میراجی شناسی میں ڈاکٹر وزیرآ غا کا حصہ
Meerajee was an unusual man and contributed a lot to modern Urdu poetry. He took an unusual stance on many of the matter-of-fact aspects of life. His approach to poetry and life were unconventional and provoked the contemporary writers to work on him. Dr. Wazir Agha is among those who conducted valuable critical study of Miraji's poetry. "Knowing Meerajee" is also part of knowing Dr. Wazir Agha as well. ۲۵
۲۵ مئی ۱۹۱۲ ء کو میرا جی، جن کا اصل نام محمد ثناء اللہ ڈار تھا، آپ لاہور میں پیدا ہوۓ ۔ ان کے والدمنشی مہتاب الدین نے حسین بی بی سے شادی کی تھی۔ حسین بی بی سے دو بیٹے پیدا ہوئے جن کا نام یہ ہے محمد عطاء اللہ ڈار اور محمد عنائت اللہ ڈار، بیوی حسین بی بی کی وفات کے بعدمنشی مہتاب الدین نے زینب بیگم عرف سردار بیگم سے شادی کی، جن سے محمد ثناء اللہ ڈار ،عزیز ثریا، محمد اکرام اللہ کامی (طیفی )، انعام اللہ کامی، مد شجاع اللہ نامی، محمد ضیاء اللہ اور محمد کرامت اللہ پیدا ہوۓ ۔ میراجی کے والد ریلوے میں اسٹنٹ انجیر تھے اور ملازمت کے باعث کئی مقامات پر تعینات (اور اپنے خاندان کے ساتھ وہاں مقیم رہے۔ تاہم میراتی نے اس آوارہ گردی میں زمانے کی کافی سیر کی اور اس سلسلے میں دو گودھرو ضلع ج محل گجرات کاٹھیاواڑ، اپادہ گڑھ کا قصبہ ہالول، بوستان (بلوچستان) ،سکھر، جیکب آباده ڈھابیجی میں مقیم رہے( ڈھابے بی ) وغیرہ میں قیام پذیر رہے، بعد ازاں خود میراجی دہلی، بمبئی اور پونا آٹھویں نویں جماعت ہی میں میراجی شعر کہنے اور ساحری تخلص کرنے لگے، یہی و زمانہ ہے ، جب محد ثناء اللہ ڈار ، میراجی کے روپ میں متشکل ہوۓ ۔
مختلف تحقیقی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ۲۶ مارچ ۱۹۴۶ ء کو جب محد ثناء اللہ ڈار میٹرک میں تھے ، ایک سانولی سلونی بنگالی لڑ کی ’’میراسین‘‘ کی ایک جھلک دیکھ کر اس پر فریفتہ ہوگئے ، میراسین‘‘ کی سہیلیاں میراسین کو’’میراجی‘‘ کہا کرتی تھیں، یوں ’’میراسین‘‘ کی نسبت سے محمد ثناء اللہ ڈار ہمیشہ کے لیے میراجی ٹھہرے۔ یوں میراجی کا لبادہ اوڑھے ہوۓ انھوں نے فکروفن کی آبیاری میں اپنا سارا جیون بتادیا۔ اس حالات کے تناظر کے مطابق معشوق’’میراسین‘‘ اس تمام کہانی سے ہمیشہ آگاہ نہیں تھی سدا بے خبر رہی۔ میرا بی کی تعلیم کا سلسلہ بھی میراجی کہ واردات قلبی کے بعد فوت ہوا،حتیکہ وہ جماعت دہم بھی نہ کر سکیں میرا جی تنہا اور یک طرفہ اس عشق کی آگ میں جلتے رہے ،ان کی زندگی کے آخری لمحات غالب کے اس شعر کی منہ بولتی تصویر ہیں۔
پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہوں تیمار دار
اور اگر مرجائیں ، تو نوحا خوان کوئی نہ ہوں
زندگی کے آخری ایام انھوں نے سخت اذیت اور بیاری کی حالت میں گزارے ، یہاں تک کہ ان کے وجود میں جلنے والی عشق کی یک طرفہ آگ ۳ ۔ نومبر ۱۹۴۹ ء کوشنڈی پڑ گئی اور انھیں ممبئی کے میری لائن قبرستان میں دفن کر دیا گیا ، ان کے جنازے میں صرف پانچ لوگوں نے شرکت کی میرابی نے تمام عمر میراسین سے عشق کرنے میں گزار دی اور پھر یہی’’میراسین علم وادب کی علامت بن کر ابھری اور میراری ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علم وادب کے ہوگئے ۔ یہاں تک کہ شادی بھی نہ کی ۔ میراجی نے اگر چہ رہی تعلیم تو قابل قدر حاصل نہ کی ،لیکن ان کا مطالعہ قاہل قد رقھا اور وہ بلاشبہ وسیع المطالعہ شخص تھے ۔( ۰۴ ) ۱۹۴۰ ء میں انہوں نے قوم نظر‘‘ کی وساطت سے’’ حلقہ ارباب ذوق‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حلقے کی روح رواں ثابت ہوۓ ۔ حلقہ ارباب ذوق اور میراجی دونوں کو ایک تقویت اور بقاۓ حیات میسر آئی ۔ دوسرے کے وجود سے میراجی کئی برس مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالے ’’ادلی دنیا ‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔
