دکنی ادب کی اہمیت
اردو ادب میں دکنی ادب کی اہمیت قابل ذکر ہے اور اس ادب سے اردو زبان وادب کو کافی ترقی ملی ہے۔
آج جب ہم میر تقی میر،خوجہ درد، مرزا اسد اللہ خان غالب یا مومن خان مومن کے اشعار پڑھیں اور پھر قلی قطب شاہ نصرتی یا ہاشمی کے کلام کا مطالعہ کریں تو ہمیں اس کا احساس ہو سکتا ہے جسے آغاز اور انتہاء " سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن سطحی مطالعہ سے ہٹ کر ژرف نگاہی سے دیکھنی ادب اور بالخصوص دیکھنی غزل کا جائزہ لینے پر یہ واضح ہوگا کہ اس عہد کے ادب کی اہمیت محض تاریخی یا کسانی نہیں بلکہ وہ اس قابل ہے کہ جدا گانہ مقام متعین کر کے انفرادی حیثیت میں اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے لیکن اس مقصد کے لیے اس عہد کے تہذیبی اور تمدنی پس منظر سے واقفیت لازمی اور اساسی شرط ہے کیونکہ جب تک جنوبی ہند کی ثقافت اور اس میں ہندی گیت اور دوہوں کی روایت کو نہ سمجھا جائے اس وقت تک اس عہد کی غزل سے کما حقہ لطف اندوزی اگر ناممکن نہیں تو مشکل یقینی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شمالی ہند میں مسلم حکمرانوں کے مسلسل اور مستحکم اقتدار کے باعث وہاں کے در باروں میں جن تہذیبی، تمدنی اور عمرانی روایات نے فروغ پایا وہ جزوی اختلافات سے قطع نظر کسی نہ کسی طور پر ایرانی روایات کی توسیع معلوم ہوتی ہیں جیسے انگریزوں کے لیے یونان آئیڈیل،یعنی پسندیدہ تھا اسی طرح شمالی ہند کے لیے ایران مثال تھا۔ مگر جنوبی ہند کے مسلمان حکمرانوں اور عوام کا اپنی دھرتی سے رشتہ زیادہ گہرا نظر آتا ہے۔ حکمران اور ہندو مسلم رعایا سب ایک ہی رنگ میں رنگے تھے۔ یوں مسلمانوں کی سماوی اور ہندووں کی ارضی روایات کے ملاپ سے جس کلچر نے جنم لیا وہ بعض امور میں فارسی اور ایران پسندی کے باوجود بھی اصلا دکھنی تھا جس کا اندازہ وہاں کے گیتوں غزل اور مثنوی میں مقامی رنگ کی حامل تشبیبات و استعارات اور تلمیحات سے ہو جاتا ہے۔ شمال کی مانند دکن بھی بھی غیر ضروری طور پر مفرس نہ ہو سکا۔