Urdu poetry Tareekh
اُردو شاعری کا ارتقاء
پروفیسر محمود شیرانی کی تحقیق کے مطابق اردو شاعری کا آغاز غزنوی عہد میں فاری کے مشہور شاعر مسعود سعد سلمان سے ہوا جو لا ہور کے بنے والے تھے۔ اگر چنان کار تو کوئی شعریتا ہے ، شاسی زبان کو اس زمانے میں اردو کیا جاتا تھا تا ہم یہ بات قلد نہیں ہے کہ مسعود کے دور کے کچھ ہی مدت بعد امیر خسرو کے کلام کا کچھ حصہ ایسا ملتا ہے جو کاری اور اندی سے مل کر ترتیب پاتا ہے۔ امیر خسرو کے بعد شمالی ہند میں کوئی قابل ذکر شاعر تاریخ میں محفوظ نہیں ہے۔ ادھر دکن میں وہاں کے مسلمان بادشاہوں نے سیاسی مصلحتوں کی بنا پر مقامی زبان کی حوصلہ افزائی کی اور اس شاعری کی پرورش کی ہے اس لیے اس سے دکنی کہا جاتا ہے اور جسے آج ہم اردو شاعری کا نقش اول کہتے ہیں۔
دکن میں شاعروں کی ایک طویل فہرست ہیں ملتی ہے جس میں بادشاہ بھی اور عام شہری قابل ذکر ہیں۔ ان میں سب سے اہم نام ولی دکنی کا ہے جس کی شاعری نے شمالی ہند میں شاعری کی تحریک کا آغاز کیا جس نے مختلف مرحلوں سے گزر کر اردو شاعری کو نیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے مقابلے میں ) کھڑا کیا ہے۔
محمد حسین آزاد نے اس لیے ولی دکنی کو باوا آدم قرار کیا ہے۔ ولی پہلے دکن کے شاعر تھے۔ مغل حکمران محمد شاہ کے زمانے میں انھوں نے دلی کا سفر کیا۔ اس سفر کے دوران میں انھوں نے بقول بعض، ایک صوفی بزرگ شاہ بعد اللہ گلشن کی فرمائش پر اپنی شاعری کو شمالی ہند کی زبان کے محاورے کے مطابق تخلیق کرنا شروع کیا۔ اب تک شمالی ہند میں فارسی شاعری کا رواج تھا۔
ولی دکن کے لوگوں نے ولی دکنی کی شاعری پسند کی اور ولی دکنی نے پہلی مرتبہ اس زبان میں اپنے ہند بات کی عکاسی دیکھی کی ہے وہ کئی سو سال سے بول رہے تھے ۔ چنانچہ نو جوان شاعروں کی ایک بڑی تعداد فارسی سے کنارہ کش ہو کر اردو کی طرف متوجہ ہوئی ہے اس زمانے میں عام طور سے ناسخ کا نام دیا گیا ہے۔ اس دور میں دیگر شعراء کے نام سر فہرست ہے جن میں خان آرزو اور میرزا مظہر جان جاناں کے نام خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مظہر جان جاناں اور ان کے دیگر ہم عصر خود تو فارسی کو خیر باد نہ کہ سکے مگر اپنے عقیدت مندوں اور شاگردوں کی نئی نسل میں ریختہ گوئی کا جوش اور ولولہ پیدا کیا ہے۔
اس دور کے شعرا اور اس کی نسل میں جن شاعروں نے آگے چل کر استادوں کا مرتبہ پایا ان میں شاہ خاتم اور شاہ مبارک آبرو بہت مشہور ہوئے ۔ شمالی ہند میں اُردو شاعری کا یہ پہلا دور تھا۔ اس دور کو ایہام گوئی کا رواج ہوا۔ ایہام گوئی شاعری کا ایک ایسا انداز ہے جس میں شاعر لفظوں کی بازار گرمی سے اپنے علم و فضل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ایہام گوئی کی طرح اردو شاعری میں پھیل گئی شاعر شاہ حاتم اور میرزا مظہر جان جاناں کے ایک ہونہار گر جوان مرگ شاگرد انعام اللہ خاں یقین نے ہر وقت اس کی روک تھام کی جرات کی۔
شاہ حاتم نے اپنے نیم دیوان میں سے ایسے تمام اشعار خارج کر دیے جو ایہام گوئی کی ذیل میں آتے تھے اور ایک مختصر و یوان مرتب کیا جس کا نام "دیوان زادہ " رکھا۔ اردو شاعری کا دوسرا دور ہر اعتبار سے شعری دور کہلایا جاسکتا ہے۔ اس دور میں فارسی کی تمام مروجہ اصناف اردو میں منتقل ہو گئیں۔ غزل اور مثنوی کی روایت دکن میں پہلے بھی موجود تھی۔