انھوں نے نثر نظم میں منفرد مقام ومرتبہ حاصل کیا ۔ ان کا تنقیدی شعور انتہا کو پہنچا ہوا تھا، اس باعث وہ تخلیقی سطح پر بھی بے حد فعال ثابت ہوۓ۔ ادبی دنیا میں ان کے تنقیدی مضامین ، جو ان کے تنقیدی شعور اور وسعت مطالعہ کے غماز ہیں،’’بسنت سہاۓ‘ کے قلمی نام سے شائع ہوتے رہے، اور ادبی دنیا میں ’’ اس نظم میں‘‘ کے عنوان سے بھی متعدد تجزیے تحریر کیے ، جو، اب ان کی کتاب ’’اس نظم میں‘‘ دست یاب ہیں( ۰۳ )۔ میراجی کے تنقیدی مضامین ’’مشرق ومغرب کے نفے‘ کے زیر عنوان حچپ چکے ہیں ( ۰۴ ) ۔ میراجی@@ کی شہرت کا ابتدائی حوالہ یہی مضامین بنے اور بعدازاں وہ جدید اردونظم کے فکری علمبر دار کی حیثیت اختیار کر گئے ۔ شاعر ، نقاد، انشائیہ نگار ، سفر نامہ نگار، آپ بیتی نگار اور بہ حیثیت ادبی مدیر ڈاکٹر وزیر آغا کی خدمات نظر انداز نہیں کی جاسکتیں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا ۱۸ ۔ مئی ۱۹۲۲ ء کووز یر کوٹ (ضلع سرگودھا) میں پیدا ہوۓ ۔ گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، پھر گورنمنٹ کالج جھنگ سے انٹر میڈیٹ اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے (معاشیات کی ڈگری ۱۹۴۳ ء میں حاصل کی اور پھر ۱۹۵۶ ء میں’’اردو ادب میں طنز ومزاح‘‘ کے زیرعنوان ڈاکٹریٹ کی ۔ اردو ادب میں طنز ومزاح کے علاوہ نظم جدید کی کروٹیں، اردو شاعری کا مزاج حقید اور احتساب نئے مقالات، تخلیقی عمل، تصورات عشق وخرڈ، نئے تناظر‘‘ تقد او مجلسی تنقید ، دائرے اور لکیر میں تنقید اور جدید اردو تنقید ، انشائیہ کے خدوخال'،' مجید امجد کی داستان محبت ، ساختیات اور سائنس، غالب کا ذوق تماشا‘ اور ’معنی اور تناظر ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقیدی کتب ہیں، جن میں بلا شبہ دل نشین اسلوبیاتی طر زعمل کے ساتھ جداگانہ تنقیدی نظام وضع کیا گیا ہے ۔ ' دستک اس دروازے پڑ، شام کی منڈیر سے اور پگڈنڈی سے روڈ رولر تک بالترتیب فکری ، سوانحی اور انشائیوں کی کلیات ہے۔ وزیر آغا کے شعری سفر میں شام اور ساۓ ، دن کا زرد پہاڑ‘ نردبان ، آدھی صدی کے بعد، گھاس میں تلیاں، ہم آ نکھیں ہیں، غزلیں‘ اک کتھا انوکھی ، یہ آواز کیا ہے عجب اک مسکراہٹ، چنا ہم نے پہاڑی راستہ دکھ دھنک پھیل گئی اور چٹکی بھر روشنی شامل ہیں ۔ ’’چیک اٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘ ان کی غزلیات کی کلیات ہے ، اسی نام سے نظموں کی کلیات زیر طبع ہے ۔’’واجاں باجھ وچھوڑے‘‘ ان کا
پنجابی شعری مجموعہ ہے۔ یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو سفر نامہ نگاری میں بھی اپنا خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے ۔ ۱۹۹۶ ء میں ان کے تین اسفار پر مشتمل ایک کتاب تین سفر منظر عام پر آئی۔ اس تخلیقی منظر نامے کے علاوہ ماہنامہ ’اوراق‘‘ کی چالیس سالہ ادارت بھی ان کے ادبی مقام پر دال ہے ۔ مزید یہ کہ وزیر آغا عہد حاضر کے ایسے زرخیز گلیقی مزاج کے حامل نظم گو میں ، جن کی نظموں تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکے ہیں، یہ پہلو اردو زبان وادب کے لیے یقینا خوشی اور خوش نصیبی کا باعث ہے ۔ بھارت میں ڈاکٹر وزیر آغا کی علمی و او بی خدمات کے حوالے سے ڈاکٹریٹ کے مقالے بھی قلم بند کیے جاچکے ہیں اور پاکستان میں بھی کئی کتب زیور اشاعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ ( ۰۵ ) میرا جی پر ڈاکٹر وزیر آغا کے تقریبا پانچ مقالات ہمارے ہمیں دست یاب ہوۓ میں، یہ مقالات مختلف اوقات میں مختلف رسائل میں شائع ہوۓ اور بعد ازاں ڈاکٹر صاحب کی تحقیدی کتابوں کی زینت بئے ، ان کی تفصیل یہ ہے۔ ا۔ میرا جی ۔ دھرتی پوجا کی ایک مثال [مشمولہ: تظلم جدید کی کروٹیں‘ [ اردو شاعری کا مزاج ‘‘] ۰۳ ۔ میرابی کا عرفان ذات [ مشمولہ: ’’ نئے مقالات‘‘] ۰۴ ۔ میرا جی مشمولہ: ’’ تنقید اور مجلسی تنقید ۰۵ ۔ میرا جی کی اہمیت مشمولہ: ’’ میرا جی ۔ ایک مطالعہ‘ مرتبہ: جمیل جالبی، ڈاکٹر،۔ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ مذکورہ بالا مضامین بعد کے کئی ناقدین کے لیے مآخذ کا درجہ رکھتے ہیں اور کئی ایک رہ نما اصول بھی مہیا کرتے ہیں ، جیسا کہ بہت سے ناقدین نے میراجی پر لکھتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا کے قائم کردہ نتائج سے مدد لینے کی کوشش کی ہے اور کئی ایک نے استفادہ تو کیا ہے مگر اصل منابع کی نشان دہی کرنا مناسب خیال نہیں کی، بہرحال ان تمام پہلوؤں سے چشم پوشی اختیار کر بھی لی جائے ، تو بھی میراجی کی بنیادی تفہیم کے ضمن میں ان مضامین کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ زمین اور دھرتی کے اپنے کچھ بھید اور اسرار ہوا کرتے ہیں اور زمین کے اثرات کا مطالعہ جہاں دلچسپی کا باعث ہوتا ہے ، وہاں اس قدر مشکلات کا داعی بھی ہے ، تاہم زبان وادب کو تہذیبی زاویے سے دیکھنے اور پر کھنے کا انداز ڈاکٹر وزیر آغا کا پسندیدہ موضوع بھی ہے اور وہ اس پر بہت گہری نظر بھی رکھتے ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں نے میراجی کو سب سے پہلے تہذیبی پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔’’ دھرتی پوجا کی ایک مثال‘‘، صرف میراجی ہی
کی فکر کو سمجھنے کے حوالے سے اہم نہیں ہے ، بلکہ قدیم ہندوستانی طرز معاشرت و ثقافت ، أسلوب حیات اور علامات کے بنیادی تصور کو سمجھنے میں بھی مد و معاون ہے۔ میرابی کا با قاعدہ تعارف ادبی دنیا سے ہوا ،ڈاکٹر وزیر آغا بھی آغاز کار میں ادبی دنیا سے وابستہ رہے۔( ۰۲ ) اس لیے میراجی کے ادبی مقام کے تعین کے پہلے ہی مرحلے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کی تنیم کا سرا ڈھونڈ نے کی کوشش کی ۔ شاعری کو تہذیبی پس منظر میں دیکھنے کا انداز مشکل بھی ہے اور منفرد بھی ، تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے اس مشکل پسندی اور انفرادیت کو بڑے عمدہ اسلوب میں نبھایا ، اس ضمن میں ان کی کتاب ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ یقینا ایک اہم ادبی معر کے کی حیثیت کی حامل ہے۔ فنکار کو پرکھنے کا ایک ریاضیاتی انداز ہوتا ہے اور ایک حیاتیاتی انداز ۔ ریاضیاتی انداز یہ ہے کہ پہلے ایک کلیہ وضع کیا جاۓ اور پھر اسے زندگی پر لاگو ( Apply ) کر کے دیکھا جاۓ اور پھر زندگی سے حاصل شدہ نیچے سے اس کلیے کی طرف واپس سفر کیا جاۓ ۔افلاطون چونکہ ریاضی دان تھا، اس لیے یہ طریق کار افلاطون سے منسوب ہے ۔ حیاتیاتی نقطہ نظر یہ ہے کہ زندگی سے کیے کی طرف سفر کیا جاۓ اور پر کھیے سے واپس زندگی کی طرف لوٹا جاۓ ۔ ارسطو چونکہ بنیادی طور پر ماہر حیاتیات تھا، اس لیے یہ اسلوب ارسطو کے نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ تاہم اگر نقاد ذرا کٹر ور ثابت ہو، تو وہ حیاتیاتی طریق کار کی پیچیدگیوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور فنکار کی نفسیات اور ذاتیات میں بہت زیادہ الجھ کر وہ اکثر تفہیم کا دائرہ مکمل نہیں کر پا تا ۔ ریاضیاتی چلن بہت ٹھوس ہے اور اس میں زیادہ گمراہ ہونے کا خدشہ بھی کم ہے، یعنی فکر سے شخصیت کی طرف سفر کیا جاۓ اور پھر شخصیت سے واپس فکر کی طرف رجوع کیا جاۓ ۔’’ دھرتی پوجا کی ایک مثال ۔ میراجی‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اس اصول کو مد نظر رکھا ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کی فکر سے میراجی کی تخلیقی شخصیت کی طرف سفر کیا اور پھر واپس میراجی کی فکر تک ۔ اپنے مضمون کے شروع میں انھوں نے زمین سے وابستہ شاعروں کا ذکر
کیا ہے ، جن میں نظیر اکبر آ بادی ،محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی ، اسماعیل میرٹھی ، چکست کوک چند محروم، محمد اقبال اور ن م راشد شامل ہیں لیکن انھوں نے واضح کیا ہے کہ ان شعراء میں دھرتی سے وابستگی کی کئی ایک مثالیں تو دست یاب ہیں، تاہم ان شعراء کا کوئی واضح تعبد ( Commibment ) اور کوئی گہری لگن دھرتی سے ، اس کی رسوم سے اور اس کے تہذیبی پس منظر سے ثابت نہیں ۔ میراجی وہ پہلے شاعر ہیں، جنھوں نے اپنی روح کو دھرتی کی روح سے ہم آہنگ کر نے کی کوشش کی اور تہذیبی سمندر کے اندر ایسا گہرا خوطہ لگایا ہے کہ ایسی جرات پہلے کسی کو میسر نہیں آسکی: ’’ دوسرے لفظوں میں میراجی نے ایک بھگت، درویش یا جان ہار پہاری کی طرح اپنی دھرتی کی پوجا کی ہے، محض رسمی طور پر پلن دوستی کی تحریک کا ساتھ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی نظموں کی روح، فضا اور مزاج ، سرزمین وطن کی روح ، فضا اور مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور اس خاص میدان میں اسے کسی حریف کا سامنانہیں ۔‘‘ ( ۰۷ ) ڈاکٹر وزیر آغا کا موقف ہے کہ میراجی کا فکری پس منظر میراسین کی عطا نہیں ، بلکہ یہ سب کچھ تو میراجی کے اندر پہلے سے موجود تھا، جسے اظہار کا موقع میراسین کے بہانے سے میسر آیا، گویا اس کیمیائی عمل میں میراسین کی حیثیت محض عمل انگیز ( Catalist ) کی ہے ( عمل انگیز کہ کر ہم کسی چیز کی نفی نہیں کرتے ، بلکہ مقرر دائرے میں اس کی اہمیت کوتسلیم کر رہے ہوتے ہیں)۔ یہ موقف اس لیے بھی وزن رکھتا ہے کہ کسی بھی انسان کا فطری زبحان ہی بنیادی حیثیت اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہی زبحان بعدازاں اسے کسی میراسین جیسے طوفان سے آشنا کرتا ہے، جہاں عاشق تھوڑی دیر ٹھہرتا اور پھر اپنے جذ بے کے تعاقب میں آگے بڑھ جاتا ہے ( اس لیے کہ عشق، مقصود بالذات ہوا کرتا ہے، البتہ معشوق کے وجود کی نفی نہیں کی جاسکتی )۔ گویا میراجی کی آتما آ ریائی اصل اور ویشنومت کی پجاری تھی ، جو کسی اور جنم میں کسی اور زمان و مکان میں بھٹکتی پھر رہی تھی اور اپنی اصل میں ضم ہونے کے لیے بیتاب تھی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کے ہاں میلا رے کے ابہام کے حد سے بڑھے ہوۓ اثرات کی بھی نفی کی ہے، اس لیے کہ ہر دو کے ابہام کی نوعیتیں ہی مختلف ہیں ۔ اسی طرح بودلیئر کے اثرات کی براہ راست لفی اس لیے کی ہے کہ خود بودلیئر کے ہاں جنسی موضوعات بنگال کی فضا اور ماحول کی دین تھے، اگرچہ شاعر میراجی نے یہ شدت سے اثر لیا بھی ہے۔ تو یہ بالواسطہ اثر ان کی کافی حیثیت رکھتا ہے ، یا اس بنا سے کسی اور کوئی نسبت کا اثر بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا نے قدیم ہندوستانی تہذیبی پس منظر پر گہری روشنی ڈالی اور ویشنومت لاسلی سمجھنے میں ہماری مدد کی ہے۔ انھوں نے ویشنومت کی چار اہم صورتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : بیاہتا محبت، ناجائز سمبندہ ، شو اور شکتی ۔ میراجی کے ہاں رادھا اور کرشن کی ناجائز محبت اور شکتی کے منفی روپ کالی‘ کے اثرات واضح ہیں اور انھی کی علامات میرابی کی نظموں میں صاف دکھائی دیتی ہیں ۔ میراجی کے ہاں جنسی موضوعات انھی اثرات کے تحت ابھرتے ہیں اور یہی اثر میراجی کو میراہائی اور چنڈی داس وغیرہ کے بھی نزدیک کرتا اور اذیت کوشی کی طرف مائل کرتا ہے، تاہم یہ دھرتی پوجا کے اثرات ہیں ، جو ایک پہلو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دھرتی پوجا کا دوسرا پہلو
ہندوستانی فضا ہے، جو جنگل کی تہذیب کی طرف اشارو کرتی ہے، جس میں تاریکی کا عنصر غالب ہے اور جہاں ہزار منزلوں کے بعد روشنی کا گیان میسر آ تا ہے ۔ جنگل کی جزیات علامات کا روپ لے کر میراہی کی تخلیقی زندگی میں بھی اجا گر ہوئی ہیں اور خود میراجی کی شخصی زندگی میں بھی ۔ اپنے اس مقالے کے آخر میں وزیر آغا نے ان اساطیری ، قدیم دیو مالائی اور دیشنومت کی تہذیبی اصطلاحات و تلمیحات وغیرہ کا ذکر کیا ہے، جنھیں میراجی نے اپنی نظموں میں علامات کے طور پر باندھا ہے اور جن کے استعمال سے میراجی کی اس قدیم تہذیبی پس منظر سے گہری وابستگی اظہر من الشمس ہے ۔ اس اسلوب کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ میراجی سے پہلے اس شدت کے ساتھ ایسی کوئی مثال موجود نہ تھی ، جس کی وہ تقلید کرتے ، یوں میراجی کی تخلیقات اس لحاظ سے منفر د بھی ہیں اور تازہ بھی ۔ اس تمام پس منظر میں میراجی کو تہذیبی سطح پر سمجھنے کے لیے ڈاکٹروز آ غا کا پہلا مضمون بہت اہم ہے۔ جو میراجی پر پڑے ہوۓ افسانوی پردے کو چاک کر کے اصلیت تک ہماری رسائی ممکن بنا تا ہے۔
ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب’’اردو شاعری کا مزاج ‘‘ شخصیات کے بھی کوائف سے بحث نہیں کرتی ، بلکہ تہذیبی پس منظر میں رجحانات کی ترجمان ہے ، تاہم اس میں میراجی کے لیے پندرہ صفحات مختص کئے گئے ہیں کیوں کہ نئی نظم کی تکمیل اور زبحان سازی میں میراجی کا نہایت اہم اور بنیادی کردار ہے اور آغا صاحب نے بجا طور پر یہ حق میرا جی کو دیا ہے۔ ان پندرہ صفحات کے اقتباس اور گزشتہ مقالے کے بارے میں بعض قارئین کا یہ خیال ہوسکتا ہے ، کہ دونو ایک ہی طرح کی تحریر میں ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ دونوں تحریروں میں ایک فکری اشتراک تو ضرور پایا جا تا ہے ، تاہم دونوں میں تکرار کا کوئی پہلو موجودنہیں ۔ گزشتہ مضمون اور زیر بحث اقتباس کی اپنی اپنی جگہ خاص اہمیت ہے ۔ ’’اردو شاعری کا مزاج ‘‘ میں گیت ،غزل اور نظم کے تہذیبی حوالے سے تفصیلی مطالعے کے بعد انھوں نے نئی نظم کی وضاحت کے در وا کرتے ہوۓ بیان کیا ہے کہ نئی نظم کا اس کا اصل مزاج اور میراجی کا سفر خارج سے داخل کی طرف کافی ملتا جلتا دکھائی دیتا ہے اور اس مزاج کے سب سے بڑے علمبر دار میراجی تھے ۔ انھوں نے اقبال کے بعد اردونظم کو دوسطحوں میں تقسیم کیا ہے ۔ جبکہ اندر کی طرف آنے میں مدافعتی انداز ، پاس ، کسک، خوف ، دبے پاؤں چلنے کا انداز اور لیجے کی لطافت اور لوچ جنم لیتا ہے. اندر کو آنے والا ذات اورنسل، جبلت اور ثقافتی بنیادوں سے منسلک ہو کر یا انسان کے ماضی کی طرف لوٹا ہے۔‘‘ ( ۰۸ ) نظم کے اس بنیادی مزاج کو اگر انچھی طرح سمجھ لیا جاۓ ، تو کسی بھی نظم گو کو کہنا کافی آسان تر ہو جا تا ہے۔ اس کا’’مداحتی انداز ، باس ، کسک، خوف ، دبے پاؤں پینے کا انداز‘میراجی کی نظموں کا بنیادی
مزاج اور فن ہے، اس تناظر میں میراہی کے ہاں وہ علامات ابھر میں ، جن کا پچھلے مضمون میں ذکر کیا جا چکا ہے ،لیکن میراجی کے ہاں اگر یہی کچھ ہوتا ، تو میرابی کا فکروفن مٹی ہوگیا ہوتا ، میراجی نے ان تمام الجھنوں ، نفسیاتی چید گیوں کا بڑی جرات اور حوصلہ مندی سے مقابلہ کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میراجی کی نظم ترقی پسندانہ رویے کے بھی منافی ہے ، کیوں کہ میراجی کی نظم دالی سل پر اظہار ذات کی معراج ہے لظم تو زندگی اور موت کے تصادم سے عبارت ہے ۔ قوس کے نصف آخر میں جب یہ تصادم ایک شدید کرب کی صورت اختیار کرتا ہے، تو لظم میں گہرائی ، استحکام اور توازن پیدا ہوتا ہے ، یہی میراجی کی نظم کا بنیادی مزاج ہے کہ اس کا رخ موت کی طرف ہے ، لیکن میراجی نے ہر ہر قدم پر موت سے پنجہ آزمائی کی ہے ، یوں اس کے ہاں ایک شدید نفسیاتی تصادم وجود میں آیا ہے ۔‘‘ ( ۰۹ ) آگے چل کر میراجی کے ہاں استعمال ہونے والی علامات اور بڑی تفصیل کے ساتھ میراجی کے ہاں حیات وموت کی نفسیاتی کش پر بحث کی گئی ہے ، اسی طرح انھوں نے جنسی موضوع کو بھی میراجی کی جوانی کے تقاضوں کے بجاۓ ، میراجی کی نفسیاتی ضرورت کے تابع قرار دیا ہے۔ پھر انھوں نے میرائی کے ہاں تہذیبی سطح پر حب الوطنی کی طرف اشارہ کیا اور یہیں سے ویشنومت کی طرف میراجی کے تعلق خاطر پر روشنی ڈالی ہے، کہ اسی سے میراجی کے ہاں رادھا کرشن اور ہندوستانی تہذیب کے عناصر جنسی علامات میں ڈھل کر ظاہر ہوۓ ہیں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑی اہم بات اجاگر کی ہے کہ ان تمام پہلوؤں کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میرا جی کا خارج سے رابطہ بالکل ہی منقطع ہوگیا تھا اور ان کے ہاں زندگی کا تحرک موجودنہیں رہا تھا، بلکہ میراجی کے ہاں ہردوسطح پر یشکش پوری شدومد کے ساتھ موجود تھی اور میراجی کے ہاں’’تحفظ ذات‘ کا شدید احساس کہیں ختم نہیں ہوتا۔ کہ اصناف سخن میں شاعر کی شخصیت میں یا اس کے داخلیت کا پہلو ہونا بھی نظم کے مزاج کے لیے فطری سی بات بنتی ہے اور تنقیدی فن کار ٹی ایس ایلیٹ کے شخصیت سے فرار کے نقطہ نظر کو شخصیت کی نفی قرار دینا درست نہیں ہے ، حتی کہ خود ایلیٹ کا یہ نظریہ اس قدر قابل قبول نہیں ہے ۔ تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کو حیات ، روشنی یا امید کا ہی شاعر قرارنہیں دیا اور نہ ہی سراسر موت ، تار کی اور مایوسی کا علمبر دار گردانا ہے ، بلکہ روشنی اور تاریکی کا بڑا مضبوط سنگم خیال کیا اور میراجی کو داخلیت پسندی کے اعتبار سے ایک کامیاب اور دیر پانظم گوتسلیم کیا ہے ، جن کے اثرات بعد میں آنے والے شعراء کی ایک پوری نسل پر موجود ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ میراجی کو بجھنے میں بڑی غیرذمہ داری کا ثبوت دیا گیا ہے اور یہ بھی چ ہے کہ اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ خود میراجی پر عاید ہوتی ہے، جنھوں نے یہ بہروپ بھرا اور اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک غلط نظر یہ قائم کرنے کی دعوت دی ۔