فورٹ ولیم کالج اُردو نثر کا فروغ
فورٹ ولیم کالج 4 مئی 1800ء 7 ذی الحجہ 1214ھ ) کو لارڈ ویلز لی گورنر جنرل ایسٹ انڈیا کمپنی نے کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا افتتاح کیا۔ اس سے پہلے کمپنی کے انگریز ملازموں کے لئے اُردو کی تعلیم کا کوئی با قاعدہ بندوبست نہ تھا۔ دارن ہسٹینگر گورنر جنرل اول نے دیسی کالج کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا تھا جس میں انگریزی لازم اور ہندوستانی طلبہ فارسی پڑھتے تھے لیکن یہاں اردو یا کوئی ملکی زبان نہ پڑھائی جاتی تھی۔ فارسی کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے کمپنی کی طرف سے ہر ملازم کو تھیں روپے فی کس دیئے جاتے تھے۔ وہ لوگ اُردو اپنے طور پر پڑھ لیتے تھے یا انگریز حکام اپنے پاتھوں کے لئے اردو کی تعلیم کا انتظام کر دیا کرتے تھے۔ اس زمانہ میں مغلیہ سلطنت کی زبان فارسی تھی۔ فارسی ہی میں تمام عدالتی وملکی کاروبار انجام پاتے تھے ۔ سلطنت کے اثر سے شمالی ہند میں سے عام طور پر اور کم و بیش تمام ہندوستان میں فارسی تعلیم کا رواج تھا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی
ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھی پہلا اور بڑا تعلق سلطنت مغلیہ ہی سے پیدا کرنا تھا۔ اس لئے انگریز بھی فارسی کی تحصیل پر زیادہ توجہ دیتے تھے لیکن مغلیہ سلطنت اور فارسی زبان کا تنزل اور اردو زبان کی ترقی اس سرعت کے ساتھ جاری تھی کہ لارڈ ویلزلی نے انگریزوں کے لئے اُردو کی ضرورت کو محسوس کر لیا اور اس کی باضابطہ تعلیم کا انتظام کر دیا۔ اس ضرورت کے ساتھ ہی گورنر جنرل کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ جو انگریز مینی میں ملازم ہو کر آتے ہیں، وہ ولایت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نہیں آتے اور کاروانی اور حکمرانی کے لئے علوم و فنون کی مہارت ضروری ہے۔ اس لئے اس نے چاہا تھا کہ فورٹ ولیم کالج علوم وفنون کی اعلیٰ درس گاہ ہو جس میں علمی زبانیں عربی و فارسی و شکرت پڑھائی جائیں اور ملکی زبانیں اُردو بنگالی مربی وغیرہ بھی اور یور چین زبانیں انگریزی لاطینی یونانی بھی اور علوم وفنون کی تعلیم بھی دی جائے جس میں تاریخ عالم تاریخ ہند جغرافیہ اصول قانون، شرح الاسلام دھرم شاستر وغیرہ شامل ہوں لیکن کمپنی نے ایسے عظیم الشان کالج کے مصارف کثیر برداشت کرنے سے قطعاً انکار کر دیا اس لئے کالج کو صرف زبان دانی کا کالج بنانا پڑا۔
ڈاکٹر گل کرائسٹ
ڈاکٹر گل کرائسٹ اس کالج کے پہلے پر نیل مقرر ہوئے ۔ وہ اُردو کے بڑے حامی و ماہر تھے اور کئی سال پہلے سے اُردو کی خدمت کر رہے تھے۔ کمپنی کے ملازموں کو بھی اپنے طور پر اُردو پڑھایا کرتے تھے۔ اب کالج میں باقاعدہ اردو کی تعلیم شروع کر دی اور اپنی مدد کے لئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو بھی مدرس مقرر کیا۔ اس تعلیم کے ساتھ ہی انہوں نے اُردو تالیف و تصنیف کا کام بھی لینا شروع کیا اور ان کی کتابوں کو چھاپنے کے لئے اُردو ٹائپ کا مطبع بھی قائم کر دیا۔ یہی ہندوستان میں سب سے پہلا چھاپہ خانہ تھا۔
اس وقت تمام ملک میں اُردو کی ایک کتاب بھی ایسی نہ تھی جس کو فورٹ ولیم کے نصاب تعلیم میں شامل کیا جاتا۔ مطبوعہ کتاب کا تو اس سے پہلے امکان ہی نہ تھا، قلمی کتابوں میں فضلی کی وہ مجلس یا کربل کتی اور شاہ صاحبان دہلوی کے تراجم قرآن مجید مذہبی کتابیں تھیں جو انگریزوں کے کام کی نہ تھیں ۔ تحسین کی نوطرز مرصع مشکل اور ادق تھی اور کتابیں متفرق لوگوں نے لکھیں وہ قلمی ہونے کے سبب سے اور غیر مشہور اشخاص کی تصانیف ہونے کی وجہ سے گمنام تھیں اور اب ان کا پتہ چلا ہے تو مشکل سے کوئی کتاب مذہبی تعلیم سے علیحدہ عام لٹریچر ( تاریخ سیرت افسانہ وغیرہ) کے متعلق تھی اس لئے ڈاکٹر گل کرائسٹ کا اُردو زبان پر کتنا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ہندوستان کے اہل علم واہل زبان لوگوں کو جمع کیا اور کتابیں لکھوائیں۔ ڈاکٹر گل کرائسٹ صرف چار سال اس کالج میں رہے لیکن ان کا شروع کیا ہوا کام جاری رہا۔ ان کے قائم مقام انگریز پرنسپل اور منتظم اس محکمہ تالیف و تصنیف کی عمرانی و سرپرستی کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب کے بعد کپتان ٹامس رو بک کالج کے پرنسپل ہوئے۔