خواجہ میر درد، میرزا محمد رفیع سودا، اور میر تقی میر خواجہ میر درد ایک صوفی منش شاعر تھے۔ درد کی شاعری تصوف کی شاعری کا بہترین نمونہ ثابت ہوئی۔ میرزا محمد رفیع سودا نے غزل کے ساتھ قصیدے (مدحیہ ونعتیہ ) اور مرثیے پر خاص توجہ دی۔ میر تقی میر نے غزل اور مثنوی کو آگے بڑھایا۔ غزل تو میر صاحب کی خاص چیز ہے۔
غزل کے دامن کو انھوں نے اتنا وسیع کیا کہ آج تک غزل کہنے والے شاعر ان کی نکتہ چینی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور میر صاحب کی پیروی کرتے ہیں۔ پورے ملک میں مختلف طاقتوں نے اور پکڑ لیا تھا۔ احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ کے حملوں نے مغلیہ سلطنت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ فیض آباد اس بھی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ دلی کے اکثر و بیشتر شاعر فیض آباد منتقل ہونے لگے۔ کچھ مدت کے بعد لکھنو دارالحکومت ہوا تو ان تمام شاعروں کے علاوہ جو پہلے کہی سے آئے تھے لکھنو میں آباد ہو گئے۔
سودا اور میر بھی لکھنو میں ائے۔ ان میں میر حسن مصحفی، اور جرات خاص طور سے مشہور ہوئے۔ یہاں زندگی پر سکون تھی ۔ زندگی میں قوطی سے ختم ہو گی تھی اور اس کی جگہ رجائیت ہر طرف چھائی ہوئی تھی۔ شاعری بھی ان عناصر سے متاثر ہو رہی تھی۔ سید انشا و اور جرات ہے اس دور کے خاص نمائندے ہیں۔ میر حسن نے غزل کو اپنے لیے نا کافی خیال کیا اور مثنوی کی طرف خاص توجہ کی۔ گیارہ مثنویاں کہیں جن میں سے ان کی ایک مثنوی، جس پر انھوں نے خاص محنت کی۔ "سحر البیان " ہے۔ سحر البیان اب تک اردو کی بہترین مثنوی تسلیم کی گئی۔
انسان فطرتا ہر وقت ہشاش بشاش رہنا بھی تو پسند نہیں کرتا۔ میر حسن، جرات اور مصحفی کے بعد کی اس دور کے نسل نے اس رشتے کو جوڑ را کمزور ہو چلا تھا مضبوطی کے ساتھ پکڑا اور پھر ان میں وہ تمام صلاحیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی جو کسی بڑی شاعری میں ہوتی ہیں۔
لکھنو کا یہ زمانہ جس کا آغاز فیض آباد سے ہوتا ہے، نہ صرف اردو شاعری کے لیے بلکہ اردو زبان کے لیے بھی نہا سے مبارک زمانہ تھا۔ انشاء مصحفی ، جرات، میر حسن بزم سے رخصت ہورہے تھے اور نئی نسل محفل میں اپنے قدم جمائی جس کی نمایندگی آتش و ناسخ اور انہیں کر ر ہے تھے۔
تھی۔ امام بخش تاریخ لاہور سے لکھنو گئے تھے مگر زبان پر آتی قدرت حاصل کر لی تھی کہ ان کی زبان سے اگلا ہر لفظ مستند تھا اور ہے۔ زبان کو بنانے سنوارنے میں جتنا شعوری کام ناسخ نے کیا کسی اور سے نہ کیا ہوگا۔ وہ ایک شاعر سے بڑھ کرفن شعر کے استاد تھے ۔ ان کے ایک ہم عصر مصحفی کے قابل فخر شاگر د خواجہ حیدر علی آتش ہیں۔
آتش علم میں تو تاریخ کے مقابلے میں کم تھے مگر شاعری میں ان کا مرتبہ تابندہ ہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ لکھنؤ کے دبستان کے واحد نمائندہ ہے تو وہ شاعر ہیں تو غلط ہوگا۔ زبان کی تراش خراش شعر کو نقصان پہنچارہی تھی مگر ناسخ اور ان کے مقلدین کی پوری توجہ اصلاح زبان پر مرکوز تھی۔ آتش نے نہایت با مردی سے شاعری کا وقار بحال کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب ہوئے۔