فروری ۱۹۷۲ ء میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’’ نئے مقالات‘‘ میں ایک مضمون : ’’میراجی کا عرفان ذات‘‘ بھی شائع ہوا ۔ یوں تو میراجی کے حوالے سے ان کے سارے مضامین ہی اہم ہیں ، لیکن ان کا یہ مضمون میراجی کی شخصیت کی تفہیم کے ضمن میں خاصا اہم ہے۔ اس کے مطالب کا بغور جائزہ لیا جاۓ ،تو میراجی کے بارے میں کئی ایک غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن دکھائی دیتا ہے۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے اس کی ابتدائی سطور بہت اہم ہیں۔ ہر آبی طوفان کی ایک اپنی آ نکھ ہوتی ہے ، جس کے گرد ہوائیں چنگھاڑتی پھرتی ہیں، لیکن آکھ کے اندر جوگی کے استھان کا سا سکوت قائم رہتا ہے ۔ مجھے جب بھی میرابی کا خیال آیا، تو اس کے ساتھ ہی آبی طوفان کا منظر بھی میری نگاہوں میں گھوم گیا اور میں نے سوچا کہ یہ کیسے ظلم کی بات ہے کہ ہم طوفان کو دیکھنے میں اس قدرمنہمک ہوں کہ اس ’’آ نکھ‘‘ کو دیکھ ہی نہ سکیں ، جو اس طوفان کا مرکز ہے اور جس میں ایک عارفانہ سکوت کی سی کیفیت سدا قائم رہتی ہے ۔‘‘( ۱۰ ) ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ موقف نہایت درست ہے کہ میراجی کے ساتھ عرفان وغیرہ کی بات پر طبیعتوں میں ایک خاص نوع کا مجادلہ شروع ہو جا تا ہے اور اس کی وجہ وہ بہت سے غیر متوازن واقعات ہیں، جو ان کے دوستوں نے ان سے وابستہ کر رکھے تھے۔ انھی واقعات نے میراجی کے باطن تک رسائی کو مشکل تر بنادیا ۔ چونکہ اس تمام تر قلبی واردات میں خود شاعر میراجی بھی اس میں برابر کے شریک ہوتے نظر آتے ہیں ، اس لیے اس کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ کہنا درست ہے کہ بعید از قیاس نہیں کہ معشوق میراسین کا تصور ،اور میراجی کے اپنے ہی ذہن کا زائیدہ اور ظاہری حالت تھی، جس کی آڑ میں میراجی کچھ خاص منازل طے کرنا چاہتے تھے۔’’تو پھر یہ سوال کہ کیا آ بی طوفان کی آنکھ حض اپنے اردگرد کا تلاطم پیش کر رہی تھی ، یا اس کا کوئی منفرد زاویہ نگاہ بھی تھا۔‘ ( ۱ ) بڑا اہم ہو جا تا ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق میراجی صرف دنیا ہی نہیں ، بلکہ دنیا کے ہر پہلو اور زندگی کی ہر کروٹ کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں ۔ تغیر کا عمل انھیں بہت مرغوب ہے اور اس مطالعے کے لیے تنہائی ان کا بہترین پلیٹ فارم ہے ، تاہم تنہائی کے عمل میں بھی آٹھوں نے کسی کی مداخلت اور مشارکت قبول نہیں کی ۔ دراصل میراجی کے باطن میں ایک اور دنیا آبادتھی ، جوعرفان ذات کی متلاشی تھی مگر انھوں نے خود کو ئی لبادوں میں چھپا رکھا تھا۔ ان کا خارج اور داخل مضبوط ہا ہمی راہل کے باوجود علیحدہ علیحد ہ منٹوں کا مسافر تھا، مطلب یہ کہ خارج کے حالات میں شریک کار ہونے کے باوجود وہ اس سے کسی قدر او پر اٹھ کر ان کا جائزہ لے رہے تھے اور اپنے فکروفن کی آبیاری میں مصروف عمل تھے ۔ یوں بھگتی تحریک کے زیر اثر وہ ایک بھگت کی طرح گیان تو ضرور حاصل کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے بتن بھی کیے، لیکن اپنی ذات کی العرادیت کے باعث وہ اس کے حصول میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکے ۔ دراصل وہ کامیاب ہونا ہی نہ چاہتے تھے ، بلکہ گیان دھیان کا مسلسل سفر ہی ان کا مقصود نظر تھا: ’’ خوبی کی بات یہ ہے کہ میراجی نے اپنی تگ ودو کو کسی منزل تک پانچنے کے لیے وقف نہیں کیا ، بلکہ محض اس خلا کو جنم دینے میں صرف کیا ہے، جو سالک اور منزل میں پی ڈور کا رشتہ تو قائم کرتا ہے ، لیکن ان دونوں کے درمیانی فاصلے کو کم نہیں ہونے دیتا۔‘‘ ( ۱۲ ) جہاں تک ہم سمجھ پاۓ میں میراجی کے ہاں خود پسندی ، بلکہ خود پرستی کا عنصر اتنا غالب تھا کہ وہ کسی اور کی پرستش کر ہی نہ سکتے تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے میراسین کا بھی محض بت تراش رکھا تھا اور بالواسطہ طور پر اپنی ہی ذات کی پوجا میں کامل گیان دھیان سے لگے ہوۓ تھے ۔ یاد رہے کہ کامل صوفی کے درجے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی لفی بے حد ضروری قرار پاتی ہے ہمن وتو کے درمیان نھیل تفریق کھینچے بغیر تصوف کے راستے پر چلنا ناممکن ہو جا تا ہے، تاہم میراجی اس راستے کے اس انداز سے مسافر تھے ہی نہیں: اک خلش کو حاصل عمر رواں رہنے دیا‘‘ یہی دراصل ان کا مسئلہ تھا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میراجی ان معاملات سے آ گاہ نہ تھے ، یا انھیں حقائق کی خبر نہ تھی ، لیکن بات یہ ہے کہ اپنی ذات کی نفی کا ان میں حوصلہ نہ تھا، یا یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے وجود کوختم ہوتے دیکھ ہی نہ سکتے تھے۔ ہر قیمت پر اپنے وجود کا اثبات انھیں عزیز تھا اور ہماری راۓ میں یہی وہ فکری موڑ ہے ، جو میراجی اور اقبال میں ایک قدر مشترک رکھتا ہے۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے قطعا یہ ثابت نہیں کیا کہ میراجی کسی نوع کے با قاعدہ صوفی تھے اور معرفت کے جملہ مراحل طے کر گئے تھے ۔وہ بڑی دیانتداری سے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ میراجی اس راستے کے جو یا ہونے کے باوجود نہ تو اس منزل کو پاسکے اور نہ ہی یہ ان کا مقصود تھا، ان کا مقصد تو گیلی لکڑی کی طرح سلگنا اور خود کو مرکز مان کر کائنات کا مشاہدہ کرنا تھا، جو انھوں نے بھر پور طریق سے کیا۔ تاہم کچھ ناقدین نے میراجی کو با قاعدہ یا بے قاعدہ صوفی ثابت کر نے کی کوشش بھی کی ہے ، جو ہمارے نزدیک ایک فکری اشتباہ ہے ، یہ التباس ڈاکٹر وزیر آغا کے مذکورہ بالا مضمون کے مطالعے کی روشنی میں دور کیا جاسکتا ہے، کیونکہ حق یہی ہے کہ میراجی گیانی تو تھے، صوفی بہر حال نہیں تھے۔ اس بات کی مزید وضاحت ڈاکٹر وزیر آغا اپنے آئندہ مضمون میں بھی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر وز آ غا کی معروف کتاب ’’ تنقید اور مجلسی تنقید‘‘ میں بھی’’ میرامی‘‘ سے زیر عنوان ایک مضمون شامل ہے ، جس کا آغاز اس مفروضے کی تردید سے کیا گیا ہے کہ میراجی کی موت ست روی کے باعث واقع ہوئی ۔ ان کا موقف ہے کہ میرامی کی موت تیز رفتاری کا نتیجہ اور قوانین حیات سے بغاوت کا حاصل ہے اور یہ بغاوت اور انقطاع سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تھے ۔ میراجی سے قبل بھی تیز رفتاری کی مثالیں موجود ہیں ، فرق یہ ہے کہ وہ سب کسی خاص سمت میں سفر کر رہے تھے ، جب کہ میراجی کا سفر ایک سے زیادہ جہتوں اور سمتوں کا حامل تھا، تاہم میراجی سیدھی لکیر کے مسافر نہ تھے، انھیں بچ ٹم مرغوب تھے، زندگی میں بھی اورفن میں بھی ۔ اس تیز رفتار مزاج کے تحت میراجی کی نظموں کو سمجھنے میں ایک خاص آسانی میسر آتی ہے ۔ اس کے بعد ایک اوراہم بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ میراجی اضی کے راستے الہتی اور جنگل کی فضا میں اترتے چلے گئے ، ان میں گوتم کی طرح عرفان پانے کی لگن بھی تھی ، تاہم وہ جنگل تک تو پہنچ گئے ، مگر مراجعت نہ کر سکے ، لہذا گوتم کی طرح کامیاب نہ ہوۓ ، شاید ان میں اتنی روحانی شکتی نہ تھی اور یہ بڑا اہم نقطہ ہے کہ میراجی کے اندر کھوجنے کا جذ بہ تو تھا مگر وہ اس عرفان یا گیان کو پوری طرح پانہ سکے ۔ ڈاکٹر وزیر آ غا اس نہ پاسکنے کو میرامی کے حق میں بہتر تصور کرتے ہیں کہ اگر وہ بہت زیادہ کامیاب ہوجاتے ، تو شاید فنکار نہ رہتے ۔ البتہ حیرت ہے کہ کئی ناقدین نے میراجی کو با قاعدہ صوفی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، جو عجیب بھی ہے اور غریب بھی۔مثلافتح محمد ملک لکھتے ہیں: ”میراجی کی فطرت باغیانہ نہیں تھی، اس لیے انہوں نے صوفی بنے کی ٹانی. اس طر ز فکر کے علاوہ میراجی کا طرز حیات اور شاعرانہ کمال اس حقیقت کا غماز ہے کہ میراجی ایک صوفی شاعر ہیں ۔‘‘ ( ۱۳ ) اس میں کوئی شک نہیں کہ میراجی کے ہاں ایسے عناصر پاۓ جاتے ہیں ، جو انھیں تصوف کی طرف لے جاسکتے تھے لیکن ان کی زندگی کے اسلوب اور شاعری کے سرماۓ سے ان کا صوفی ہونا قطعا ثابت نہیں ہوتا۔ خبر نہیں کہ فتح محمد ملک کو میراجی کے طرز حیات پر صوفی ہونے کا ایسا کیا شبہ ہوا کہ انھوں نے کمال تیقن سے میراجی کو صوفی شاعر قرار دے دیا ، جب کہ ہم تو خواجہ میر درد کو بھی ابھی تک ان کی شاعری کے حوالے سے ’’صوفی شاعر‘‘ کا درجہ دینے کے لیے پوری طرح تیارنہیں ہیں ( ۱۴ ) ، چہ جائیکہ میراجی کو صوفی شاعر کہنے لگیں، میراجی کو تو ملامتی صوفی درویش کا درجہ بھی اتنی آسانی سے نہیں دیا جاسکتا کہ بہر حال تصوف اور درویشی ایسی بھی چھپی ہوئی اور ادنی حقیقتیں نہیں کہ آپ اپنا تعارف نہ بن سکیں ، اس لیے محمد ملک کا مضمون اپنی جگہ بجا سہی ، لیکن ان کے نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کیا جاس ا جاسکتا۔ واللہ اعلم بالصواب ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتبہ کتاب ’’میراجی ۔ایک مطالعہ‘‘ میں’’میراجی کی اہمیت‘‘ کے نام سے ڈاکٹر وزیر آغا کا لکھا ہوا مضمون شامل ہے ، جو ہماری آج کی بحث کی آخری کڑی ہے اور غالبا زمانی اعتبار سے بھی ایسا ہی ہے ۔ زیر تذکرہ مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کے عہد میں شاعری کے تین مکاتب کا ذکر کیا ہے ، جو اپنے کمال پر پہنچ چکے تھے: اختر شیرانی ، اقبال اور فیض ۔ میراجی ان تینوں بہترین مکاتب کمال کے تھے۔ تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کو ان تینوں کی ضد قرار دیا ہے ، مگر سب سے اہم بات جو انھوں نے کی ،وہ یہ ہے کہ اختر شیرانی ، اس اندا ز نظر کا نقطہ آغاز ہے ، اس طرح باقی شعراء ریلوے ٹرمینس کی طرح تھے، جب کہ میراجی ایک بڑے جنکشن کی حیثیت رکھتے ہیں اور چوں کہ ان کی مختلف جہتیں ہیں ، اس لیے ان کی تفہیم بھی آسان نہیں ہے، تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑے انصاف کی بات کہی ہے کہ میرابی اپی کسی جہت میں بھی کمال کو پہنچے ہوۓ نہیں ہیں ، بلکہ امکانات کا ایک جہان اپنے اند مخفی رکھتے ہیں اور اسی لیے زندہ ہیں اور اپنے اثرات مسلسل پھیلاتے چلے جار ہے ہیں اور یہ اثرات بھی ہمہ جہت ہیں ،کسی خاص سمت میں نہیں ہیں کسی خاص حوالے سے نہیں ہیں ، دھرتی کے اثرات، دیگر ارضی پیلو، جسم اور حسیات کے اثرات وغیر و سب اس میں داخل ہیں اور سب سے اہم بات داخلیت کا رجحان ہے، جونظم کا بنیادی مزاج کہلا تا ہے اور بلا شبانظم کا یہ بنیادی مزاج میراجی ہی کی دین ہے۔ ڈاکٹر وزیر آ نا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انھوں نے آزادنظم گو شعراء بالنصوص میرا جی ، ن م راشد اور مجید امجد کے افکار سمجھنے اور سمجھانے کی اس وقت کوشش کی ، جب ان شعراء کی تنہیم کا با قاعدہ سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے بیشتر ناقدین نے ڈاکٹر وزیر آغا کے قائم کردہ نتائج سے خاطر خواہ استفادہ کیا ، بلکہ بعض نے تو نھی خیالات کی ترویج و اشاعت کو کافی سمجھا ہے ( ۱۵ ) ۔ تاہم میراجی کی بنیادی تفہیم میں ڈاکٹر وزیر آغا کے مقالات کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ میراجی کے حوالے سے ان کی خدمات ہمیشہ یادگار رہیں گی ۔
حوالہ جات و حواشی ۔
میرا جی کی سوانح ، شخصیت اور فکروفن کے مطالع کے لیے فہرست مآ خذ: ا۔’’اشارات‘ ، از: آفتاب احمد ، ڈاکٹر، کراچی، مکتبہ دانیال، اشاعت اول: اگست ۱۹۹۲ ء ( به طور خاص مضمون: ’’حلقہ ارباب ذوق‘‘) ب ۔’’پاکستانی ادب کے معمار: میراجی شخصیت اورن‘‘ ،از ، رشید امجد ، ڈاکٹر ، اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان ، اشاعت اول: ۲۰۰۵ ء ج۔’’میرا جی ۔ایک بھٹکا ہوا شاع‘، از انیس ناگی ، لاہور ، پاکستان بکس اینڈلٹریری ساؤنڈز ، اشاعت اول : ۱۹۹۱ ء د ۔’’میراجی ۔ایک مطالعہ ،مرتب جمیل جالبی ، ڈاکٹر ،لاہور ،سنگ میل پبلی کیشنز ، ۱۹۹۰ ء ”میراجی شخصیت اورفن،از: رشید امجد ، ڈاکٹر ، لاہور، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ، اشاعت اول: ۱۹۹۵ ء ۰۲ ۔ میراتی خود تو چاہے میٹرک نہ کر سکے ، یا انھوں نے میٹرک نہ کیا ، لیکن ان کے علمی مقام و مرتبے پر بعد ازاں پاکستان اور بھارت میں لوگوں نے پی ایچ ڈی کے مقالے ضرور قلم بند کیے ہیں۔