مذکر مونث
👉اردو ادب میں مزکر اور مونث کی پہچان۔👈
صیغہ مذکر۔۔۔۔یعنی تذکیر👈
👈مذکر ہمیشہ نر اسم کے لیے استعمال ہوتا ہوگا مثلا
لڑکا،بیل،اونٹ،مرد وغیرہ وغیرہ۔
صیغہ مونث۔۔۔۔۔یعنی تانیث کی پہچان۔۔۔👈
مونث صیغہ ہمیشہ مادہ کے لیے استعمال ہوتا ہے ہوگا مثلا👈عورت،لڑکی،گائے،کتیا،اونٹنی،وغیرہ وغیرہ۔
بے جان چیزوں یعنی اسماء میں نر اور مادہ کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔۔
حقیقی تذکیر و تانیث کی پہچان۔👈
تذکیر وتانیث کا زیادہ وجہ اہل زبان پر ہوتا ہے جیسے اہل زبان قلم کو مذکر بولتے ہیں اور دیکھیں گیند کو مونث بولتے ہیں اس وجہ سے ایسے چیزوں اسماء کی تذکیر وتانیث کو اردو ادب میں غیر حقیقی تذکیر وتانیث کہا جاتا ہے۔ اگر تذکیر وتانیث کی تعریف کی جائے مثلا تذکیر وتانیث وہ ہے جس میں نر کے مقابلے میں مادہ ہو اور مادہ کے مقابلے میں نر ہو اس لیے کیوں کہ جانداروں میں یعنی سانس رکھنے والوں میں قدرتی طور پر نر اور مادہ کا امتیاز یعنی فرق موجود اور واضح ہوتا ہے ان باتوں سے ان کی تانیث حقیص ہوتی تصور ہوگی۔ مثلا،👈 مرد، عورت، بیل، گائے اور اونٹ، اونٹنی، وغیرہ وغیرہ ہے۔
غیر حقیقی تذکیر وتانیث کی پہچان۔👈
اگر دیکھا جائے تو صاف پتاچلتا ہے کہ بے جان اسماء چیزوں میں نر اور مادہ کا کوئی امتیاز یعنی فرق نہیں ہوتا اس لیے ان تذکیر وتانیث کا زیادہ تر تعلق اہل زبان کی ادائیگی پر ہوتا ہے جیسے وہ اوپر تعریف گزرا ہے کک اہل زبان قلم کو مذکر کہہ بولتے ہیں اور گیند کو مونث بولتے ہیں اس لیے ایسے اسماء کو غیر حقیقی تذکیر وتانیث کہا جاتا ہے۔
اب آتے ہیں مذکر اور مونث کے بنیادی اصول پر۔👈
اردو ادب میں مذکر مونث بنیادی سڑی ہے۔👈
اردو ادب میں تمام دنوں اور مہینوں کے نام مذکر ہوتے ہیں لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔ مثلا۔👈 بدھ، منگل،اتوار،دسمبر،اکتوبر،نومبر،اپریل۔۔
ان سب میں خاص دنوں میں جمعرات جو ہے وہ مونث ہے باقی سب مذکر ادا ہوں گے۔
اردو ادب میں تمام آوازیں یعنی صوت مونث ہوتے لکھے بولےجاتے ہیں۔ مثلا👈 کائیں کائیں، سائیں سائیں،چو چو، ہو ہو، میں میں، غٹر غٹر، کو کو، وغیرہ وغیرہ۔
اردو👈 ادب میں زبانوں کے نام ہمیشہ مونث بولے لکھے جاتے ہیں ہوتے ہیں مثلا۔👈 عربی، مجھے عربی نہیں آتی، انگریزی، مجھے اچھی آتی ہے، سیندھی، پشتو، فارسی، اردو، فرانسیسی، ہندکو، سرائیکی وغیرہ وغیرہ۔
اردو👈 ادب میں تمام نمازوں کے نام مونث ادا لکھے پڑھے جاتے اور ہوتے ہیں۔ مثلا،👈 عشاء میں نے عشاء نماز پڑھی ہے، ظہر، فجر، عصر، مغرب، نماز قضا اور نماز جنازہ۔۔
اردو👈 ادب میں تمام جواہرات اور دھاتوں کے نام مذکر ہوتے ہیں مثلا👈 سونا، لوہا، تانبا، پیتل، ہیرا، لیکن ان میں قلعی اور چاندی مونث ہیں۔
اردو ادب میں تمام سیاروں کے نام مذکر ہوتے ہیں مثلا، مریخ، زحل، مریخ، مشتری، لیکن ان میں زمین مونث ہیں۔
اردو 👈ادب میں تمام پہاڑوں دریاؤں،سمندروں کے نام مذکر ہوتے ہیں ان میں گنگا اور جمنا مونث ہیں۔ اس لیے گنگا اور جمنا دو عورتوں کے نام سے رکھا ہے۔
اردو👈 ادب میں تمام شہروں ملکوں اور براعظموں کے نام مذکر ہیں مثلا👈 چین، افریقہ،پاکستان، ہندوستان،ایشیا وغیرہ وغیرہ البتہ دلی مونث ہے اور دہلی مذکر ہی بولتے ہیں۔
