شورش کاشمیری انقلابی شاعر
شورش کاشمیری - انقلابی اور مزامنی شاعر
Sharish Kashmiri was multi-faceted person. Political commentator, man of resistance, agitator and a revolutionary and a slery speaker. An oritor of great impact. He was all those things and yet ultimately we are left with his poetry as the final and ultimate expression of all those aspects of his personality. This article is a study of poetry of Shorish from all , these angles.
قیام پاکستان سے تمیں سال پہلے ایک غریب گھرانے میں پیدا ہونے والے آغا عبد الکریم شورش سیاست، خطابت ، انشاء طنز و مزاح سفر نامے ، تاریخ ، خا کہ نگاری ، اداریے نوی ، کالم نگاری، خطوط نویسی ، سوانح نگاری، شاعری اور ادبی معرکہ آرائی اور بے شمار اصناف ادب پر حاوی تھے ۔ برصغیر پاک و ہند میں ایسا کوئی عبقری نظر نہیں آ تا جس کی ذات اس قدر کمالات کا آ میختہ ہو ۔ انھوں نے 67 سال عمر پائی ، اس دوران میں سترہ سال جیل میں گزارے ۔ اس میں صرف عنفوان شباب میں ان کو دس برس قید کا ٹنا پڑی نو جواں عمر کے دس برس گزارے ہیں قید افرنگ میں ناموں ولن کی خاطر شورش نے قید و بند کی جو صعوبتیں برداشت کی ہیں وہ اب تاریخ کا ایک حصہ ہیں ۔ انھوں نے پس دیوار زنداں کی سختیوں کی خود بیان کیا ہے ۔ اس سلسلہ میں ان کی کتابیں پس دیوار زنداں‘ ’’موت سے واپسی‘‘، اور’ہوۓ گل نالہ دل دو د چراغ محفل‘‘ قابل ذکر ہیں۔ اس نسبت سے ان کی زندانی شاعری معرض تخلیق میں آتی رہی ، ہوں وہ مولا تا حسرت موہانی ، جوہر، ظفر علی خاں ، عبد المجید سالک، اور دیگر حبسیہ شاعروں کے قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ شورش ایک طوفانی دور کی پیداوار تھے ان کا کر دار عظیم تحریک اور مقدس جہد آزادی کا مرقع ہے ۔ ان کی زندگی عام فرد کی زندگی نہیں بلکہ آندھیوں اور طوفانوں کی زندگی ہے ۔ واضح رہے کہ آغا عبد الکریم الفت کا نام عطا اللہ شاہ بخاری کے بخشے ہوۓ خطاب با تخلص میں گم ہو کر آ غا شورش کے نام سے روشناس خلق ہوا تھا ۔ شورش جوان ہوا گو یا ایک فتنہ قیامت بنا۔ تاریخ بغاوت میں دو بڑے سے بڑے باغی کے ہم دوش وہم قدم ہے۔ اردو میں مزامتی شاعری کی تاریخ میں بھی وہ بڑے سے بڑے مرامتی شاعر سے پیچھے نہیں رہا۔ مبداء فیاض نے اس کے قلم اور اس کی زبان اور شخصیت میں ایسی کشش و تاثر اور ایسا رعب و دید بہ پیدا کر دیا تھا جو بہت کم لوگوں کے حصے میں آ تا ہے ۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے بقول: قیام پاکستان سے قبل جب دہ عملی سیاست میں حصہ لیتے تھے اس وقت انھوں نے قید و بند کی جو جانکاہ اور روح فرسا مصائب و شدائد برداشت کیے ان کی رودادوہ اپنے قلم سے بیان کر چکے ہیں۔ پاکستان قائم ہو جائے کے بعد وہ عملی سیاسیات سے کنارہ کش ہو جانے کا اعلان کر چکے تھے اور اب ادب دصحافت تک اچی سرگرمیاں محدود کر دینا چاہتے تھے لیکن آ مر اور سلطان باہر کے سامنے کلمہ حق کہنے اور اس کے نتیجے میں ہر خطرے کو انگیزر کر نے کے لیے وہ ہر وقت اور ہم تن آمادہ رہتے تھے ۔" جابر سلطان کے سامنے شورش کے کلمہ حق کہنے کا یہ جرات مندانہ انداز دیدنی ہے۔
میں کسی فرعون کی طاقت سے ڈرسکتا نہیں
موت کو لبیک کہہ دیتا ہوں ، مرسکتا نہیں
اس ضمن میں جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے الفاظ میں شورش زندگی بھر باطل قوتوں کے ساتھ برسر پیکار رہا۔ شورش کو کون دبا سکتا تھا، شعلے کا مزاج پایا تھا، لپکنے سے باز نہ رہ سکتے تھے ۔ برصغیر کی آزادی کے پیشتر ان کی گستاخ زبان اور ان کا گستاخ قلم مزاج شاہاں سے الجھتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد چونکہ یہاں بھی حق و باطل کی کش مکش جاری ہوگئی اس لیے یہ جغرافیائی انقلاب شورش کے بے چین دل کے لیے کسی قسم کے اطمینان کا باعث نہ بن سکا۔ " 2 سید عطاء اللہ بخاری کے طویں مرغیے کے چند اشعار ڈاکٹر موصوف کے خولہ نقطہ نظر کی تائید میں قابل ملاحظہ ہیں۔
دل انقلا ب حال سے نالاں ہے دوستو
شیرازۂ حیات پریشاں ہے دوستو
تا ساز گار آب و ہوا میں کہاں چلیں
صرصر کی زد میں نظم گلستاں ہے دوستو
شورش نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیر میں تھیں ۔ از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا۔ رات کی قید میں خورشید کی تنور میں تھیں ۔ سرفروشوں کے لیے دار و رسن قائم تھے ۔ خان زادوں کے لیے مفت کی جا گیر میں تھیں ۔ خاکساروں کا لہ عام تھا۔ بازاروں میں خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیر میں تھیں ایسے میں اس کا یہ کہنا کتنا معنی خیز معلوم ہو تا ہے۔ ہر دور میں سر کٹتے رہے اہل وفا کے ہر دور یزیدوں کا طرف دار رہا ہے اپی وفات پر " کے عنوان سے کہی گئی نظم میں درج ذیل اشعار غالبا مذکورہ بالا حقائق کو پیش نظر رکھ کر لکھے گئے ہیں۔
دس برس تک سختیاں جھیلیں بنام حریت
قید تنہائی میں کانے جس نے اپنے ماہ وسال
ہات پی دار کے تختہ پہ بھی کہتا رہا
ٹوکتا کوئی اسے کس مخص میں تھی یہ مجال شاعرانہ روپ تھاس کی زہاں کا بانکپن
اس کے لہجے سے پتا تھا ادیبانہ جلال
