مرزا اسد اللہ خان غالب۔
غالب کی شاعری۔
غالب کی شاعری کی تشریح
مرزا غالب ایک بہترین فن پارے کے ساتھ ساتھ بہترین فن کار بھی ہے۔غالب نے ہر جگہ اردو قواعد کو برقرار رکھا ہے۔جگہ جگہ بہترین محاروں اور روزمرہ کا استعمال کرکے شاعری کو سجاوٹ دیتا ہے۔
مرزا غالب ایسا لکھا ہے کہ اس ہر بات ہر لفظ دل میں ضرور اتر جاتا ہے بنا داد کے کوئی شعر رہ نہیں جاتا۔
غالب نے نہ صرف شاعری میں یہی قدم رکھا بلکہ نثرنگاری میں بھی یہی روش برقرار رکھا۔
مرزا غالب نے اپنی شاعری اور نثر نگاری میں بہت سادگی سے
کام لیا ہوا جو اس شاعری اور نثر کی زینت بنتی ہے۔
مرزا غالب کے بارے میں بہت سے مصنفین نے رائے دی ہیں جو ہر حوالے سے درست اور فصیح مانی جاتی ہے۔
مثلا مرزا غالب کے میں عبد الرحمان بجنوری لکھتے کہ "ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہی ہے ایک وید مقدس ہے اور دوسرا دیوان مانا جاتا ہے"
دیوان غالب تاریخ کے اعتبار بہترین کتابوں میں سے ایک تسلیم کیا جاتا ہے۔
اردو ادب میں اور اردو شاعری میں مرزا غالب درخشاں ستارہ بن کر چمکتا ہے۔ جس سے پورا اردو ادب چمکتا ہوا بنتا ہے۔ مرزا غالب نے اردو شاعری اور اردو ادب میں نئی زندگی اور نئی روح پھونک دی ہے۔
مرزا غالب اردو ادب میں چمکتا دمکتا درخشاں ستارہ ہے۔اس نے اردو ادب کو وہ زینت دی جو شاید کسی اور نے دی ہو۔
مرزا غالب نے اپنی قلم میں نئے نئے موضوعات چھنے ہیں اور اردو ادب میں اردو شاعری میں ایک انقلابی لہر پیدا کی ہے۔مرزا غالب کی شاعری میں نثر نگاری میں جگہ جگہ فلسفیانہ خیالات ملتے ہیں جس نے ان فلسفیانہ خیالات کی وجہ شاعری اور اردو ادب کو خوبصورتی دی ہے۔
مرزا غالب فلسفیانہ سوچ۔
اردو ادب میں مرزا غالب ایک بہترین فلسفی ذہن کے مالک تھے۔انھوں نے اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور تخیل کو بلندی شوخی اور فکر کا راز بنا کر ڈھونڈا ہے جو ایک کائناتی گہرا علم ثابت ہوتا ہے۔مرزا غالب اپنی فلسفیانہ ذہن ہونے کی وجہ سے اردو ادب میں مقبول رہا ہے۔
مرزا غالب نہ صرف اپنی زندگی کو بلکہ وہ انسانی زندگی کے نشیب وفراز سے بخوبی واقف اور محسوس کرتا دکھائی دیتا ہے۔
غالب اپنی نکتہ نظر میں انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا گہرا اور عمیق عقل اور تفکر رکھتا ہے۔اور وہ انسانی زندگی کی بنیادی معاملات ومسائل پر غور فکر اور فکرمند رہا ہے۔ ان سوچ اور تفکر کے بدولت غالب انسان کو اپنی عظمت کا احساس دیتے ہیں اور اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سیکھا دیتے ہیں جو ایک فلسفی سوچ بن کر ابھرتا ہے۔غالب نے نظام کائنات کو ایک خاص نگاہ دیکھا ہے جو انسانی زندگی سے متصادم کرتے ہیں۔
غالب کی شاعری میں فلسفیانہ سوچ جگہ جگہ وارد ہے اور ان باتوں کی وجہ غالب کی شاعری کو عظمت ملا جو شاید کسی شاعر کو ملا ہو اور مقبول رہا ہو۔
استدلالی انداز اور بیان
غالب کی شاعری کی نمایاں خصوصیت استدلال اور بیان ہے جن کی وجہ سے غالب کی شاعری بہترین اور منطقی بنتی ہے۔ بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری"غالب صرف جذبات کا تجزیہ نہیں کرتے بلکہ باہمی تعلق وہ بھی آپس میں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غالب کے لیے محبت کوئی کٹھن جذبہ نہیں جو آپ کے لیے دلکش محاکات میں ڈھل جائے بلکہ یہ ایک سخت اور تیز رو ہے جو پورے کردار کے اندر انقلاب پیدا کرکے جذب ہو جاتا ہے۔غالب نے نہ صرف اشاروں سے بلکہ نرم وملائم لطیف بیان،احساسات و کیفیات تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔
غالب کے انداز بیان سمجھنے کے لیے بہت سے اشعار دیوان مل سکتے ہیں جس میں غالب نے استدلالی انداز اپنایا ہے جس میں جذبات احساسات کی معنویت میں اضافہ کرتا دیکھائی دیتا ہے۔
غالب کی شاعری کی حصوصیات
غالب کی شاعری کی انفرادیت
غالب کی شاعری اسلوب