اردو ادب میں قصیدہ نگاری
اردو ادب میں قصیدہ نگاری بہترین صنف ہے جسن نے اردو ادب کو ارتقائی سفر سے روشناس کرایا ہے۔
قصیدہ عربی زبان کا لفظ ہے اور قصیدہ کی لغوی معنی قصد یعنی ارادہ کرنے کے ہیں۔اردو ادب میں جتنے شعرا گزرے ہیں سب نے اس صنف کو چھوا ہے۔کیوں کہ قصیدہ ایک تعریفی صنف ہے جس میں شعرا حضرات کسی کی گہری تعریف کے لیے استعمال کرتی ہے۔قصدہ نگاری ایک پرانی ایک کہانی صنف تسلیم کیا جاتا ہے۔قصیدے میں اکثر شاعر کسی دل لبھائی موضوع پر بحث کرتا ہے وہ کہانی یا موضوع اظہار خیال ہوتا ہے۔قصیدہ تعریف کی اعتبار سے بہت مشہور صنف رہا ہے۔اور مغز کے حثیت سے پیش آتی رہتی ہے۔
قصیدہ اپنے موضوعات ومفاہیم سے دوسرے اصناف شعر سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔جس طرح انسانی جسم میں مغز کو حاصل ہوتی ہے۔ہر زبان میں قصیدے کے لیے الگ نام استعمال ہوا ہے۔مثلا اردو میں قصیدہ اور اس طرح فارسی میں چامہ کہتے ہیں وغیرہ۔اردو ادب میں یہ صنف قصیدہ نگاری کی فارسی ادب سے داخل ہوئے۔اردوادب میں اس صنف کو دو عظیم شعراء مرزا رفیع سودا اور شیخ ابراہیم ذوق نے اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے۔اگر دیکھا جائے تو ہیت کے اعتبار سے غزل سے ملتا ہے اور قصیدہ میں بحر شروع سے آخر تک ایک جیسا ہوتاہے اس طرح غزل میں بھی بحر ایک جیسا ہوتا ہے۔مثلا پہلے شعر کے دونوں مصرعے اور باقی کے آخری مصرعے ہم آواز یعنی ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتے ہیں۔#
مگر قصیدے میں ردیف لانا لازمی نہیں ہوتا۔قصیدے میں بعض دفعہ درمیان میں مطلعے لائے جا سکتے ہیں۔اور قصیدے میں اشعار کی تعداد مقرر نہیں ہے جتنے اشعار لائے جا سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں کوئی حدود کی قید نہیں۔اس صنف میں کئی کئی سو اشعار کے قصیدے لکھے گئے ہیں جو اردو اور فارسی میں ہے جن کی تعداد زیادہ ہے۔
قصیدے کے اجزاء
تشبیب۔
یہ قصیدے کا پہلا حصہ مقرر ہے۔اس میں شاعر کی باتیں عاشقانہ مزاج لاتا ہے۔یہ حصہ عشق وعاشقی پر مبنی ہوتا ہے۔اس حصہ میں شاعر محبوب کی جوانی اور شبابی فضا کی رنگینی کا حال لکھتا ہے اور اچھے طریقے سے قلم بند کرتا ہے۔
گریز۔
یہ قصیدے کا دوسرا حصہ مانا جاتا ہے اور مقرر ہے۔اس میں شاعر ممدوح کا ذکر فطری اور مناسب و تسلسل طریقے سے قلم بند کرتا ہے اور اپنے اس تعریف میں ایک ربط قائم کرتا ہے۔
ممدوح۔
یہ قصیدے کا تیسرا حصہ قرار دیا گیا ہے۔اس حصہ پر قصیدے کی بنیاد شروع ہوتی ہے اور اپنی منزل کی طرف رواں دواں شروع ہوتا ہے۔
حسن طلب۔
حسن طلب یہ قصیدے کا چوتھا حصہ مقرر ہے۔اس حصہ میں شاعر اپنا مقصد واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے۔اور اس حصہ میں شاعر احتیاط سے کام لیتے ہوئے سحربیانی اور فسوں کاری سے کام لیتا ہے تاکہ محبوب کو گراں نہ گزرے۔
دعائیہ
دعائیہ قصیدے کا پانچواں حصہ مقرر کیا گیا ہے۔اس میں شاعر ممدوح کی بلندی اور اقبال مندی اور درازی عمر کی دعا دیتی ہے۔بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس میں شاعر محبوب کو اپنی اچھی یا بری بدلہ طلب کر لیتا ہے۔یہ پانچواں حصہ قصیدے کا نازک اور کامیاب ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔اور اکثر اس حصے پر قصیدے کی کامیابی کا انحصار ہوتا ہے۔
اور غزل کی طرح شاعر میں آخر مقطع میں تخلص استعمال کرتا ہے۔