چودھری افضل حق کی زندگی
تاریخ اردو ادب میں عظیم شعراء و ادباء کے زندگی کی مختلف ادوار اور حالات زندگی پر مفصل نوٹ۔
چودھری افضل حق، ایک متنوع شخصیت کے مالک تھے ، وہ ایک بلند پایہ ادیب ہم فکر، شعلہ بیان مقرر اور سیاست دان تھے۔ انہوں نے زندگی کو جس جس انداز سے دیکھا، برتا اور محسوس کیا، اپنی تحریروں میں بیان کر دیا۔ زندگی کسی ایک مقام پر نہیں ٹھہرتی اور یہی زندگی کی خوب صورتی ہے۔ زندگی، صرف روز و شب کے تغیر و تبدل کا نام نہیں، بلکہ یہ شعور و آگہی کے نہ ختم ہونے والے سلسلے کا نام ہے۔ چوہدری افضل حق کی تصانیف میں خاصا تنوع دکھائی دیتا ہے۔
ان کی تصانیف میں دنیا میں دوزخ ، معشوقہ پنجاب" "شعور " " آزادی ہند "دیہاتی رومان"، محبوب خدا خطوط افضل حق پاکستان کی اچھوت تاریخ دین اسلام اور میرا افسانہ شامل ہیں۔
یوں تو افضل حق کی تمام تحریروں میں زندگی کے گہرے شعور کے ساتھ ادبی اسلوب کی نزاکتیں جھلکتی ہیں، مگر ان کی تصنیف " زندگی فکر وفن کے اعتبار سے ایک بلند پایہ تخلیق ہے اور اسی لیے اردو ادب کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ چودھری صاحب کی یہ کتاب زندگی کے عروج وزوال کی بہترین تفسیر ہے۔ انہوں نے یہ) اوراق، گورکھپور جیل میں تصنیف کیے ۔ " زندگی" کے محرک اور پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: زندگی کی تصنیف کا محرک نہ تقابل کا خیال تھا نہ کسی سے مسابقت مد نظر تھی ۔ گورکھپور جیل میں میری قید کی تنہائیوں کا واحد مشغلہ یہی تصنیف تھی۔ زندگی خیر الناس میں نفع الناس کے کی تفسیر ہے اور لوگوں میں زندگی کا شعور پیدا کرنے کی ایک سعی ہے ... میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے گونا گوں تجربوں کی بنا پر آنے والی نسلوں کے لیے میں جو جو کچھ کہنا چاہتا تھا اسے زندگی میں کہہ دیا ہے۔ زندگی کے نئے مسافروں کے لیے یہ کتاب بہترین رہنما ہو سکتی ہے ۔
عمر رسیدہ احباب کے لیے بھی اس کے بعض ابواب عمر رفتہ کی شیریں یا دو آئندہ کا ہولناک تصور ہو سکتے ہیں۔ وہ تو میں جو زندگی کے ڈرامے کو ایک بے کار تماشائی کی حیثیت سے دیکھنے کے خوگر ہیں اور اپنی زندگی کو اہل دنیا کے لیے مفید بنانے سے لا پروا ہیں، کیا تعجب کہ وہ نئی امنگوں کے ساتھ انسانیت کی تعمیر میں لگ جائیں ۔“
زندگی اپنی نوعیت کی ایک منفرد کتاب ہے، یہ ایک ایسے شخص کی روداد حیات ہے جس نے گمنامی دگمراہی کے گڑھے سے نکل کر عرفان و آگہی کی رفعتیں حاصل کیں اور یہ ثابت کیا کہ ترکی خیر میں بدلنے کے لیے حسن نیت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ انسان عزم راسخ کرلے تو راستے کی ہر رکاوٹ خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے۔ اس کتاب کے مطالعے سے اس امر کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں اسے ہدایت دے دیتے ہیں اور اس کے دل پر پڑے قفل تو ڑ کر اسے صراط مستقیم کی نعمت سے سرفراز کر دیتے ہیں ۔
ایک بار حالت خواب میں وہ موت، عذاب قبر، جہنم، اعراف ، بہشت وغیرہ کے مقالات سے گزرتا ہے، وہاں روحیں اکٹھی ہو کر آپ بیتیاں سناتی ہیں۔ یہ آپ بیتیاں، در اصل عبرت کے
مرقعے ہیں۔ زندگی کے باب اول کا، پہلی کہانی میں ہی جہاں فکر کی روشنی چپکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے وہاں اسلوب کی دلکشی بھی جا بجاد من کششِ دل ہو جاتی ہے۔
صبح اٹھا، میرا دل پھولے نہ سماتا تھا، جدھر نظر اٹھتی تھی ، قدرت باغ باغ دکھائی دیتی تھی، گزار کے سبز پوش، پھولوں کے زیور پہنے کھڑے تھے۔ ہوا بہار کی تعریف میں گنگنا رہی تھی ۔