اکبر اور مغل ریاست
تاریخ نہ صرف ہمیں ماضی کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہے، اور ان اہم تاریخی کرداروں کی صلاحیتوں کے بارے میں بھی آگاہ کرتی ہے کہ جنہوں نے اپنے زمانے اور عہد میں تاریخ کی تشکیل کی۔ حالات کے رخ کو موڑا اور جامد و ساکت معاشرہ کو متحرک کیا۔ لیکن اگر تاریخ صرف ماضی کے اسی دائرے میں رہتی تو شاید وہ اس قدر موثر نہیں ہوتی جیسے کہ اب ہے۔ کیونکہ ہر دور اور زمانہ میں جب مورخ ماضی کی تشکیل کرتا ہے تو اس میں اس کا اپنا حال جھلکتا ہے، حال کی ضروریات اور تقاضے اس کی تاریخ نویسی میں آ جاتے ہیں۔ اس لیے یہ ہوتا ہے کہ کوئی تاریخی شخصیت گمنامی اور اندھیرے میں رہنے کے بعد اچانک حال کی ضرورت بن کر سامنے آ جاتی ہے، جب اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے تو وہ دوبارہ سے تاریخ کی کتابوں میں
واپس چلی جاتی ہے۔ ہمارے اپنے دور میں حال کی بہت سی نظریاتی جنگیں ماضی کی شخصیتوں یا تاریخی واقعات کی بنیاد پر لڑی گئی ہیں۔ ہم ضرورت کے وقت تاریخ کی کتابوں سے ہیروز کو تلاش کر کے لاتے رہے اور ان کی مدد سے اپنے نظریات کا پرچار کرتے رہے۔ اس کی ایک مثال موجودہ عہد میں اکبر اور اورنگ زیب کی ہے۔ 1920 کی دہائی فرقہ وارانہ فضا میں یہ دونوں شخصیتیں دو متضاد نظریات کی حامل جماعتوں میں بحث کی بنیاد بنیں کہ جن کو مرکز بنا کر ان دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے نظریات کا پرچار کیا۔ اس لیے تاریخ کو جب بھی حال کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر لکھا جاتا ہے، تو اس کے ذریعہ ایک ایسے تاریخی شعور کو پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جس کی بنیاد نظریات پر ہوتی ہے۔ مثلاً فرقہ وارانہ ماحول کی روشنی میں وہ مورخ کہ جو ہندوستان میں سیکولر اور متحدہ قومیت کے حامی ہے۔