پر طالوی دور میں جب تحریک آزادی کی مہم زوروں پر تھی تو انھوں نے ملک کے گوشے گوشے میں اپی شعلہ مقالی اور آتش بیانی کے جھنڈے گاڑ دیے تھے ۔ 3 فرگی حکام نے انھیں اس جرم کی پاداش میں دس سال قید میں رکھا۔ کبھی دفعہ 124 ۔ الف کے تحت تو بھی ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ میں پھر انھیں آ زادی کے بعد دولتا نہ وازرت کے دنوں میں چند روز تک جیل کاٹنا پڑی۔ اس کے بعد ستمبر 1966 ء میں ڈینس آف پاکستان رولز کے تحت دھر لیا گیا، اس قسم کے روز کے مطابق انھیں اپر میل 1968 ء اور اگست 1972 ء میں پانبد سلاسل ہونا پڑا۔ ان ایام اسیری کے دوران مین شورش کے تن بدن میں انتقال کی آگ بھڑکتی تھی اور ار قیام پاکستان سے قبل اس آگ کے شعلے بی صورت اختیار کر گئے تھے۔
لینا ہے مجھے ہند کی تذلیل کا بدلہ
ناموں کی بجھتی ہوئی قندیل کا بدلہ
یہ ملک ہوا جس کے تشدد کا نشانہ
اب اس کی تباہی کا بھی آیا ہے زمانہ
خورشید شہنشای کو ڈھلتے ہوئے دیکھوں
سینے میں عزائم کو مچلتے ہوئے دیکھوں
یورپ کی فضاؤں میں قضا جاگ اٹھی ہے
اب جنگ کفن چوراٹیروں میں ٹھنی ہے
ہٹلر کے ارادوں کا بدلنا نہیں ممکن
لندن کے خداؤں کا سنبھلنا نہیں ممکن
تو پاکستان کی آزادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھ کر اس کی رجائیت بھری آواز یہ جادو جگاتی ہے۔
ایک نئے دور کی ترغیب کے ساماں ہوں گے
دست جمہور میں شاہوں کے گریباں ہوں گے
ناموس وطن کے لیے جانوں کو لڑادو
کہتا ہوں سنو جوش جوانی کو پکارو
چلتی ہوئی تیغوں کی روانی کو پکار
شورش کا خطیبانہ آہنگ اور انقلابی جوش و خروش اور مزاحمتی لہجہ گھل مل کر اس کی شاعری کی تاثیر کو سہ آتشہ کر گیا ہے ۔ اس نے تا عمر نہایت نا مساعد حالات کا سامنا کیا تھا لیکن کسی مرحلہ پر بھی وہ حق و صداقت کے دفاع میں لڑی جانے والی جنگ میں پسپانہیں ہوا۔ خوف اور مایوسی کے الفاظ اس کی لغت میں نہیں تھے ۔ اس نے بلاوجہ مینہیں کہا ہے۔ زمیں پر جب کوئی افتاد تازہ سراٹھاۓ گی ہماری جراتوں کی داستانیں جگمگاؤ گے ظہور پاکستان کے بعد جس قسم کے سیاسی رہنماؤں کو عنان اقتدار سونپی ، ان کی خود غرضی،مفاد پرستی اور موقع پرستی کو دیکھ کر اس کا باغی قلم بول اٹھا تھا۔
ہر راہنما کے لیے پر چم ہی کفن ہے
مل جاۓ وزارت یہی موقف، سہی فن ہے
ہر دل میں سائی ہوئی اپنی ہی لگن ہے
کچھ قوم سے مطلب ہے نہ کچھ فکر وطن ہے
کس جرم میں میناد سبو بیچ رہے ہیں
رہزن ہیں شہیدوں کا لہو بچ رہے ہیں
کیا آزادی وطن کے متوالوں نے اپنے خون کا نذرانہ اس لیے پیش کیا تھا کہ ان کی قربانیوں کی ضائع کر دیا جاۓ؟ کیا مذ ہب اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں ربران صفت راہنماؤں کو اختیار و اقتدار کا مستحق قرار پانا جائز و مناسب تھا؟ ان سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے ۔ ان خود ساختہ محب وطن رہنماؤں کی اصل حقیقت کو فاش کرتے ہوئے شورش کہتے ہیں کہ
تولہ کی طرح میں بھی ماشے کی طرح ہیں
ہر چند گنہگار کے لاشے کی طرح ہیں
اب کیسے کہوں کس سے کہیں کون میں کیا ہیں
بازار میں بیٹھی ہوئی کسی کی حیا ہیں !
