آنگن ناول
عالیہ کے بچپن سے شروع ہوتی ہے ۔ اس نے گھر کے کشیدہ ماحول میں آنکھ کھولی کشیدگی کا باعث اس کا پھوپھی زاد بھائی صفدر تھا۔ صفدر کی ماں سلمہ پھوپھی نے اپنی مرضی سے گھر کے کسی ملازم کے ساتھ شادی کر لی تھی اور صفدر کی پیدائش کے بعد دق میں مبتلا ہو کر مرگئ تھیں ۔ عالیہ کے ابا صفدر کو اپنے ہاں کے لے آئے تھے۔ صفدر بھائی اب اسی گھر میں پل اور بڑھ رہے تھے۔ اب عالیہ کی بڑی بہن تہمینہ کی شادی صفدر سے کرالیتے تھے تمہینہ صفدر کو بہت پسند کرتی تھیں لیکن عالیہ کی اماں کو رنج تھا کہ صفدر ان کے شوہر کی کمائی پر پروان چڑھ رہا ہے اور وہ تہمینہ کا رشتہ صفدر کو دینے کے لیے کسی صورت میں بھی راضی نہیں تھیں اس کے نزدیک صفدر کا ایک اچھے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ عالیہ کی ماں صفدر بھائی کو بڑا تنگ رکھتی تھی چھچھڑوں کا قیمہ اسے کھلاتی اور پانی سے پتلا دودھ اسے پینے کو دیتی تھیں۔ اس بدسلوکی کا علم جب آبا کو ہوا تو وہ صفدر کا خود خیال رکھنے لگے تھے۔ پر اچا نے صفدر بھائی کو پڑھنے کے لیے علی گڑھ بھیج دیا انہوں نے علی گڑھ جا کر ابا کے منی آرڈر واپس لوٹا دیئے ان دونوں باتوں سے عالیہ کی امی کو قدرے اطمینان ہوا اور گھر کی کشیدگی بھی کم ہوئی۔ صفدر جائی بی۔ اے کرنے کے بعد لاپتہ ہو گئے اور عالیہ کے ا ن کے بارے میں پریشان رہنے لگے۔ صفدر بھائی کیمونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے گھر میں اب پہلی سی کشیدگی تو باقی نہیں تھی لیکن ابا زیادہ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزارتے تھے ۔ انگریز کی نوکری ضرور کرتے تھے مگر دل سے انگریز کے خلاف تھے لیکن اماں کو انگریز کی حکومت بہت پسند تھی اور وہ انگریزوں کو اچھا بھی کہتی تھی۔ اسے اس بات پر بڑا فخر تھا کہ اس کی بھابھی انگریز ہے۔ اماں نے ابا کا روپیہ بھی اپنے بھائی کے پاس رکھوا دیا تھا ۔ صفدر کے چلے جانے کے بعد تہمینہ اوربھی چپ ہوگئی تھی ۔ ڈری ڈری اور سہمی سہمی رہتی تھی اس کی ایک ہندو سہیلی کسم دیدی کبھی کبھی اس کے پاس آ جاتی تھی اس کی خوبصورت اور جوان مگر بیوہ تھی اس کے میاں جلیانوالہ باغ کے قتل عام میں مارے گئے تھے چوں کہ ہندوؤں میں بیوہ کی شادی کا رواج نہیں تھا اس لئے اس خوبصورت عورت کو ساری عمر اسی طرح بسر کرںا تھی۔کسم عالیہ کو بہت اچھی لگتی کہ کسی شخص کے ساتھ اپنے گھر سے بھاگ گئی۔ اس
کے باپ رائے صاحب کی بڑی بدنامی ہوئی کچھ مہینہ کسم کو چھوڑ گیا۔ وہ اپنے گھر میں آئی لیکن لٹی لٹی اور کھوئی کھوئی۔کسم دیدی کا داغ دھونے کے لیے تالاب میں ڈوب کر مرگئی۔ تہمینہ اور عالیہ کو اس کے مرنے کا بہت دکھ ہوا۔
