بہادرشاہ ظفر
مغل بادشاہ،شاعر،مصنف بہادر شاہ ظفر پر ایک نظر
معلومات شخصیت
بہادر شاہ ظفر کی شہریت۔ہندوستان
مذہب۔سنی اسلام
زوجہ۔تاج محل بیگم
والد۔ اکبرشاہ ثانی
والدہ۔لال بائی
بہن،بھائی۔مرزا جہانگیر، مرزا جہاں شاہ اور مرزا سلیم۔
خاندان۔نسل تیموری خاندان مغل
پیشہ۔ بادشاہ، شاعر،مصنف
مدفن، رنگون
تاریخ تدفین، 7نومبر1862ء کو۔
ابو المظفر، سراج الدین محمد بہادر شاه ثانی اور تخلص ظفر تھا۔ بہادر شاہ ظفر دہلی میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام اکبر شاہ ثانی تھا۔ ان کی تربیت لال قلعہ کے صاف ستھرے ماحول میں ہوئی اور بہترین اساتذہ سے فیض اٹھانے کا موقع ملا ۔ وہ مغلیہ خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ بادشاہت اس وقت ملی، جب مغلیہ خاندان اپنا وقار کھو چکا تھا۔
بہادرشاہ ظفر کے آباؤاجداد پورے برصغیر کے حکمران گزرے ہیں۔لیکن بہادر شاہ ظفر کے تخت نشینی کے وقت بادشاہت صرف دہلی کے لال قلعے تک محدود ہو کر رہ گئی تھی ۔ وہ میں برائے نام بادشاہت بھی ختم ہوگئی ۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کر کے برما کے شہروں رنگون میں قید کردیا۔ آپ قید ہی کے دوران وفات پائی۔
بہادر شاہ ظفر شاہ نصیر،ذوق اور مرزا غالب جیسے عظیم شاعری میں رہ کر شاگری کی شرف حاصل کی۔
لیکن ذہین ایسا رسا تھا کہ کسی کی تقلید یا پیروی نہیں کی۔بلکہ آپ نے ایک منفرد راہ نکالی اور شاعری کو راستہ بنا لیا۔یہ ایک خقیقت ہے کہ بہادرشاہ ظفر کے اشعار سے خون ٹپکتا دکھائی دیتا ہے۔
سیاسی انتشار اور اقتصادی بدحالی کے سبب ان کی شاعری احساس محروی ، مایوسی ، دنیا کی بے ثباتی اور سوز و گداز کی ایک مکمل تصور پیش کرتی ہے ۔ انھوں نے اخلاقی مضامین اور صوفیانہ خیالات بھی خوب بیان کیے ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر کا جس غزل کا بھی مطالعہ کیا جائے ، اس میں ہمیں دو طرح کے اشعار نظر آتے ہیں۔ ایک تو انتہائی یاس انگیز اور دردناک اور دوسرے رنگین یہ رنگین اشعار اس احساس غم کو چھپانے کی ناکام کوشش معلوم ہوتے ہیں ، جو غزل کے پورے ماحول پر چھایا ہوتا ہے۔
بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں کہ۔
دل لگتا نہیں مرا اجڑے دیار
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
کہ دو ان حسرتوں سےکہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
سوانح
بہادر شاہ ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ غازی اکبر ثانی کا دوسرا بیٹا تھا جو لال بائی کے بطن سے تھا یہ بہادر شاہ ظفر کی ماں لال بائی کی یادگار تصویر ہے۔
بہادرشاہ ظفر کا شجرنسب گیارھویں پست شہنشاہ بابر سے ملتا ہے۔بہادر شاہ ظفر دہلی میں پیدا ہوئے دہلی ہی کے آخری حکمران رہا۔بہادر شاہ ظفر اردو ادب کے بہت اور مایہ ناز شاعر رہا ہے اور اردو ادب کے مایہ ناز شاعر محمد ابراہیم ذوق اور مرزا غالب کا شاگرد رہا ہے اس وجہ بہادر شاہ ظفر کی شاعری میں درد بھری کیفیت پائی جاتی ہے اور ہر اور اردو ادب میں بہترین شاعری تسلیم کی گئی۔
بہادر شاہ ظفر کا مقدمہ بغاوت۔