اس سے متاثر ہو کر جدید دور کے ایک شاعر نے کہا ہی مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں شورش نے اپنے مخصوص خطیبانہ انداز میں پاکستانی لیڈروں کی جو درگت بنائی ہے، اور جس قسم کی تشبیہات کے ذریعے انھیں مطنون ومعتوب ٹھہرایا ہے وہ ان کی جرا ت مردانہ اور حق پرستانہ رویے کو آشکار کرنے کے لیے کائی ہے ۔ اس کے علاوہ جب شورش کی نظر مذہب کے نام پر عام انسانوں کو نشانہ استحصال بنانے والے طبقہ پر پڑتی ہے تو وہ اس طبقہ کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی فرد کو خار دار تارنما اشعار سے مجروح کیے بنا نہیں تھمتے ۔ ایسے میں وہ مولانا ظفر علی خاں کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں تا کہ
ظفر علی خاں کو ڈھونڈ تا ہوں کہ ان عماموں کے جی کھولے
کہاں کے درویش، میر و سلطاں کی چوکھٹوں کے غلام ہیں یہ
به قول اقبال تیغ جس میں کوئی نہیں وہ نیام ہیں یہ
نفس کے ہٹھے چڑھے ہوئے ہیں رو مشحیت میں خام ہیں یہ
میری تمنا ہے کہ ان فقیہوں کو دور حاضر پچھتاڑ ڈالے
جناب شورش میر واعظوں کا نگر ہے انساں نہیں ملے گا
جب وہ خودساختہ صوفیوں، ملاؤں، ذاکروں، واعظوں ، رہبروں اور صحافیوں کو ان کے حقیقی منصب کے منافی اعمال کا ارتکاب کر تے ہوۓ دیکھتے ہیں تو وہ ان سب کو بھی ہدف تنقید بناتے ہیں۔
باد صبا کر بادخزاں نے کیا نڈھال
میاد، آبروۓ من زارلے گئے
شورش نے "موت کی واپسی میں ان عوامل اور حالات کا ذکر کیا ہے، جو اس کے رہبر سکون قلب کے آ ثار لے گئے اب تک کیے گئے اشعار کے لیے پس منظر کا کام دیتے ہیں، لکھتے ہیں۔ "ایوب خاں اور موی خاں نے شاید فرض کر لیا تھا کہ وہ رب قہارو جبار ہیں لیکن رب رمن درحیم نے آن واحد میں انھیں پائخ ڈالا ، دونوں آوارہ قہقہوں کی طرح اڑ گئے ، تب یہ خیال ہی نہ تھا کہ موت کی سرحد سے واپس آ جاؤں گا لیکن جب انسان کسی اعلی مقصد کے لیے مرنے کو تیار ہو تو موت کئی کاٹ کر نکل جاتی ہے۔ میں نے موت کو بھاگتے دیکھا ہے، اس ساری کہانی کا نام اسی لیے "موت ہے۔
شورش اپنے عہد کی ایک توانا اور دل نشیں آواز تھے ۔ اس کا سفر ایک غلام کے فرد کی حیثیت سے شروع ہوا تھا۔ پھر وہ حریت پسندوں کے قافلہ میں شامل ہو گیا۔ اس قافلۂ نیم جان گریبان کے چاک سے آ زادی کا پھر براہن کر نکلا اس کی آ واز شروع میں شہنائی تھی ۲ خر تلوار ہوگئی، یہ کارواں رفتہ رفتہ پڑھتا گیا ۔ جب یہ قافلہ نیم آ زادی منزل مقصود سے گزرتا ہوا آ گے بڑھا تو انگریزوں کے بجاۓ ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف فسادات میں الجھنا پڑا۔ بعد ازاں اسے پاکستان کے مختلف محکمرانوں اور بالائی طبقات کے ظلم و استحصال کی مزاحمت کرنا پڑی، نیز 1965 ء اور 1971 ء میں لڑی جانے والی پاک۔ بھارت جنگوں میں پاکستان مخالف فریق کی مدافعت میں اردو شاعروں نے قابل ذکر کر دار ادا کیا۔ شورش بھی ذکورہ حالات سے باخبر ہونے کے باعث ہر قابل مزاحمت محاذ پر ڈ نے رہے۔ ایک بچے ادیب و شاعر کی طرح وہ ہمیشہ وطن کے وفادار رہے، حکومت کے نہیں ۔ وہ صرف صداقت کے داعی تھے نصف صداقت کے نہیں، بلکہ مکمل صداقت کے جوادئی ہوتی ہے اور وقتی تقاضوں اور مصلحتوں ی مرہون منت نہیں ہوتی ۔ شورش اور وطن کا رشتہ آ قا ومحکوم کا نہیں بلکہ عاشق ومحبوب کا رشتہ تھا اور محبوب کے سلسلے میں عاشق بھی مصلحت کوشی سے کام نہیں لیتے ۔ شورش نے اپنی 67 سالہ عمر میں 20 ہزار سے زیادہ مضامین، 60 ہزار سے زیادہ تقریریں، 30 کتامیں، 50 قلمی معر کے 30 قومی و ملی تحریکیں، اردو زبان کو ایک ہزار نئی اصطلاحات ، 900 سے زائد انوکھی تشبیہات اور 5 لاکھ سے زائد شعر اپنے قارئین کو دیے ۔ ان لاکھوں اشعار میں بھی ایک خطیب بول رہا ہوتا ہے اور بھی ایک سچا پکا مسلمان ادیب جس پر خوف اور ڈر نام کی کوئی چیز اثر انداز نہیں ہوتی ۔ کہیں اس کا انداز تنگم ایک صحافی کا ہو جا تا ہے اور کہیں وہ ایک ادبی معرکہ آرا کا قلم سنبھال لیتا ہے ۔ حافظ مد ابراہیم بندھانی قم طراز ہیں۔
عربیت و استقامت کے اس کو بے کراں کی آش اماں تظر ہیں فرکی استعار کے ایوانوں کے لیے کڑکی برق بن کر گرتی تھی جن سے ان کے محلات کی بنیاد یں تک لرز جائی تھیں ۔ فرکی سرکار نے مذہ آزدی سے سرشار اس مرد 7 ہیت کو مرعوب کرنے کی خاطر انسانیت سوز اور سلا کا نہ الکانڈ ے استعمال کے ۔ فرکی حکومت نے آ نا شورش کو آزادی کے ترانے گانے اور خواب غفلت میں کو غلام قوم کو گانے سے باز رکھنے کے لیے کیا کیا حربے آزماۓ؟ جہل میں ہر ج ان کے منہ پر گو بر کا لتھڑا تک باندھا گیا مگر جہرد استبدادیت کے یہ تمام فرگی طور طریقے اس کوہ قامت حوصلے کے مالک کو نعرہ کرنے سے نہ روک سکے۔" 7 رستا نیز بلند جس شخص کو مولا نا ظفر علی خاں اور حبیب جالب جیسے نامور انقلابی اور باغی شاعر نے منظوم خراج تحسین پیش کیا ہو، اس کی عظمت کے اعتراف میں کون بھل محسوس کر سکتا ہے؟ کیا اس واقعہ سے ایک فلمی ہیرو کا نا کہ ذہن میں نہیں آ تا؟ شورش کی ہمشیرہ کی شادی میں چند روز باقی تھے ، شورش اس کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کی خاطر گھر کی بناوٹ وسجاوٹ میں مصروف تھا کہ سوچے سجے پلان کے تحت پولیس نے آ گر گھر کا محاصرہ کر لیا۔ حکومت اس سے اس بات کی ضمانت چاہتی تھی کہ آئندہ وہ کسی تم ی باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہو گا ۔ تو اس بطل جلیل کے انتہائی حقارت ونظرت آمیز انکار کیے جانے پر ڈنینس آف انڈیا ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ جب شورش فکڑیاں پہن کر جیل جانے لگا تو بہن نے راستہ روک کر پو چھا" کہاں جار ہے ہو بھیا " آغا شورش نے جواب دیا جیل خانے ۔ بہن نے انتہائی غم و غصے سے کہا : اب اس وقت آ نا جب انگریز اس ملک سے ہمیشہ کے لیے چلا جاۓ اور ہمارا ملک آزاد ہو جائے ۔ یہ آۓ دن کا آنا جانا ٹھیک نہیں ۔ "اس تم ی صورت عال مونا فلموں میں دیکھی جاتی ہے مگر یفلمی کہانی نہیں ، ایک حقیقی داستان حریت کا ایک ورق ہے ۔ شورش کی زندگی کے اہم میں سے چند تصویر میں ان اشعار میں بھی مل جاتی ہیں جو ان کی خراج عقیدت پیش کرتے ہوۓ حبیب جالب نے لکھے ہیں۔
