ذوق کے قصائد کا فکری جائزہ
قصیدہ گو شاعر شیخ ابراہیم ذوق
ذوق نے اکبر شاہ ثانی اور بہادر شاہ ظفر کا زمانہ دیکھا تھا۔ انہوں نے اپنا پہلا قصیدہ بھی اکبر شاہ کے دربار میں پڑھا تھا بعد میں جب اکبر شاہ ثانی بہادر شاہ ظفر اقتدار پر بیٹھے تو وہ ان کے دربار سے وابستہ ہوگئے وہ بادشاہ کے استاد بھی تھے۔
ذوق کی قصیدہ نگاری کی اصل وجہ بھی دربارداری تھی۔ وہ بادشاہ کے ملازم تھے اس طرح مختلف مواقع پر قصیدہ لکھ کر پڑھا کرتے تھے۔ چوں کہ ان کی قصیدہ نگاری دربار شاہی تک محدود تھی اس لئے ان کے موضوعات و مضامین میں بھی تنوع نہیں ہے۔
اس کے تمام قصائد میں بادشاہوں کی مدح ہے صرف ایک نظم قصیدے کی طرز پر ایک دینی شخصیت سید عاشق نہال کی شان میں دستیاب ہے۔ انہوں نے ہجویات کی طرف بھی کوئی توجہ نہ دی۔
فکری اعتبار سے شیخ ابراہیم ذوق کے قصائد میں ان کے عہد کے گہرے اثرات موجود نہیں ہیں ۔ البتہ حکیمانہ خیالات اور ناصحانہ افکار ضرور دستیاب ہوتے ہیں۔ جن سے ایک طرف تو ان کی عملی شخصیت کا پتہ چلتا ہے تو دوسری طرف ان کے مزاج کی سنجیدگی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذوق کے ہاں سودا کی طرح طئر و ظرافت کا پہلو بھی موجود نہیں ہے۔
ذوق کو مختلف علوم سے گہری دلچسپی تھی اس لئے ان کے قصائد میں علمی اصطلاحات اور مباحث داخل ہوئے ہیں مثلا شنما دو ابو ظفر جب ولی عہد تھے تو ان کی صحت یابی پر انہوں نے جو قصیدہ لکھا اس میں حکمت وطب کی اصطلاحات سے فائدہ اٹھایا۔ دو شعر ملاحظہ کیجئے:
ہر حراج باقی میں ہوتی ہے تولید خون
چاندنی کا پھول ہو اگر ارغوانی ہے بجا
نام کو اشیاء میں نہ کھلی رہی نہ سمیت
بن گئی تریاک افیوں زہر میٹھا ہو گیا
اسی طرح ایک قصیدے میں جو عید کے موقع پر بہادر شاہ ظفر کے حضور پڑھا گیا ذوق نے علم اور عالم کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس طرح اپنی فکر عالمی کا پو دینے کی کوشش کی ہے۔ اکبر شاہ ثانی کی مدح میں لکھے گئے قصیدے کی تشعیب میں قلم اور اس کے متعلقات کا موضوع ہے۔ یہ بھی ان کے علمی انداز سے سوچنے کا مظہر ہے ۔ ان کے ہاں ناصحانہ باتیں بھی موجود ہیں جن پر ان کا روایتی معراج پوری طرح غالب ہے۔ دو شعر ملاحظہ کیجئے۔
ہستی کا اپنے کر نہ بھروسا حباب دار
تعمیر ہے تا ہے اور خیمہ بے طناب
آئی ہے جب سے قالب خاکی میں تیری جان
غافل پئے سفر ہے اسی دن سے پاتراب
ذوق اس زمانے کے شاعر ہیں جو سیاسی اعتبار سے پر امن اور پر سکون زمانہ تھا۔ سیاسی افراتفری اور لوٹ مار کا عہد گزر چکا تھا ۔ اس امن و سکون کو غنیمت جانتے ہوئے اہل سخن کی ایک کثیر تعداد اس عہد میں روایتی موضوعات اور لفظیات سے نئے نئے نقوش ابھارنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ ذوق کا شمار بھی ان شاعروں میں ہوتا ہے جو فنی چابکدستی اور لفظ کے استعمال کے شعور کو اہمیت دیتے ہیں۔
اس میں شبہ نہیں کہ ذوق کے قصا کہ میں نہ ہی اپنے عہد کا ادراک ہے اور نہ ہی کسی بھی فکر کے ابھرنے کے آثار ہیں۔ البتہ وہ قصیدے کے فن سے بخوبی آگاہ تھے ۔ اس کی جزئیات کو مجھتے تھے اس لئے ایک ہی دربار میں بیٹھ کر قصیدے کی نوک پلک سنوارتے رہے اور محض اپنی مشاقی اور تخیل کی بلندی سے اس فن میں اپنا لوہا منوانے کے قابل ہوئے۔