جنگ ازادی ہند کا اغاز 1857ء میں ہوا اور بنگال کے مقام پر ہوا جہاں دیسی سپاہیوں نے ان کارتوسوں کے استعمال سے انکار کردیا تھا۔ان سپاہیوں کو فوجی ملازمت سے برخاست کردیا۔اور بعد میں لکھنو میں بھی یہی مسلہ پیش آیا۔اس وجہ سے برخاست شدہ سپاہی ملک میں پھیل گئے اور فوجیوں کو انگریزوں کے خلاف ابھارنے لگے 9مئی 1857ء کو میرٹھ میں سپاہیوں نے چربی سے بننے والے کارتوس سے انکار کردیا۔ان دوسپاہیوں نے منگل پانڈے اور ایشوری پانڈے نے انگریزوں پر حملہ کردیا۔اور منگل پانڈے کو گرفتار کرالیا گیا اور میرٹھ سے دہلی کی طرف بڑھنے لگے۔مےمیرٹھ کے سپاہیوں کی دہلی آمد سے دہلی کی فوجیں بھی بگڑ گئیں اور دہیل کے مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی تخت نشینی کا اعلان کردیا گیا۔
اس علان کے بعد بغاوت شروع ہوگئی اور بغاوت کی آگ دور دور تک پھیل گئی۔اس سبب سے مغلیہ خاندان اور حکومت کے زوال کا سسب بنی۔
بہادرشاہ ظفر کی گرفتاری
جنرل نکلسن نے انگریز فوجوں کی مدد سے تقریباً چار مہینے تک دہلی کا محاصرہ کیے رکھا اور 14 ستمبر کو کشمیری ردوازہ توڑ دیا گیا۔جنرل نکلس اس لڑائی میں مارا گیا مگر انگریز اور سکھ فوجیوں نے دہلی پر قبضہ کرکے بہادر شاہ ظفر کو گرفتار کرلیا اور بعد میں ایک خودساختہ عدالت کے زریعے بہادر شاہ ظفر جنگ وجدل کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس عدالت خود جج خود ہی مدعی اور خود ہی گوہ۔ بادشاہ کے دوملازمین ماکھن چند اور بسنت خوجہ سرا کو گواہ بنایا گیا۔
ان گواہوں کے بیانات کی بادشاہ نے سختی سے تردید کی۔مگر اسے مجرم قرار دیا گیا اور اسے سزا کے طور پر جلاوطن کرکے رنگون بھیج دیا گیا۔
بہادر شاہ ظفر کے دوبیٹوں اور ایک پوتے کو گولی سے اڑا دیا گیا۔اور دہلی پر قبضہ ہو جانے سے ہر جگہ جنگ آزادی کی رفتار مدہم پڑھ گئی۔اور مارچ1858ء میں لکھنو پر دوبارہ انگریزوں کا قبضہ ہوگیا یہاں بھی ظلم وستم کا خوف ناک دہرا گیا۔
بہادرشاہ ظفر کے دو بیٹوں کی تصویر
پھانسی کا ایک منظر۔
دہلی کی فتح کرنے کے بعد انگریز فوجیوں بہت خطرناک جنگ چھیڑ دی ہر جگہ لوگوں کو سرعام پھانسی دی جاتی اور یا تو توپوں کے سامنے اڑادیا جاتا ۔بہت سے ہندوستانیوں کو مار دیا گیا ہر جگہ پھانسی دی گئی اور گلی گلی میں لاشیں بکھری پڑی رہی اور مسلمانوں کو چن چن کر مارا گیا تاکہ پورے برصغیر پر ایک خوف طاری رہے اور انگریز کی حکومت مذید مسخکم رہے۔اس جنگ میں اور انگریزوں کی ظلم میں مسلمان علماکرام نے انگریزی زبان سیکھنے پر پانبدی لگادی اور گناہ قرار دیا گیا تاکہ انگریزوں کے خلاف لوگ اکھٹا ہوکر ایک تحریک چلائیں۔اس جنگ میں ہر جگہ علم کے دروازے بند کردیے گئے اور مدرسے اور عبادت گاہیں بند کر دی گئی اور بربریت کی انتہا نہ رہی۔اس جنگ مغل خاندان کے چودہ شہزادے دن دہاڑے مارے گئے پھانسی دے سرعام لٹکائے گئے جس سے مغل خاندان پورا تباہ حال ہوگیا۔
بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں کہ۔
دم دمے میں ہم نہیں اب خیر مانگو جان کی
اے ظفر! ٹھنڈی ہوئی اب تیغ ہندوستان کی
یہ شعر بہادر شاہ ظفر نے تمام ہندوستان کو ایک جواب کی طور دیا ہے تاکہ سب ہندوستانی اکٹھے ہوکر اپنی ملک کی دفاع کریں۔