اقبال اور اشتراکیت
بعض ناقدین علامہ اقبال کو اشتراکی مفکر قرار دیتے ہیں، کیوں؟ تفصیل کیا ہے۔
بعض ناقدین علامہ اقبال کو اشتراکی مفکر قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں اپنا نقد نظر تفصیل سے لکھتے۔
مختلف سیاسی نظاموں میں سے علامہ اقبال کس نظام کی حمایت کرتے ہیں۔
اقبال اور اشتراکیت اور دانش ور
اقبال پر بعض اشتراکی دانش وروں نے یہ الزام لگایا ہے کہ نہ صرف اقبال اشتراکیت کے حامی ہیں بلکہ مبلغ بھی ہیں ۔ لیکن اگرمنطقی طور پر دیکھا جائے تو وہ خود تناقض کا شکار ہیں کیونکہ ایک طرف وہ اقبال کے وطن و تو می مرو موس تصور شاہین اور فلغ خودی پر کڑی تنقید کرتے ہیں۔ انہیں قسطائی کڑمذہب پرست آزادی نسواں کا مخالف اور سرمایہ داروں کا ایک اسلام پسند رجعت پسند کے خطابات سے نوازتے ہیں لیکن اقبال کے چند اشعار کی بنا پر بڑے فخر سے انہیں اشتراکی مبلغ بھی کہتے ہیں۔
سرمایہ داری اور اشتراکیت
سرمایہ داری اور اشتراکیت کت روی تمام مغرب کے وضع کردہ ہیں اور دونوں مم مادی فائدے حاصل کرنے کی دوڑ شامل ہے۔ سرمایہ داری نظام میں سرمایہ دار اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر محنت کش طبقے کا استحصال کرتا ہے اور اپنے سرمایہ کو بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف رہتا ہے۔ اس ہوں کی کوئی انتہا نہیں اور آخر کار تمام سرمایہ چند لوگوں کے پاس مرتکز ہو جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ
یا ہے کہ بقایا آبادی ان کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ اشتراکیت اس کے رول کے طور پر سامنے آتی ہے اس میں بھی بات ہے لیکن اس نظام میں سرمایہ پیداوار کے ذرائع حکومت کی ملکیت ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ حکومت ایک گروہ کی ہوتی ہے۔ اس لئے اس میں بھی چند لوگ پوری قوم پر مسلط ہو جاتے ہیں ۔ دونوں نظام غریبوں کا خون چوستے ہیں اور دونوں نظام خدا تعالی کے رازق ہونے سے ملے ہیں ۔
نظریہ اسلام
قرآن و حدیث کی رو سے یہ کائنات اور میں زمین کی پیداوار اور اس کے خزاوں کا مالک
الله تعالی ہے انسان محض چند روز کے لئے امانتدار ہے اسلام کا معاشی نظام کی بنیاد میں ر نظر۔
کارفرما ہے کہ انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ اللہ تعالی کا عطا کیا ہوا ہے لیکن اس کی نداد تعین ہے۔
طبی سائنس کی ترقی اور صنعت میں اس کے اطلاق سے ممنوعات کے عظیم الشان کارخانے بنائے جو بے درد سرمایہ داروں کے ہاتھ آگے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ایک دوسری طرح کی غلامی میں آزادی اور خودداری سے محروم ہو گئے۔ کارخانے کا پر مزدور ایک بے پناہ مشین کا براہ بن گیا۔ پہلے زمانے میں مالک حکومت کرنے کے لئے مل کئے جاتے تھے اب کمزور اقوام پر ہر طرح کی یورش تجارت سے نفع اندوری کی خاطر ہونے لگی کہ کمزور اقوام کو خام
پیداوار کی مشقت میں لگایا جائے اور پھر مصنوعات کو ان کے ہاتھوں گراں نرخوں پر فروخت کیا جائے۔
اکیا حالت اور ادویہ کے خلاف اقبالی نے آواز بلند کی اور کہا کہ ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لئے مرگ مناسبات رکھتا ہے
سرمایہ داری
مغربی تہذیب کی سب سے اہم ترین نامی اس کا انتظام سرمایہ داری تھا۔ یہ مغربی مفکر این
کے رہائی کاوشوں کے پیدا کردہ نظام جس کی فکر کی بنیاد تی مادیت پر ہے۔ اس میں فرد کو یہ آزادی
دی گئی ہے کہ وہ اپنی بقا کے لئے پیداوار کے زیادہ سے زیادہ وسائل پر قابض ہو کر اپنے وجود کی
حفاظت کا بندوبست کر سکے۔ یورپ کے معاشرہ نے جب اپنی عملی زندگی سے مذہب کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ اور فرد کو لامحدود آزادی دے دی کہ پیداوار کے ذرائع پر اپنی ہمت اور وسعت کے مطابق قابض
ہوتا چلا جائے تو فرد نے اپنی جگہ ہر طرح کے اخلاقی اور معاشرتی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر زیادہ سے زیادہ پیداواری ذرائع کو اپنی ملکیت بنانا شروع کر دیا۔ اس طرح سر بارداری وجود میں آئی اور کوشش شروع ہوئی جو پیداواری ذرائع پر قابض اور گروم لوگوں کے درمیان گی۔ کر کی والوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور بات اسی نظام کے ردعمل کے طور پراشتراکیت کا نظریہ پیدا ہوا۔ اشتراکیت نے فرد کی ملکیت کی اس آزادی کو سرے سے سلب کرلیا اور پیداوار کے تمام ذرائع کو قوی طلیت قرار دے دیا۔ خدائے وجود کا انکار کیا۔ بنیادی طور پر سرمایہ داری اور
اشتراکیت میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ سرمایہ داری ) میں یہ افراد کے درمیان اور اشتراکیت میں طبقات کے درمیان کشش ونقرت ہے۔ خوبیاں اقبال کی یہ خوبی ہے کہ خان پرتنقید کرتے ہیں لیکن خوبی پرتعریف بھی ضرور کرتے ہیں اسی لئے ان کے ہاں مغربی تہذیب کی خوبیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ سائنسی ترقی صفائی اور سلیقہ مندی سے کی جاتی ہے۔
ہیں۔ اسلامی معاشی نظام میں عدل محبت الفت اور دردمندی ہے۔ ضرورت مندوں کی صورتیں پوری کرنے سے ثواب بنایا گیا ہے اس میں حسد که نفرت اور دشمنی نہیں بلکہ ترکی ہے اسی نظام میں کسی فرد کو وہ آزادی نہیں جو کہ سرمایہ داری میں ہے اور نہ وہ بندش ہے جو اشتراکیت میں ہے۔ بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان، ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اسلای اصول معیشت ہے جو ملیتو سرمائے کے وجود کو جائز تصور کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ان کی حدود قائم کر دیتا ہے کہ بجائے مضر ہونے کے وہ ہیت اجتمائی کے لیے مفید ہو جاتے ہیں ۔
اقبال کو اشتراکی مفکر کیوں کیا گیا؟
اقبال نے اپنے کلام میں سرمایہ و محبت روس مارکس لینن کے بارے میں جو افکار پیش کیے ہیں انہیں سیاق و سباق کے بغیر پیش کر کے یہ کہا جاتا ہے کہ اقبال ایک اشتراکی مفکر تھے۔ ان کی مشہور نظم خضر راہ میں سرمایہ ومحبت کے بارے میں خصر راہ کے جواب میں اقبال نے کہا ہے۔
انتہائے سادگی برتی گئی ہے فلسفیانہ انداز میں اپنایا گیا ہے علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ۔
بندہ مزدور کو جا کر مرا پغام دسے
خضر کا پیغام کیا ہے یہ پیام کائنات
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تک تیری رات کام
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائی سادگی سے کھا گیا مزدور مات
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور تیر انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
بال جبریل کی نظموں میں سرمایہ داری سے نفرت اور مزدوروں سے محبت صاف اور محبت صاف نظر آتی ہے۔ لیکن خدا کے حضور میں فرماتے ہیں۔
تو قادر و مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں
ہے تلخ بہت مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفید
دنیا ہے تیری منتظر اے روز مکافات
دوسری نظم "فرمان خدا فرشتوں کے نام ہے۔ اس میں خدا کا یہ فرمان کسی قدر انقلاب آفرین ہے۔
سلطان جمہود کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو
جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
ان نظموں میں وہ سرمایہ دار کے خلاف دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ سرمایہ دار اور مزدور میں جاگیردار اور کسان میں کسی بھوتے یا درمیانی راہ کے قائل نہ تھے۔ وہ سرمایہ داری کے سفینے کے ڈوبنے کے منتظر ہیں ۔ سلطانی جمہور کے لئے امراء کے محلات کی بنیاد ہیں اکھاڑ دینے کے حق میں
اسی طرح انقلاب روس کے حوالہ سے بھی اشتراکی ادب و تجزیے کے اثرات ملتے ہیں
بقول پروفیسر محمد عثمان۔
"جلہ جلے اس بات کا وافر ثبوت ملتا ہے کہ ان کے اس تجھے اور کر میں اشتراکی ادب اور تجزیے کے اثرات شامل ہیں۔
توڑ ڈالیں فطرت انسان نے زنجیر میں تمام
دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک
اقبال کے کلام میں مارکس اور لینن کا کئی بار ذکر ہوا ہے۔ یہاں وولینن کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خود کے نظریات
اج آنکھ نے دیکھا تو عالم ہوا ثابت
میں جس سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
یہاں تک کارل مارکس کا تعلق ہے تو اقبال نے اسے کلیم بے تجلی مسیح بے صلیب پیغمبر حق ناشناس پیغمبر بے جبرئیل کے الفاظ اس کے لے استعال کرت ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ۔
صاحب سرمایہ از نسل خلیل
یعنی آں پیغمبرِ بے جبرئیل
ضرب کلیم میں کارل مارکسی کی آواز شامل ہے۔ اس میں مارسی علمائے معاشیات سے کہتا ہے کہ تمہاری کتابوں میں تو نقشوں اور اعداد و شمار کے اوپر رکھا ہی کیا ہے۔ تم نے عقل کو سرمائے کا غلام بنایا اور اسے عیاری اور خوریزی سکھائی۔
تری کتابوں میں اے حکیمِ معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوط خم دار کی نمائش ریز و کم دار کی نمائش