اگ عمر لڑا ظلم سے تو بے سرو ساماں
پیدا کہاں آفاق میں تجھ سے جری انساں
لکھی ہوئی تاریخ میں ہے تیری کہانی
انگریز کے انداں میں کئی تیری جوانی
شورش کے کلام کے انقلابی ، باغیانہ اور مزائمتی پہلوؤں پر نظر دوڑاتے ہوۓ بھی ہمارا خیال چلی کے نامور مزاحمتی شاعر نیر و دا کی طرف جا تا ہے اور بھی فلسطینی حریت پسند، مقاوتی شاعر محمود درویش کی جانب ، کیونکہ ان دونوں کو بھی عمر بھر انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا تھا۔ شورش کے ہاں درجن بھر سے زیادہ نظمیں ملتی ہیں جن کے عنوانات میں لفظ انقلاب مشترک ہے جیسے "انقلاب اے انقلاب "انقلاب "، "لوم انقلاب "، انقلاب و انقلاب "وغیرہ ۔ اس طرح "اس طرح "سرفروش"سرفروشوں کا ترانہ "ای نظمیں ہیں جن میں انقلابی اور مزاحمتی رویوں کی عکاسی ملتی ہے ۔ اگر ایک طرف شورش نے مذہبی پیشواؤں کی مدح سرائی کی ہے جن میں محی الدین گولڑوی ، صاحبز ادوفیس الحسن شاہ وغیرہ شامل ہیں تو دوسری جانب اس نے ذوالفقار علی بھٹو اور اس کے ہم خیال سیاست دانوں پر کھل کر تنقید کی ہے۔ الجہاد و الجهاد والجہاد، یلغار کرو یلغار کرو، چه تمبر، غازی یا شهید، پاک فون زنده باد، عسار پاکستان، میرا سب کچھ وطن کا ہے، پاکستان کے سرفروش، وغیرہ جہادی اور رجزیہ نظمیں ہیں ان میں بیشتر نظمیں مزاحمتی جذبات کی دولت سے مالا مال ہیں ۔قلم اور اس کے وقار کے بارے میں شورش نے درجنوں نظمیں لکھی ہیں ۔ ان نظموں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ان میں آ زادی تقر یہ تحریر اور آزادی راۓ وغیرہ جیسے حقوق انسانی کی حمایت میں زور قلم صرف ہوا ہے ۔ ایسی نظموں میں " قلم"، "میرا قلم بھی جنگ میں تکوار ہو گیا"، " قلم کا موقف قلم قتلے "،"وید یہ ، قلم کی آزادی ، ہم اہل قلم کیا ہیں " ، قلم برداشتہ " مرے ہم قلم رفیقو قلم کے مجرے * - قلم کیا ہے " " قلم پارے "وغیرہ مرامتی عنصر لیے ہوۓ ہیں ۔ امام حسین علیہ السلام، ظفر علی خاں ، جوش، مجاز ، عطا اللہ شاہ بخاری، اقبال، میر، جوہر،مفتی مولانا محمدشفیع وغیرہ شورش کی پسند یدہ شخصیات میں شامل ہیں ۔ قادیانی ہوں یا موقع پرست، خود غرض را ہنما، ملک دشمن لوگ ہوں یا قوم دشمن طبقات شورش کے شعری تیروں کا نشانہ بنتے ہیں۔ کلیات شورش 1819 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں سینکڑوں انقلابی اور باغیانہ، احتجاجی اور مزاحمتی اشعار بکھرے ہوۓ ملتے ہیں ۔ شورش نے ظفر علی خاں کی طرح ملکی سیاست پر ہنگامی نوعیت کی نظمیں کثرت سے لکھی ہیں ۔ پاکستان میں جس قسم کے سیاسی کلچر نے فروغ حاصل کیا اور استحصال، جبر، بے ضمیری اور شخصی مفادات پر مبنی سیاست کی گئی اس کی چلتی پھرتی تصویروں بھی ان نظموں میں موجود ہیں ۔ 8 شورش کا تعلق مجلس احرار سے تھا۔ تحریک پاکستان سے پہلے احرار بجاۓ خود ایک ہنگامہ خیز تحر یک تھی جس نے اپنے عروج کے زمانے میں انگریزی حکومت پر لرزہ طاری کر دیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد احرار نے من حيث الجماعث پاکستان سے وفاداری کا کھلم کھلا اعلان کیا ور سیاست سے کنارہ کشی کر لی مگر انفرادی حیثیت سے بعض رہنما سیاست میں حصہ لیتے رہے ۔ شورش نے اپنی نظم و نثر میں سیاسیات پاکستان پر کھل کر اظہار رائے کیا ور مصلحت کوشی سے بلند رہ کر صداۓ حق بلند کرتے رہے ۔ جب وہ مختلف حالات و واقعات کے ردعمل میں اپنا مزاحمتی مواد اکٹھا کر تے ہیں تو ان کا قلم دائرہ سیاست سے باہر نکل کر مذہ، تہذیب، ثقافت، اور دیگر شعبہ ہاۓ زندگی کو بھی سمیٹتا چلا جا تا ہے ۔ شورش کی مزاحمتی شاعری کے عمیق مطالعہ سے ان پر ساحر ، ظفر علی خاں، احسان دانش، اقبال اور حالی کے بطور خاص اثرات دکھائی دیتے ہیں ۔ البتہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہ ہو گا کہ وہ ان سب کے نقال ہیں، ان سے متاثر ہونا دوسری بات ہے ۔ شورش ایک مجاہد صفت ، جنگجو، ادبی سالار کی حیثیت سے چوکھی لڑنے میں مہارت نامہ رکھتے تھے ۔ ان کا مزاحمتی نمونہ کلام ملاحظہ ہو۔
شورش ! قلم کی رو پہ خیالات کا نزول
جنگ و جدل میں نعرہ پریکار جس طرح
مصلحت بینی مرے افکار کا شیوہ نہیں
رکڑی افتاد میں تیغ قلم ہے بے نیام
ہم کسی فرعون کی طاقت سے ڈر سکتے
نہیں ناچ تگنی کا حریفوں کو نچایا جاۓ گا
خون دل سے میں نے لکھی ہے ینظم دلکشا
یہ ترانہ در کے تختہ پہ گایا جاۓ گا
کانپتے ہیں س کی ہیبت سے سلاطین زمن
دہد بہ فرماں رواؤں پر بٹھا تا ہے قلم جاں
اپنے خیالوں کی صداقت پہ فدا کر
اس دور پر آشوب میں یہ فرض ادا کر
کیے کیسے جا برو آمر یہاں آتے رہے؟
نزع میں ان پہ جو گری؟ وہ سناتا ہے قلم
شورش مرے چمن کے محافظ ہیں مسخرے
ان بزدلوں کی ہر کہیں تو ہین چاہیے
یہ اور ایسے سیکڑوں اشعار شورش کے احتجاجی اور انقلابی رویوں کی خوب صورت انداز میں ترجمانی کرتے ہیں ۔ جالب کی طرح شورش نے بعض سیاسی رہنماؤں پر نکتہ چینی کی اور پھر ان کے مثبت اقدامات کو سراہنے میں بجل محسوس نہیں کیا جیسا کہ نظم " کامریڈ بھٹو کی ہے ہو " میں ذوالفقار علی بھٹو کی کردارکشی کی گئی ہے اور "مارشل لا وفات پا گیا " میں اس کے آمریت شکن کردار کی مدح سرائی کی گئی ہے۔ ہم میں بھٹو کے بھی ممنون کرم اس باب میں ورنہ ان حالات کی زد سے نکلنا تھا محال اس طرح اگر ایک طرف "فقیہ شہر "، " بناسپتی مولا نا "اور "دانش در "وغیرہ جیسی نظموں جیسی نظموں میں مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مختلف نازیبا حرکات کا ارتکاب کرنے والوں پر طر کے نشتر چلاۓ گئے ہیں تو دوسری طرف علماۓ حق اور مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے محاسن ذاتی کا کھلے دل سے اقرار کیا گیا ہے ۔ اس حوالے سے سید ابو الکلام آزاد، عطاء اللہ شاه بخاری کی الدین گولڑوی ، صاحبزاد و فیش اسن شاہ کے ساتھ ساتھ مولا نا مفتی محمود عید الغفور اور مولانا شاہ احمد نورانی وغیرہ کے بارے میں شورش کی نظمیں جاذب توجہ ہیں ۔ مئو ر الذکر تین شخصیات کو لالم "مارشل لاوفات پا گیا " میں قابل تعریف گردانا گیا ہے۔ جس طرح سا غرصد پتی نے صد رابوب کاں کو بیک وقت اچھا در برا اقرار و یا تھا لینی ایک وقت میں اس خیال کے عامل تھے۔