غالب کی شاعری میں پیکر تراشی۔
اردو ادب میں غالب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عظیم نثرنگار بھی گزرا ہے جس شاعری اور نثرنگاری میں خاص قسم کی پیکر تراشی پائی جاتی ہے۔
غالب کی شاعری میں پیکر تراشی کا عمل جاندار اور توانا ہے۔ غالب ہر جگہ الفاظ کے زریعے پیکر تراشی کا جو خاکہ تیار کر لیتا ہے وہ انتہائی مضبوط اور متاثر کن ثابت ہوتی ہے ہر حوالے سے اور ہر شاعری فن کاری سے۔مرزا اسد اللہ خان غالب کے بارے میں بہت سے مصنفین نے رائے پیش کی ہے مثلا۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کہتے ہیں کہ۔"غالب کی شاعری فن میں اور شاعری الفاظ میں جو پیکر تراشی اور تصویروں کی نمایش ملتی ہے وہ غالب کے ذاتی اساسی معاشرتی،تہذیبی،حالات پر اور نجی معاملات پر غالب کے خطوط ذہنی کیفیات کا آئینہ دار ہیں۔
مرزا اسد اللہ خان غالب ایک تہذیب کی اور ایک تہذیبی روایات کے علمبردار بن کر رہنما بنتا ہے۔
غالب کے ذہنی کیفیت زوال پزیر حالات سے اس ان حالات کی عظمت سے غالب کی احساس اور عظمت کو بڑھایا دیا ہے۔
غالب کی شاعری،غالب کی شاعری کی تشریح،غالب کی شاعری اسلوب درج ذیل ہے۔
چناں چہ غالب کی پیکر تراشی اور تصویر کاری بڑی اہمیت کی ہے ان فن میں تہذیبی روایات کا اثر آسان اور مختلف انداز میں ظاہر اور آشکارا ہوتا ہے جس سے غالب کی شاعری چمکتی دمکتی ہے۔اس دور زمانہ میں مخفل ہائے نشاط کی تصویریں مرزا کے ہاں بہت خوب صورت اور انتہائی جان دار نظر آتے ہیں جو غالب نے شاعری کو اہمیت سے جانا ہے اور عروج دی ہے۔
مرزا غالب نے شاعری کو احساس جمال سے اور ذوق حسن سے شاعری کو سجایا ہے مثلا غالب کہتے ہیں کہ۔
ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر مست ایک دن،
قرض کی پیتے تھے مے لیک سمجھتے تھے ایک دن
رنگ لائے گی ہماری فاقہ کشی مستی ایک دن،
غالب کی شاعری میں فارسی زبان کے اثرات۔
پہلے پہل غالب فارسی ادب میں شاعری کو اہمیت دیتا تھا اور بہترین شاعر سمجھا جاتا تھا اور مرزا اسد اللہ خان غالب فارسی شاعری اور ادب پر بڑا عبور رکھتا تھا۔اگر مطالعہ کیا جائے تو مرزا اسد اللہ خان غالب کے شاعری پر فارسی زبان کے اثرات زیادہ ہے وجہ یہ ہے کہ غالب پہلے فارسی شاعری کرتا تھا اور بہت فارسی میں مہارت تھی۔ غالب نے شاعری کی ابتدا فارسی سے کی اور فارسی ادب کو اردو ادب پر زیادہ ترجیح اور اہمیت دیتے تھے۔ فارسی زبان کی استعمال کی وجہ سے غالب کی زبان میں شگفتگی سی پیدا ہوگئی جن سے غالب کی شاعری بہترین بن گئی اور مقبول بھی۔غالب نے فارسی ادب کو بہت وسیع کیا اور ان کی تراکیب تراش کرکے اردو زبان کے دامن کو مذید وسیع کیا اور اپنی شاعری کو ایک نکھار اور رعنائی دی مثلا یہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہوگئیں
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی