Urdu Writer Mirza Adeeb
میرزا ادیب ڈراما نگار شاعر ناول نگار پر ایک نظر
تاریخ پیدائش 1914 ء اور تاریخ وفات 1999ء ہے۔
میرزا ادیب کا اصلی نام دلاور علی اور قلمی نام میرزا ادیب ہے۔ ۱۹۳۱ء میں اسلامیہ ہائی سکول بھاٹی گیٹ سے میٹرک کرنے کے بعد انھوں نے ۱۹۳۵ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی۔اے آنرز کیا۔
میرزا ادیب کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۶ء سے ہوا۔ اس زمانے میں اسلامیہ کالج لاہور میں بہت سی علمی وادبی شخص موجود تھیں جنھوں نے میرزا کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں معاونت کی۔ میرزا نے ابتدا میں شعر و شاعری کی طرف توجہ دی مگر جلد ہی اسے ترک کر کے افسانہ اور ڈراما نگاری کی طرف آگئے۔
انھوں نے ۱۹۳۵ء میں رسالہ ”ادب لطیف' کی ادارت سنبھالی اور طویل عرصے تک اس سے وابستہ رہے۔ پھر ریڈیو پاکستان میں ملازم ہو گئے ۔
میرزا ادیب یک بابی اور ریڈیائی ڈراما نگاری میں اہم مقام رکھتے ہیں تقسیم ہند کے بعد اردو ادب میں یک بابی ڈرامے کو جو فروغ ملا، اس میں میرزا ادیب نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ معاشرے کے نبض شناس تھے، اس لیے ان کے ڈراموں کے موضوعات عام اور روز مرہ زندگی سے متعلق ہیں۔ اپنے معاشرے کی انسانی خواہشات اور توقعات کو میرزا ادیب نے خاص اہمیت دی تھی۔
میرزا ادیب نے کردار نگاری کے سلسلے میں بھی گہرے مشاہدے، انمول بصیرت اور فنکارانہ گرفت سے کام لیا ہے۔ انھوں نے زندگی کے عام کرداروں کو ڈرامائی کرداروں کا درجہ دیا ہے۔ ان کے مکالمے نہایت برجتہ مختصر اور برمحل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ڈراموں میں قاری یا ناظر کی دلچسپی شروع سے آخر تک قائم رہتی ہے جو کسی کامیاب ڈراما نگار کی سب سے بڑی خصوصیت ہے۔ ان کے ڈراموں کے اہم مجموعوں کے نام یہ ہیں: " آنسو اور ستارے لہو در قالین ستون فصیل شب خاک نشیں ، پس پردہ " اور " شیشے کی دیوار ۔ ان کے علاوہ صحرانورد کے خطوط صحرانورد کے رومان اور مٹی کا دیا ( آپ بیتی ) ان کی زندہ رہنے والی کتا بیں ہیں۔