امیر مینائی
Ameer Menayi,
یوم پیدائش 21 فروری 1829ء لکھنو ہے اور یوم وفات 13 اکتوبر 1900ء ہے۔
منشی امیر مینائی نصیر الدین حیدر ( شاہ اودھ ) کے عہد میں لکھنو میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام مولوی کرم محمد تھا۔ آپ حضرت مخدوم شاہ مینا لکھنوی کی اولاد سے تھے، اس لیے اپنے نام کے ساتھ مینائی“ لکھتے تھے ۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مفتی سعد اللہ رام پوری سے حاصل کی ۔ بعد ازاں تعلیم کی تکمیل کے لیے علمائے فرنگی محل کے مدرسے میں داخل ہوئے منشی مظفر علی اسیر سے شاعری میں اصلاح کی۔ کم عمری ہی میں شاعری میں بلند مقام حاصل کر لیا۔ ابھی آپ کی عمر میں سال تھی کہ نواب واجد علی خاں نے اپنے دربار میں طلب کیا اور کلام سنا۔ بیالیس سال رام پور کے نواب یوسف علی خاں اور نواب کلب علی خاں کے استادر ہے ۔ آخری زمانے میں نواب مرزا داغ نے انھیں حیدرآباد بلوایا ، وہاں جاتے ہی بیمار ہو گئے اور اسی بیماری کے دوران میں انتقال ہوا۔ امیر مینائی کا شمار اپنے عہد کے قادر الکلام شاعروں میں ہوتا ہے۔ انھوں نے تمام اصناف میں شاعری کی مگر غزل اور نعت کی طرف زیادہ رجحان رہا۔ آپ کی شاعری، زبان و بیاں کی خوبیوں اور فکر و خیال کی رعنائیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی نعتوں میں، آورد کے مقابلے میں آمد کا رنگ غالب ہے۔ انھوں نے محاورات اور صنائع کو اس عمدگی سے برتا ہے کہ کلام میں کہیں بھی تصنع پیدا نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے الفاظ و تراکیب کا استعمال بھی محتاط ہو کر کیا ہے اور حتی الامکان سادگی اور روانی کا پہلو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کی نعتوں میں در دوائر اور سوز وگداز کی عمدہ مثالیں ملاتی ہیں۔
ان کی تصانیف میں دو عشقیہ دیوان : "مرآۃ الغیب، صنم خانہ عشق اور ایک نعتیہ دیوان محامد خاتم انبین ہیں۔ انھوں نے شاعروں کا ایک تذکرہ انتخاب یادگار کے نام سے مرتب کیا۔ ان کا نا تمام لغت امیر اللغات بھی ان کا ایک ان شامل اہم علمی کارنامہ ہے۔