہے، کبھی اس کی باتیں ہنساتی ہیں اور کبھی اس کی حالت
دیکھ کر اس پر ترس آتا ہے۔ بشن سنگھ کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے، اس کی زبان پر ہمہ وقت کچھ بے سروپا الفاظ جاری رہتے تھے۔ اسے کبھی کسی نے سوتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے مگر وہ لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ کم نہانے کی وجہ سے اس کی داڑھی اور سر کے بال آپس میں الجھ کر جم گئے تھے ، وہ ایک بے ضرر پاگل تھا، پاگل خانے کے پرانے ملازمین کو اس کے بارے میں صرف اتنا علم تھا کہ ٹو بہ ٹیک سنگھ میں اس کی کچھ زمینیں تھیں، اچھا کھاتا پیا ز میندار تھا کہ اچانک داغ اُلٹ گیا۔ ہوش و حواس سے عاری ہونے کے باوجود ایک مدھم سا احساس ، ٹو بہ ٹیک سنگھ کی صورت میں اس کے اندر کہیں زندہ تھا۔ اس لیے وہ سب سے ایک ہی سوال پوچھتا ہے کہ ٹو بہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟
جب پاگلوں کے تبادلے کا دن آیا تو سب پاگلوں کو لاریوں میں بٹھا کر سرحد پر لے جایا گیا، وہاں پاگلوں کو لاریوں سے اتارا جا تا اور انہیں دوسرے افسروں کے سپرد کر دیا جاتا ۔ جب بشن سنگھ کی باری آئی تو اس نے ایک افسر سے پوچھا کہ ٹو بہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ؟ افسر ہنسا اور بولا پاکستان میں'۔ یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ کر زور زور سے چلانے لگا۔ ٹو بہ ٹیک سنگھ یہاں ہے" گویا بشن سنگھ تمام تر پاگل پن کے باوجود ٹو بہ ٹیک سنگھ چھوڑنے پر راضی نہیں ہوتا۔ پاگل خانے کی چاردیواری میں مقید رہنے کے باوجود ٹو بہ ٹیک سنگھ سے اس کا جذباتی تعلق اس کے پاؤں کی زنجیر بن جاتا ہے۔
جب بشن سنگھ کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا، جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں ہلا سکے گی ۔ آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا کام ہوتا رہا۔سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی ۔ ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ شخص جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے منہ لینا ہے، ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا اُدھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان ، درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹو بہ ٹیک سنگھ پڑا تھا۔ مجموعی طور پر زیر بحث افسانہ اپنے اندر ایک تلخی اور زہرنا کی کا عصر سموئے ہوئے اپنے قارئین سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا دیوانگی کا کوئی مذہب ہوتا ہے یا کوئی مذہب اپنے پیروکاروں کو دیوانگی کا درس دیتا ہے؟
دارث علوی مذکورہ افسانے کے حوالے سے لکھتے ہیں: ذرا دیکھئے تو افسانہ میں تقسیم اور اس کے اظہار کی پوری مشینری یعنی تقسیم ملک، لوگوں کی ہجرت، پاگلوں کا تبادلہ اور ایک پاگل بشن سنگھ کی روداد ایک دوسرے میں کیسے پیوست ہو چکی ہے کہ اس تقسیم کو اسی شدت اور تاثر کے ساتھ بیان کرنےکا کوئی اور پیرا یہ نظر نہیں آتا ۔ موضوع اور ہائیت کی پیکمل یک آہنگی اس کہانی کی فنکارانہ تکمیل کا ثبوت ہے اور یہی منٹو کی عظمت کا راز ہے۔