تہمینہ کے لئے بڑے بیٹے جمیل رشتہ آیا۔انہوں نے یہ رشته فور منظور کرلیا کیونکہ وہ تہمینہ کی شادی صفدر سے کسی قیمت پر نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ شادی کی تاریخ مقرر ہوئی ۔ زور شور سے تیاری ہونے لگی۔ جہیز سل گئے مہمان آگئے ۔ ان کے شادی کی رسومات شروع ہوئیں اسی دوران صفد بھائی کا ایک خط اماں کے نام آیا لیکن وہ خط تہمینہ کے ہاتھ لگ گیا خط میں لکھا تھا تہمینہ کی شادی مبارک ہو، آپ اسے کسی کا بھی بنادیں پھر بھی وہ میری ہی رہے گی۔ وہ صرف میری ہے میری رہے گی۔
تمہینہ کو اس خط سے بہت خوشی ہوئی اور اس نے خط پھاڑ کر چھولے میں جلا دیا۔ تمہینہ کے دل و دماغ پر اس خط کا بڑا اثر ہوا۔ صبح جب ماما اسے جگانے آئی تو معلوم ہوا اس نے خودکشی کر لی ہے اور اس کے مہندی رچی ہاتھ بڑی بے بسی سے پھیلے ہوئے تھے۔
عالیہ اب اس گھر میں تنہا رہ گئی تھی۔ اگرچہ ان عمر تو زیادہ نہیں تھی لیکن پھر بھی اماں اور ابا کو دلاسا دیتی تھی اور ماں اور ابا سے بہت محبت کرنے لگے تھے ۔ ابا کے دفتر میں معائنے کے لیے کوئی انگریز افسر آرہا تھا اس نے کچھ دنوں ابا کے مصروفیت میں بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ معائنے کے دن عالیہ اور اس کی ماں نے بڑی محنت سے دعوت کا انتظام کیا لیکن عالیہ کے ابا کا انگریز افسر سے جھگڑا ہوگیا انہوں نے اس کے ایک ڈنڈا دے مارا۔ پولیس ابا کو گرفتار کرکے لے گئی ۔ عالیہ کے ماموں اور بڑے چچا کو اس واقعہ کی خبر دی گئی ماموں نے تو رہ کر اپنی جان چھیڑ دی کہ اقدام قتل نہ ہو یہ بہت بڑا جرم ہے ایسے آدمی کے بیوی بچوں کی سر پرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ تھا۔ ماں اس بات کو صاف چھپائی تھیں ۔ بڑے چچا آئے دن ان کا سامان بندھوایا اور انہیں اپنے ہاں لے آئے۔
بڑے چچا کے گھرکی مالی حالت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ ان کے کپڑے کی دکانیں تھیں جن سے تھوڑی بہت آمدنی ہو جاتی تھی لیکن یہ زیادہ تر زیادہ چچا کے دوستوں اور مہمانوں پر خرچ ہوجاتی تھی اور چچا کو سیاست سے فرصت نہیں تھی وہ اپنے کاروبار کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ عالیہ کی چچازاد بہن بھی اسی گھرمیں رہتی تھی اور اس کی ماں کی وفات کے بعد اس کے ابا شادیوں کے چکر میں ایسے پھنسے کہ چھمی کو اپنے پاس بھی نہ رکھ سکے ۔ یہ بڑی دبنگ قسم کی لڑکی تھی کانگریسی بڑے چچا کو چھڑانے کے لیے گھر میں مسلم لیگ کے جلسے کرتی تھی اور گلی میں جلوس نکالتی تھی لیکن عالیہ سے بھی محبت کرتی تھی بڑے چچا جمیل بھیا کی تعلیم و تربیت کا بھی کوئی انتظام نہیں کر سکے جمیل خود ہی ہمت کر کے بی اے کر لیا تھا ۔ٹیوشن پڑها کرلیے تھے اور اس طرح گھر کی مالی مدد ہوجاتی تھی تمہینہ جمیل کا بھائی شکیل بالکل نکما اور آوارہ تھا ۔ بالاخر وہ پڑھائی چھوڑ کر گھر سے بھاگ گیا۔ دمہ کی میں بوڑھی دادی اماں بھی یہیں رہتی تھیں جو سیاست کو فضول باتیں سمجھتی تھی کیونکہ اس کا چھوٹا بیٹا خلافت کی تحریک میں ایسا گیا تھا اور گھر پھر نہیں لوٹا۔ دادی اماں اس کی راہ دیکھتے دیکھتے آگلی جہاں سجائیں۔ بڑی چچی اور سب سب کا خیال رکھتی تھیں۔ کریمن بوا اس گھر کی قدیم نمکخوار تھی۔اسرا میں، عالیہ کے ابا جو بڑے چچا کے دکانیں چلاتے تھے جو گھر کے چھوٹے موٹے کام کرتے رہتے تھے۔جمیل بھیا پہلے چھمی سے عشق کرتے تھے لیکن عالیہ کی اس گھر میں آنے کے بعد جمیل بھیا نے عالیہ کی طرف توجہ دینا شروع کی۔
لیکن عالیہ ان سے اس معاملے میں آخر تک بے تعلق ہی رہی اور برابر ان کی حوصلہ شکنی کرتی رہی۔ چھمی جمیل کو دل سے چاہتی تھی اس لئے اسے عالیہ کی طرف متوجہ دیکھ کر اسے بڑا دکھ ہوا اور وہ عالیہ سے ناراض بھی رہی لیکن عالیہ نے اس کی غلط فہمی دور کر کے اسے منا لیا۔ چھمی کی شادی ایک دیہاتی سے ہوگئی اور وہ خوشی خوشی اپنے گھر چلی گئی حالانکہ عالیہ کو چھمی سے اس بات کی توقع نہیں تھی ۔ عالیہ نے یہاں رہ کر ہی اسے بی ٹی کردیا اور سکول میں پڑھانا بھی شروع کر دیا۔ عالیہ کو اپنے پاوں پر کھڑے ہوتے دیکھ کر خوش ہوتی۔اور ماں کی تیور بدل گئے۔ اور وہ بڑی چچی کو طعنے دیتی تھی۔نجمہ انگریزی سکول میں ایم اے لیکچرار تھیں اور وہ گھر بھ کو جاہل سمجھتی تھیں اور وہ بڑی مغرور اور خود پسند تھیں ۔ انہوں نے ایک سہیلی کے کہنے پر ایک تاجر سے شادی کر لی بعد میں معلوم ہوا کہ وہ تاجر ایم اے انگریزی نہیں تھا نجمہ بیوی کو اس بات کا سخت رنج تھا کہ وہ اس سے طلاق لینا چاہتی تھیں پاکستان کے بعد عالیہ کے ماموں اپنی انگریز بیوی کے ساتھ لاہور آگئے اورانہوں نے عالیہ اور اس کی ماں کو بھی لاہور کے ہوائی ٹکٹ بھیج دیئے۔ بڑے چچا اس بات حق میں نہیں تھے کہ عالیہ اور اس کی ماں پاکستان جائیں۔ عالیہ پاکستان جانے پر راضی نہیں تھی لیکن عالیہ کی ماں کو اپنے بھائی کے پاس آنے کا بڑا شوق تھا اس لیے اس نے طعنوں سے بڑے چین کاسیینہ چلنی کردیا کہ کوئے یہاں بہت برے دن گزارتے ہیں اب ہمارے اچھے دن آگئے ہیں تو آپ ہیں پاکستان جانے نہیں دیتے۔ ایک اور اس کی ماں سب کو روتے چھوڑ کر پاکستان چلے گئے۔
امور میں ماموں نے چار دن اپنے ساتھ رکھا پھر انہیں ایک کوٹھی الاٹ کرادی عالیہ کی ماں سامان سے بھری کھوٹی پاکر مارے خوشی سے بے حال ہوگئی اس کی گویا ساری مرادیں پوری ہوگئیں ماموں کا تبادلہ کراچی ہوگیا۔ عالیہ نے ایک سکول میں نوکری کر لی ۔ دن کے وقت وہ اسکول میں بچوں کو پڑھاتی تھی اور شام کو والٹن کیمپ میں جاکرلٹے پٹےمہاجرین کی دیکھ بھال کرتی تھی ۔ عالیہ کی ماں کو اس کے طور طریقے پسند نہیں تھے عالیہ کو اخبار کی خبر کے زریعے معلوم پڑا تو بڑے چچا ایک بھارت میں ایک ہندو کے ہاتھوں شہید ہوگئے اور پنڈت نہرو نے ان کی موت پر خاندان کی امداد کے لیے تین ہزار روپے کی امداد کا بھی اعلان کیا۔ بڑے چچا کی موت کا عالیہ کو بے حد صدمہ ہوا اور اس کی ماں بھی آبدیدہ ہوئے بغیرنہ رہ سکی ۔ ایک دن میں بھی پائیں سے بنا ہوا کوئی میں آگیا ۔ عالیہ نے اسے پہچان لیا بڑی محبت سے اسے کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں اسے بلایا عالیہ نے اسے دوبارہ سکول میں داخل کرانے کی ایڈمیشن بھی کی ۔ صبح جب عالیہ اسے دیکھنے گئی تو وہ عالیہ کے پچاس روپے چورا فرار ہو چکا تھا۔ عالیہ کو شکیل کے چلے جانے کا بڑا افسوس ہوا اسی طرح ایک دن صفدر بھائی بھی عالیہ کے ہاں آگئے ۔ انہوں نے اس کی محبت میں اب تک کی کسی سے شادی نہیں کی تھی اور وہ کئی بار جا چکے تھے۔ انہوں نے عالیہ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا عالیہ کی امان توصفدر بھائی کی صورت سے بیزار تھی وہ اس شادی پرکب راضی ہوسکتی تھی لیکن عالیہ اس شادی کے لیے تیار ہوگئی تو صفدر نے کہا جمیل وہ اب تھک گئے ہیں امپورٹ ایکسپورٹ کا راشنس حاصل کر کے بہتر زندگی گذاریں گئے عالیہ کو صفدر بھائی کی یہ بات بہت بہت پسند آگئ اور انہوں نے شادی سے انکاردیا ۔ والٹی کیمپ میں ایک ڈاکٹر بھی عالیہ پر بہت مہربان تھا اس نے بہت دولت کا کمائی تھی لیکن ڈاکٹرخواشمند نعمانی نے اسے بھی مسترد کر دیا پاکستان آنے پر اتنی نہیں ہو گی اس لئے اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دیالیکن ہم نے اس کے ساتھ شادی کی عالیہ کو چھمی کی شادی قابل رشک معلوم ہوئی۔ ناول نگار خدیجہ مستور نے ان مسلمانوں کا حیرت ناک انجام دکھایا ہے انہوں نے کانگریس اور آزاد ہندوستانی سے بڑی امیدیں وابسطہ کر رکھی ہیں۔
عالیہ کی ماں۔
عالیہ کی اماں کے کردار کی نمایاں خصوصیات ہیں ۔ اپنے خاندان اپنے بھائی کے انگلستان میں پڑھنے اور انگریز بھابھی کا بڑا زور سے اسے مائی سے نفرت ہے کیونکہ اس کا باپ خاندانی آدمی نہیں تھا۔ سلمہ پھوپھی اس کے باپ کے ساتھ نہ بھاگتی اور عالیہ کے داداکی دادا کی جاگیر کوڑیوں کے ہاتھ نہ بھیگتی اور اگر جاگیر سلامت رہتی تو عالیہ ماں اس کی جگہ جانشین ہوتی کیونکہ سب بہوؤں میں یہی بڑے خاندان کی تھی ۔ اسے اس بات کا بھی بڑا دکھ ہے صفدر اس کے میاں کی کمائی پر تعلیم حاصل کر رہا ہے ۔ وہ تہمینہ کی شادی صفدر کے ساتھ کرنے پر تیار نہیں ہے ۔ انگریز حاکم ہے اور اماں کو اس سے بڑی ہمدردی ہے جیسے عام عورتوں کو صاحبان اقتدار سے ہے ۔ اپنے میاں کی انگریز دشمنی کو نمک حرامی کہتی ہے ۔ میاں بیوی کے ان اختلافات کی وجہ سے گھر کی فضاکشیدہ رہتی ہے۔ اماں کو اپنے بھائی کا بڑا خیال رہتا ہے اپنے میاں کا روپیہ بھی اس کے بھائی کو دے رکھا ہے ۔ عالیہ کے ابا قید ہوجاتے ہیں تو اس کے بجائے کوئی مدد نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ اقدام قتل بہت بڑا جرم ہے ایسے آدمی کے بیوی بچوں کی سرپرستی کرنے میں انہیں بھی خطرہ ہے ۔لیکن عالیہ کی اماں بھائی کی اس بات کو جانتی چھپا لیتی ہے اور بڑے چچا کے ہاں آجاتی ہے۔ بڑی چچی اپنی توفیق کے مطابق ان کا خیال رکھتی ہے لیکن یہ وہاں مطمئن ہیں نہ راضی۔ پاکستان آنے وقت ان ساری خاطر داریوں کا صلہ وہ ان لفظوں میں دیتی ہے۔
" نہ کھلانے کے نہ پلانے کے کون سا دکھ تھا جو یہاں نہیں جھیلا میرے شوہر کو آپ ہی نے چھین لیا۔"
"آپ ہی نے انہیں مار ڈالا ، میری لڑکی کو یتیم کر دیا"
پاکستان آ کر ان کے بھائی انہیں بڑی سی کھوٹی الرٹ کر دیتے ہیں تو ماں کی ساری مرادیں پوری ہوجاتی ہیں اس کوٹھی میں اور صفدر بھائی بھی آتے ہیں لیکن دونوں اماں کی نفرت ونخوست کا شکار بنتے ہیں۔
عالیہ کے ابا۔
عالیہ کے ابا انگریزی کے ملازم مزور تھے ۔ لیکن انگریز سے نفرت ان کے کردار کا سب سے نمایاں پہلو ہے اپنی دونوں بیٹیوں تخمینہ اور عالیہ سے بڑی محبت کرتے تھے لیکن موت و نفرت کی ماری ہوئی بیوی سے وہ نباہ ہی کرتے تھے۔ اپنی مرحوم بھائی کی نشانی صفدر کی پرورش کر رہے تھے۔ پڑھا لکھا کے اس کی شادی تہمینہ سے کرانا چاہتے تھے لیکن بیوی کے لیے تو صفدر کا وجود ہی ناقابل برداشت تھا۔ اس اختلاف نے گھر کی فضا کو خاصا تلخ کر رکھا تھا۔
صفدر کو تعلیم کے لیے علی گڑھ بھیج دیا جاتا ہے اور وہ وہاں جا کر ان کی مالی امداد کی قبول نہیں کیا۔ اس سے گھر فضا کچھ ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن عالیہ کے ابا زیادہ وقت اپنے دوستوں میں گزارتے ہیں گھر سے وہ کچھ لا تعلق ہی ہو جاتے ہیں۔ اورعالیہ کی اماں جمیل بھیا کی رشتہ تہمینہ سےطے کر کر دیتی ہے۔ لیکن وہ تین دن بعد خودکشی کرلیتی ہے عالیہ کے بابا کو تہمینہ کی موت کا اس قدر صدمہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی زیراثر کی وجہ سے انگریز افسر کومار دیتے ہیں اور اقدام قتل کے الزام میں سات سال کی سزا ہو جاتی ہے لیکن انہیں رہائی ہونا نصیب میں نہیں ہوتا اور قیدی میں انتقال کر پاتے ہیں۔
عالیہ کی بڑی بہن ہے اسے صفدر بھائی اچھے لگتے ہیں وہ اماں کے ڈر سے چوری چپکے حرکتیں کرتی ہے۔اور ڈری ہوئی سہمی ہوئی ہوتی رہتی ہے۔آخر کار مہندی کی پتیاں اپنے ہاتھوں سے بکھرتی ہے جو یہ نشانی اس کی سہاگ اجڑنے کا نشانی ہے۔
صفدر بھائی
عالیہ کا پھوپھی ذاد بھائی ہےاس کی ماں اپنی مرضی سے کسی مرزاع سے شادی کر لیتی ہے۔صفدر کی ولادت کے بعد دق میں مبتلا ہوکر مر جاتی ہے۔