Mir Taqi Mir poetry
خدائے سخن میر تقی میر
میر تقی میر 18 ویں صدی کا ایک اردو شاعر تھا ، جسے وسیع پیمانے پر اردو ادب کی تاریخ کا سب سے بڑا شاعر سمجھا جاتا ہے۔ وہ 1723 میں آگرہ ، ہندوستان میں پیدا ہوا تھا اور اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں گزارا تھا۔
میر کی شاعری جذبات کی گہرائی اور انسانی زندگی کے غموں اور خوشیوں کی تصویر کشی کے لئے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے بنیادی طور پر غزلوں کو لکھا ، جو مختصر نظمیں ہیں جو عام طور پر شاعری کے جوڑے پر مشتمل ہوتی ہیں اور ایک ہی سوچ یا جذبات کو پیش کرتی ہیں۔
میر کی شاعری اکثر اپنے دور میں مغل سلطنت کے زوال اور ہندوستان کے بدلتے ہوئے معاشرتی اور ثقافتی منظر نامے کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کے کام کی خصوصیات اس کی شاندار زبان ، لطیف منظر کشی ، اور تضاد اور ستم ظریفی کے استعمال کی خصوصیت ہے۔
میر کے سب سے مشہور کاموں میں سے کچھ میں "دیوان میر" اور "کلیات میر" کے مجموعے شامل ہیں ، جس میں ان کے بہت سے غزلوں اور دیگر نظموں پر مشتمل ہے۔ میر 1810 میں لکھنؤ میں انتقال کرگئے ، انہوں نے بڑی شاعری کی وراثت کو پیچھے چھوڑ دیا جس کو پوری دنیا میں اردو بولنے والوں نے منایا اور ان کی تعریف کی۔
میر تقی میر ، شاعری کے اس مقام تک پہنچے ، جہاں کسی دوسرے شاعر کو ان کے سامنے لاکر کھڑا کرنا ، اُردو شاعری کی توہین ہی ہوگی ، میر کا زمانہ افراتفری ، زہنی انتشار، سکون کی تلاش ، شرفاء کی پریشان عالی ، معاش کی قلت اور دہلی شہر کی تباہی کی جیتی جاگتی تصویر ہیں ، میر تقی میر کی زخم کھانے کی عادت نہ ہوتی تو ان کی شاعری کا زمانے کے لحاظ سے چراغ گھل جاتا ۔ خدائے سخن میر تقی میر کو دہلی شہر سے بہت زیادہ محبت تھی وہ اپنے شہر کی تباہی نہ دیکھ پاسکے اور لکھنؤ ہجرت کرلی ، لیکن دل کو قرار نہیں آیا ۔
عہد جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موندے
یعنی رات بہت تھے جاگے ، صبح ہوئ آرام کیا
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
آں ہوک سی دل میں اٹھتی ہے اک درد جگر میں ہوتا ہے
ہم راتوں کو اٹھ کر روتے ہیں جب سارا عالم سوتا ہیں
دل تڑپے ہیں جان کھپے ، حال جگر کیا ہوگا
مجنوں مجنوں لوگ کہے کیا مجنوں ہم سا ہوگا
میر صاحب زمانہ نازک ہیں
دونوں ہاتھوں سے تھامۓ دستار
ہوگا کسی دیوار کے سائے تلے میر
کیا کام محبت سے آرام طلب کو
ہمارے آگے ترا جب کسو نے نام لیا
دل ستم زدہ کو تھام تھام لیا
ہستی اپنی حباب کی سی ہیں
یہ نمائش اک سراب کی سی ہیں
نازکی ان کی لبوں کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
میر ان نیم آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہیں
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو
ہم کو حقیر جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
دکھائی دے یوں کہ بے خد کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
کچھ کرو فکر مجھ دیوانے کی
دھوم ہیں پھر بہار آنے کی
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
گفتگو پر مجھے عوام سے ہیں
عشق آنکھوں میں کب نہیں آتا
لہو آتا ہیں جب نہیں آتا
راۓ دور عشق میں روتا ہیں کیا
آگے آگ دیکھئے ہوتا ہیں کیا
دیدانی ہیں شکست گی دل کی
کیا عمارت غموں نے ڈھائی ہیں
بعد مرنے کی میری قبر پے آیا وہ میر
یاد آئ میرے عیسی کو دوا میرے بعد
دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنھیں تخت و تاج کا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا !
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی تک روتے روٹے سو گیا ہے