اردو ادب میں رشتہ داروں کی تذکیر وتانیث۔👈
اردو ادب میں رشتہ داروں کے جتنے نام ادا ہوتے ہیں سب کے سب مونث بولے جاتے ہیں مثلا👈 ماں، ابا، ملکہ،بادشاہ،بندہ،کنیز،بھائی،خاوند،بھاوج،جورو،خواجہ،رنڈوا،بیوہ،رانڈ،سسر، ساس،تایا،ممانی،ماموں،عورت،مرد،بیوی،میاں،نواب،بیگم،چچی،چچا، وغیرہ وغیرہ
مذکر الفاظ کا کلیہ۔👈
اگر مزکر لفظ کے آخر میں 👈"ا" یا 👈"ہ" آئے تو اس سے 👈"ی" میں بدل دیتے ہیں۔
آئیے کچھ الفاظ پر نظر رکھتے ہیں۔👈
بچہ، سے بچی👈
بیٹا،سے بیٹی👈
بھانجا،ست بھانجی👈
بھتیجا،سے بھتیجی👈
گندہ،سے گندی👈
پوتا،سے پوتی👈
پھوپھا،سے پھوپھی👈
چچا،سے چچی👈
دادا،سے دادی👈
نانا سے،نانی👈
ہمسایہ سے،ہمسائی👈
شہزادہ،شہزادی👈
کنوارا،سے کنواری👈
نواسا،سےنواسی👈
صاحبزاہ،سے صاحبزادی👈
وغیرہ وغیرہ۔۔۔
دوسرا کلیہ مونث کا۔۔۔👈
جن مذکر الفاظ کے آخر میں 👈"ا" ہو یا 👈"ی" ہو تو اس کو 👈"ن" سے بدل دیتے ہیں اور بعض دفعہ👈"ن" الفاظ کے آخر میں 👈ن بڑھانے سے مونث بن جاتی ہے۔ مثال دیکھیے۔
بڑھئی،سے بڑھائن👈
بنگالی،سے بنگالن👈
بھکاری، سے بھکارن👈
بھنگی،سے بھنگن👈
پارسی، سے پارسن👈
پجاری، سے پجارن👈
پڑوسی سے پڑوسن👈
پنجابی سے پنجابن👈
تیلی سے تیلن👈
جوگی سے جوگن👈
دلہا سے دلہن👈
حلوا سے حلوائن👈
چوھدری سے چودھرائن👈
دھوبی سے دھوبن👈
سقا سے سقن👈
سمدھی سے سمدھن👈
قصائی سے قصائن👈
سنار سے سنارن👈
فرنگی سے فرنگن👈
کنجڑا سے کنجڑن👈
گرہستی سے گرہستن👈
گوالا سے گوالان👈
گھوسی سے گھوسن👈
گویا سے گوائن👈
لوہار سے لوہارن👈
مراثی سے مراثن👈
مصلی سے مصلن👈
موچی سے موچن👈
مالی سے مالن👈
ناگ سے ناگنی👈
نائی سے نائن👈
یہودی سے یہودن👈
ٹھٹھیرا سے ٹھٹھیرن👈
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔
تیسرا کلیہ۔۔👈
اردو ادب میں کبھی کبھار مذکر کا آخری حرف حذف کرکے یا حذف کیے بغیر 👈"نی" یا 👈"انی" لگا دیتے ہیں مونث بن جاتی ہے۔ 👈مثلا۔
استاد سے استانی👈
پنڈت سے پنڈتانی👈
ٹھگ سے ٹھگنی👈
جادوگر سے جادوگرنی👈
مغل سے مغلانی👈
مہاراجا سے مہارانی👈
جیٹھ سے جیٹھانی👈
دیور سے دیورانی👈
ڈوم سے ڈومنی👈
سید سے سیدانی👈
نوکر سے نوکرانی👈
شیخ سے شیخانی👈
فقیر سے فقیرنی👈
ہندو سے ہندنی👈
سکھ سے سکھنی👈
مہتر سے مہترانی 👈
نٹ سے نٹنی👈
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
چوتھا کلیہ👈
اردو ادب میں کچھ عربی الفاظ کو مونث بنانے کے لیے مذکر کے آخر میں 👈"ہ" بڑھا دیتے ہیں پھر وہ مونث بن جاتی ہے مثلا۔
سلطان سے سلطانہ👈
شاعر سے شاعرہ👈
صاحب سے صاحبہ👈
ضغیف سے ضغیفہ👈
طالب سے طالبہ👈
عزیز سے عزیزہ👈
مالک سے مالکہ👈
محبوب سے محبوبہ👈
عالم سے عالمہ👈
مالک سے ملکہ👈
محبوب سے محبوبہ👈
وارث سے وارثہ👈
والد سے والدہ👈
مریض سے مریضہ👈
معلم سے معلمہ👈
مکرم سے مکرمہ👈
وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
پانچواں کلیہ۔👈
اردو ادب میں حیوانات کی تذکیر وتانیث۔
اونٹ سے اونٹنی👈
بچھڑا سے بچھیا👈
بندر سے بندریا👈
بیل سے گائے👈
چڑا سے چڑیا👈
کتا سے کتیا👈
کاتھی سے ہتھنی👈
بھینسا سے بھینس👈
شیر سے شیرنی👈
گدھا سے گدھی👈
چوہا سے چوہیا👈
مرغ سے مرغی👈
مور سے مورنی👈
مینڈک سے مینڈھا👈
ناگ سے ناگن👈