انہوں نے ڈاکٹر صاحب کو ان کی تالیفات میں مدد دی اور خود بھی لغت جہاز رانی وغیرہ کتابیں لکھیں۔ کپتان ٹیلر اور ڈاکٹر ہنٹر بھی فورٹ ولیم کالج کے اردو لکھے پروفیسر تھے۔ فورٹ ولیم کالج کے روح رواں ڈاکٹر گل کرائسٹ تھے انہوں نے اردو کی سر پرستی اور اُردو نثر
کی ترقی میں نمایاں حصہ لیا ملک کے قابل اہل زبان جمع کئے گئے اور ان کی نگرانی میں متعدد کتابیں لکھوائیں اور ترجمہ کروائیں۔ مصنفین کالج میں میرا اس نے باغ و بہار اور تنج خوبی ۔ سید حیدر بخش حیدری نے قصبہ مہروماہ قصہ لیلی مجنوں تاریخ تادری گلزار دانش گلدسته حیدری گلشن ہند طوطا کہانی آرائش محفل اور گل مغفرت میر شیر علی افسوس نے باغ اُردو اور آرائش محفل مرزا علی لطف نے گلشن ہند میر بہادر علی حسینی نے نثر بے نظیر اخلاق ہند تاریخ آسام رسالہ گل کرسٹ' مظہر علی خاں دلانے مادھولال اور کندلا تاریخ ترمیم تقویم لیفت گلشن بیتال کمیسی' تاریخ شیر شاہی جہانگیر نامہ مرزا کاظم علی جواں نے شکنتلا نا تک بارہ ماسه یا دستور ہند اردو ترجمہ تاریخ فرشتہ مولوی امانت اللہ شیدا نے ہدایت ۔ السلام ترجمه قرآن مجید جامع الاخلاق شیخ حفیظ الدین خسرو پرویز خلیل علی خاں اشک نے داستان امیر حمزہ اکرام علی خاں نے اخوان الصفا نبال چند لاہوری نے مذہب عشق، بینی نرائن نے جہاں نے چار گلشن تنبیہ الغافلین، للولال جی نے ہندی زبان کی تاریخ سنگا سن بیسی اور مرزا جان تپش نے شمس البیان مصطلحات ہندوستان لکھا۔
فورٹ ولیم کالج نے اردو نثر کی بڑی خدمت کی باقاعدہ اور متحدہ کوشش کی گئی سلیس نثر نگاری کو د نظر رکھا گیا افسانہ تذکرہ صرف و نحو تاریخ اخلاق اور مذہبی موضوع پر مختلف ضروری دلچسپ اور مفید کتا ہیں لکھی گئیں۔ مصنفین بیرون کالج میں محمد حسن کلیم دہلوی کی ترجمہ خصوص القلم حکیم شریف خاں دہلوی کا ترجمہ قرآن سید انشاء اللہ خاں انشاء دہلوی کی رانی کیکی کی کہانی و دریائے لطافت مرزا قتیل کی دریائے لطافت معدن الفوائد مولوی اسماعیل دہلوی کی تقویت الایمان سید اعظم علی اکبر آبادی کا خانه سرور افزا مرزا رجب علی بیگ کا فسانہ عجائب' سرور سلطانی، شرر عشق شگونه محبت' گلزار سرور شبستان سرور اور محمد بخش مہجور کی گلشن بہار خاص طور پر اہم ہیں۔ نثر نگاری کا رجحان پر تکلف تھا متقی اور سمع نثر نوئیں ہر دلعزیز تھی ۔
فورٹ ولیم کالج نے آسان اور عام فہم عبارت کو رواج دینے کی کوشش کی اس سلسلہ میں میر امن کی ذات اور ان کی کتاب باغ و بہار خاص اہمیت رکھتی ہے اس کی زبان سادہ عام فہم اور روز مرہ کی بول چال کی زبان ہے۔ جس کو عورت مرد بوڑھے جوان عالم چاہل کبھی قسم کے لوگ آسانی اور چسپی سے پڑھ سکتے ہیں لیکن لکھنو کی نثر نگاروں کو یہ طرز مرغوب نہیں تھی دہلی والے بھی عبارت آرائی کے شوقین تھے غالب کے زمانہ تک قافیہ بیائی تابلیت کی دلیل اور انشاء پردازی کی شان سمجھی جاتی تھی لکھنو کے مشہور نثر نگار مرزا رجب علی بیگ کا فسانہ عجائب اس کا شاہکار ہے فارسی الفاظ سے بوجھل عبارت وزن و قافیہ کا لحاظ استعارہ و تشبیہ کا جنگل پر تکلف نثر کا خاص جو ہر تھا لیکن اس مذاق میں رفتہ رفته ضرورت زمانہ کی وجہ سے تبدیلی پیدا ہونے لگی۔ مشکل پسندی اور منفی و مسیح نثر کے بجائے سادہ رواں اور روز مرہ کی بول چال کا رجحان پیدا ہو گیا نثر نگاری کا یہ رنگ دہلی والوں نے جلد اور لکھنو والوں نے بہت دیر میں قبول کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی اور اس کے قریبی زمانہ میں اردو نثر کی حالت بہت کچھ بہتر ہو چکی تھی۔ نثر نگاروں میں اعتدال پیدا ہو چلا تھا مگر قدیم نثر نگاری اور فارسی کے گہرے