اردو ادب میں دکنی غزل کا آغاز
اصناف سخن میں غزل ایک بہترین صنف رہی ہے اور اس صنف کی وجہ سے اردو زبان و ادب کو زینت ملی شاید کسی شاعری میں کسی اور ہیت کو ملی ہو۔
جنوبی ہند کیونکہ شمالی ہند کی ثقافت کے اثرات سے دور رہا اس لیے وہاں کے ادب اور خصوصیت سے غزل نے ایک مخصوص مزاج اختیار کر لیا ۔ جس کی نمایاں تر خصوصیت اس میں وہاں کی دھرتی کی بو باس کا شامل ہوتا ہے۔ اسی کو اصطلاح میں " مقامی رنگ قرار دیتے ہیں۔ بلحاظ زبان یہ غزل فاری آمیز نہیں، بلکہ مقامی اثرات کی بنا پر اس کا جھکاؤ بھاشا مرہٹی اور دیگر زبانوں کی طرف ہے۔ چنانچہ بے شمار تراکیب محاورات، ضرب الامثال و غیرہ براہ راست ان ہی مقامی اثرات کی مرہون منت ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم اس زبان سے اس حد تک نامانوس ہیں کہ اسے بدیشی زبان سمجھ کر ہی پڑھا جا سکتا ہے۔
زبان کی مانند غزل بھی بلحاظ مضمون اور طرز ادا فارسی اثرات سے بیگا نہ نظر آتی ہے جس کا انداز محض استعارات یا تشبیہات ہی سے نہیں بلکہ عشق اور محبوب سے وابستہ تصورات اور کیفیات سے بھی ہوتا ہے۔ اس غزل پر ہندی شاعری اور بالخصوص ہندی گیت کے اثرات نمایاں تر ہیں۔ ہندی گیت میں رادھا کرشن کے پریم نے جذبہ کا رس ہی نہ پیدا کیا بلکہ عشق کی اس روایت کو بھی جنم دیا جس کے تحت عورت عاشق ہے اور مرد ہر جائی محبوب ۔ چنانچہ فارسی غزل کے برعکس جو کہ سراسر مردانہ معاملات سے تعلق رکھتی ہے ... دکھنی غزل میں مردمشق میں صحرانوردی نہیں کرتا بلکہ عورت جو گن بن کر بن بن گھومتی ہے۔ اسی سے بعض نقادوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ یہ غزل لکھنوی ریختی کی ابتدائی صورت ہے جو کہ غلط ہے۔ دراصل دکنی شاعر دھرتی کے زیادہ قریب تھا اس لیے اس کا مادر رایت سے عاری عشق جسمانی سطح پر ہے (اسی لیے اس عہد کی غزل میں تصوف اخلاقیات اور فلسفہ وغیرہ برائے نام ملتے ہیں) اور دکھنی غزل میں کیونکہ اس جسمانی عشق کی علامت عورت بنتی ہے اس لیے اظہار میں ایک خاص طرح کی کو ملتا اور سندرتا پیدا ہو جاتی ہے جس سے بعد کی غزل بالعموم اور ریختی بالخصوص تہی دامن نظر آتی ہے۔