راجہ گدھ کے کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ ( ساجی مطابقت کے حوالے سے )
The paper tells that the characters of this novel belong to everyday life. They also know how to adapt to the outside environment. They try to adjust according to the circumstances but something is lost during the process. They want to merge themselves in the others and so the others and so the others want merge in them. This flexibility can result into some negative effects or even ruin some others.
ہرشخص اپنے داخلی تجر ہے کے متعلق اس امر کی تائید کرے گا کہ کسی نہ کسی قسم کا شلسل شعور میں ہروقت جاری رہتا ہے ۔ شعور میں کسی بھی شے کے بارے میں مفروضے بارش کی مانند وارد ہوتے میں لینی ہر شخص کا شعور محسوس طور پر مسلسل ہوتا ہے۔ یہ تسلسل ثبت بھی ہوسکتا ہے اور منفی بھی ۔ ثبت تسلسل میں رکاوٹیں بے شمار ہوتی ہیں مگر منفی رجحان موافق ماحول کے بغیر بھی پنپتا چلا جا تا ہے ۔ دوسری طرف مثبت رجحان کے پنپنے کے لیے ایک موافق ماحول کا درکار ہوتا ہے بے حد ضروری ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک شخص اپنے شعور میں بسنے والے یا آنے والے متواتر خیالات کو کسی کونتقل نہیں کرسکتا بلکہ دوسرا بھی اپنے لیے جب تک ویسی مطابقت نہیں لائے گا ۔ تب تک ویسے خیالات خاص طور پر مثبت رجحانات کی طرف مائل ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ ان کے لیے موافق ماحول بے حد مشکل ہے جب کہ دوسری طرف منفیت کو ہوا دینا کچھ مشکل نہیں ۔ نفسی حالتیں مدت یا زمانے سے عاری نہیں ہوتیں بلکہ ہر حالت کی ایک خاص مدت ہوتی ہے اور چونکہ شعور تغیر پذ یر ( متغیر ) ہوتا رہتا ہے لہذا یہ بھی متغیر رہتی ہیں اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب حالتیں بدلتی کب کب ہیں؟ اس کی مثال ایک ایسے شخص سے دی جاسکتی ہیں کہ جو شراب تو نہیں پیتا مگر اسے برا بھی نہیں کہتا بلکہ جب اسے موافق ماحول مہیا آ تا ہے تو اسے پینے سے گریز نہیں کرتا یوں یہ چیز سامنے آ جاتی ہے کہ اس کے لاشعور میں اس چیز سے مطابقت چھپی بیٹھی تھی مگر ماحول موافق نہ تھا مگر جیسے ہی موافق ماحول مهیا میسر آیا تو وہ لاشعور میں بسی مطابقت شعور کے چور دروازوں سے در آئی اور لوں اس کی تخصیت میں ایک لچک داریت ( flexibility ) پیدا ہوگئی اور اب چونکہ اس لچک داریت کی بنیاد ہی منفی ریحان کی پیدا کردہ تھی سو اس کی شخصیت منفی رجحانات، تجربات کی دلدل میں پھسلتی چلی جاۓ گی۔ یہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی شعور میں آنے والی فکر اچا تک پیدا نہیں ہوتی بلکہ غیر محسوس طریقے سے لاشعور میں پہلے سے پنپ رہی ہوتی ہے اور پھر زمانی وقفوں سے موثر حالات کے تحت رونما ہوتی ہے ۔ بانو قدسیہ کے ناول’’ راجہ گدھ‘ کے کردار وں کا جائزہ لیا جاۓ تو اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرے میں موجود ہر شخص کی شخصیت مطابقت + موافقت = چکداریت ، فارمولے کے زیر اثر کچل پھول رہی ہے ۔ انسانی شخصیت میں پیدا ہونے والی لچکدار بیت مثبت بھی ہوسکتی ہے اور منفی بھی مصنف کے ناول کے کر داورں پر مثبت ومنفیت کی ملی جلی کیفیت طاری نظر آتی ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ مایوسی کے قلعوں میں گھرا ہوتا ہے تو مخالف قم کے جذ بے اس پر وقتی طور پر حاوی ہو جاتے ہیں ۔ مایوسی کے عالم میں ایک عام انسان مر ایضانہ حالتوں میں خوف وغضب ، بزدلی و بہادری لینی ہر دو مخالف جذبوں اور رجحانات کی زد میں ہوتا ہے اور یہی وقت اس پر حاوی ہوکر اس کے دل و دماغ کی دنیا میں تہہ و بالا نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد یہیں سے انسانی بس و بے بسی کا تماشا شروع ہو جا تا ہے جو بانو قدسیہ نے اپنے ناول کے کرداروں کے ذریعے پیش کیا جائے ۔ ”راجہ گدھ اردو میں ایک مختلف طرز کا ناول ہے اس میں بالکل انوکھی اور انسان کو حیرت میں گم کر دینے والی بات یہ ہے کہ بانو قدسیہ (مصنف) نے کس قدر کمال فن کا مظاہر کرتے ہوۓ انسان کو،انسانی فطرت کے جانور ’’گدھ‘ سے مشابہت رہی ہے۔ راجہ گدھ‘‘ کے کرداروں کا بھر پور تجزیہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنسی بے راہروی، عشق لاحاصل کا دکھ، کٹی بیٹی چنگ کی سی زندگی اور مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈوب جانے والا ماحول یہ سب منفی رجحانات کی طرف مائل ہونے کا نتیجہ نہیں ۔ انسان خدائے واحد کی تخلیق ہے اور تخلیق خواہ خود کو کتناہی بگاڑ کیوں نہ لے آ خر کار اس میں وہ معصومیت جوتخلیق کے وقت بھر دی جاتی ہے وہ وقت کے ساتھ ساتھ سمٹتی سمٹتی لاشعور میں دب کر موافق ماحول اور اپنی مطابقت کے انتظار میں کسمساتی ہے۔ بالآ خر مثبت رحمان کی ملکی سی تھکی سے نمودار ہو جاتی ہے اور پر شعور کے وہ گوشے جو زندگی کی بے ترتیبی سے سن ہو جاتے ہیں۔ بالآ خر ثبت رجحان کی اپنی شخصیت پر تچاپ لگوانے کے لیے مثبت بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ تخلیق کرنے والے لینی خالق کے بارے میں یہ بات تو مانی پڑے گی کہ جب وہ کوئی بھی چیز تخلیق کرتا ہے تو اسے یہ بات بخوبی معلوم ہوتی ہے کہ وہ یہ کردار کیوں تخلیق کر رہا ہے اور کس لیے تخلیق کر رہا ہے اور سب سے بڑی بات کہ اس کی تخلیق ناول’’ راجہ گدھ‘ کے تمام کرداروں کا تجزیہ ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جائے تو بخوبی اندازہ ہوگا کہ بانو قدسیہ کے ہر کردار کے بچے ایک خاص مقصد اور ایک خاص پہلو کارفرما ہے۔ بانو قدسیہ کا کمال ہے کہ ناول کے تمام چھوٹے بڑے کرداروں کے ذریعے انسانی فطرت کا و ہر ہر پہلو پیش کر دیا ہے۔ ہر طرح کا مرد اور ہر طرح کی عورت ور ان کے رویے . جو اگر ثبت ہیں تو کیوں ثبت ہیں؟ اگر منفی میں تو کیوں؟ صرف ہلکی سی تھپکی سے منفیت کی راہیں ہموار ہوتی چلی جاتی ہیں۔ ان سب کے پیچھے انسانی فطرت میں پایا جانے والا ایک خاص پہلو’ ذات میں پیدا ہونے والی لچک‘‘ کس رویے کو اپناتی ہے اور کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں نمایاں ہے۔ اس ناول کے کرداروں کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ نیکی انسانی سرشت کا ہر حال خاصہ ہے، سو یہ ثبت پہلو ہوا۔ دوسری طرف منفی پہلو جو سامنے آ تا ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود احساس کمتری میں بھی مبتلا ہے اور اسی احساس کی تسکین کیلیے معاشرے سے انتقام لیتا رہتا ہے۔ تمام احساسات جو " Inferirity " کے بوجھ تلے دب کر لاشعور کی قید میں آ جاتے ہیں وہ نفس کے آلودہ ہونے پر بیدار ہوجاتے ہیں اور پھر موافق ماحول کے مہیا ونے پر لاشعور سے انسانی شعور کا حصہ بن جاتے ہیں اور بانو قدسیہ کا یہ کمال ہے کہ اس نے انسانی نفسیات کو ہر ہر زاویے سے کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اگر ایک مڈل کلاس باشند و ہے تو اس کے کیا کیا دکھ اور نفسیاتی الجھنیں ہیں اور اگر ایک اپر کلاس کا نمائندہ ہے تو کن کن مسائل سے وہ بھی دوچار ہے ۔ یہاں مصنفہ کا یہ کمال ہے کہ ایک کچلے ہوۓ انسان کی نفسیات پیش کی کہ وہ کس طرح اپنی ہوس کا غلام ہوکر لاشعور میں پلنے والی منفی طاقتوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اور یوں نفسانی خواہشات کی تکمیل وتسکین کے سلسلے کو نبھاتے نبھاتے اس کا ابدی غلام ہو جا تا ہے ۔ یہاں آ کر ایک انسان اور گدھ میں مطابقت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ ماحول موافق مہیا آ چکا ہوتا ہے اور مطابقت + موافقت کا نتیجہ ذات میں کداریت پیدا کرنے کا موجب بن جاتے ہیں یوں یہ لپکداریت منفی بھی ہوسکتی ہے اور بت بھی .گده نفی رجحان کی تقلید کے نتیجے کی پیداوار ہے۔
راجہ گدہ‘‘ اصل میں ایک ایسے مرد کی کہانی ہے کہ ہمیں اپی (دگی کا ای۔ ایک لمحہ خود اپنی زبان سے بیان کرتا پا جاتا ہے ۔ یوں کہے تو وہ ناول کا ہی ہے مگر یہاں یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ وہ ہیرو سے کم ناول کی ضرورت ہے وہ یوں کہ مطالی کو مرد کی خصلت کو بیان کرنے اور اسے ناول کے عنوان سے مولاہات دلانے کے لیے ہر حال ای۔ مردانہ کردار کا سہارا در کار تھا کہ جس کے شعور میں پور در والے بھی موجود ہوں ہاں واضح ہوتا ہے کہ ’’گدھ‘ چوری کر کے کھانے کا عادی ہے اور مردار پوند واقع ہوا ہے کیونکہ فطرتا بزدل واقع ہوا ہے۔ وہیں قیوم کا کردار اس سے جب مطابقت رکتا ہے تو انسان ہونے کے ناطے جلد موافق ماحول بھی تلاش لیتا ہے اور سلسلہ اس میں گدھ سے بھی بدتر پکداریت پیدا کر دیتا ہے تب ہم ’’ مطابقت + موافقت = لچکدار یت‘‘ کے اس آئینے میں بھر پور دیکھتے ہوۓ انسان بھی اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے گدھ سے ’’ راجہ گدہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ ایک بات کا تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے انسانی فطرت اور جانور کی نفسیات دونوں میں کچھ مطابقت ( Adapotability ) ہے مگر ان میں موافقت ( Adjustability ) کب پیدا ہوتی ہے تو یہ انسان کا اپنے نفس کے غلام ہونے پر رو یہ ہوا پکڑتا ہے یوں اسے کے پیش نظر جب ہم’’ قیوم‘‘ کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بھر پور مردنہیں اس کی زندگی انتشار کا شکار ہے ۔ دل ہی دل میں کڑ ھنے والا ، حسد کی آگ میں جلنے والا اور دلی کیفیات کو بروقت آشکار نہ کر نے والاشخص ہے ۔ بزدلی اس کی ذات کا خاصہ ہے اور یہی بات گدھ سے اس کی مطابقت پیدا کرتی ہے موافق ماحول ملنے پر وہ تھوڑی ہوئی شے ( مردار ) پر اکتفا کر تا ہے۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ داخلیت اور خارجیت دونوں ایک دوسرے کو متاثر کری ہیں ۔ خاص کر داخلی رویہ خارجی حقیقت کو بدل سکتا ہے ۔ یہ بات بھی واضح ہوتی معلوم ہوتی ہے کہ جہاں انسان کی ذات کی نفی ہو اور اسے معاشی ، سیای و سامی حالات یکساں میسر نہ آئیں تو اس کی پرواز میں بھی کوتاہی آہی جاتی ہے۔ یوں اس میں کئی طرح کی برائیاں پیدا ہونے لگتی ہیں اور وہ ہر طرح کے جذبات کی دعوت عام کرتا ہے نظر آ تا ہے یوں اس امر کی تصدیق بھی ہوتی ہے کہ ہم انسان اپنے رویوں کے پھلنے پھولنے کے زیادہ تر خود ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کے مطابق: " ہم اپنی ہستی کا فیصلہ خود کرتے ہیں اور اس ’’ بے چارگی‘‘ سے ’’ہارا کرب‘‘ دور ہو جا تا ہے ۔‘() اس کا اندازہ ہمیں ’’قیوم‘‘ کے کردار سے بخوبی ہوتا ہے کہ وہ اپنے رویوں میں ہر طرح سے آزاد ہو کر نظر آ تا ہے اور اپنی ذات میں منفی لچکدار بیت کو پینے کا خوب خوب موقع دیتا ہے ۔ ناول میں ہمیں قیوم نظر کی زندگی میں درپیش مختلف صورت حال کے تحت گزشتہ یادوں کی اس کے حال کے ساتھ بڑی دلچسپ پیش آتی چلی جاتی ہیں ۔ اس کے تصورات میں بسنے والے بے پناہ لوگ جن میں والد ین. اس کے بچپن کا دوست گاتن ،گاتن کی ماں ، چاچا، غلام رسول اور ماسر..۔ یسب اس کی شخصیت سے مطابقت رکھتے ہیں اور یوں یادوں کا نہ ختم ہونے والا ایک طویل سلسلہ اس کو موافق ماحول ملنے پر ساتھ ساتھ چلتا چلا جا تا ہے اور اس کی شخصیت میں زیادہ تر منفی کداریت کا باعث بنتا ہے بہت کم یہ ثبت کچلدار بیت کا روپ بھرتا ہے مگر جب وہ سیمی ( جومردار ہے ) سے جنسی تشفی حاصل کر نا چاہ رہا ہوتا ہے تو یہ احساس غالب آ جانا کہ اسے تو اس سے بے پناہ عشق ہے مثبت لچکداریت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ ’’ اس وقت میں سیمی کا کف او پر کر رہا تھا ۔ معا میرے دل میں خیال آیا کہ قلب کا راستہ جسم سے ہوکر نہیں گزرتا ۔ قلب تک پہنچنے کے لیے صرف ٹیلی پیتھی ، وجدان ، ہپ نوٹزم مسمریزم کی ضرورت ہے۔ جسم روحانی عمل کو زمین میں ارتھ کر دیتا ہے ۔ میں نے بڑے تقدس سے سیمی کے کف بند کیے اور دل میں عہد کیا کہ اب میں اس سے بھی نہیں ملوں گا ۔‘‘ ( ۲ ) یہاں اس میں سے گدھ کی صفات بدل گئی ہیں یعنی مرد کی یہاں جانور سے مطابقت بے معنی ہے ہاں البتہ یہ ہے کہ اس کے جذبے کے موافق حالات نہیں اور کچھ زیادہ امکان یہ ہے کہ شخصیت میں پائی جانے والی نیک تھوڑی دیر کوختم ہو گئی ہے اور کہیں ے جذ بہ رہم نے نفس کو آمادہ گناہ ہونے سے روک دیا ہے۔ اب اس کی مطابقت کی گرفت تھوڑی ڈھیلی بھی ہوئی ہے اور نفس بھی مزید آلودگی سے موافقت لا نا بھی نہیں چاہ رہا ہوں یہاں دو سطح آ جاتی ہے جہاں بانو نے اس کی زندگی میں ایسی کچلداریت کے لیے راہیں ہموار کرنی شروع کر دی ہیں جو اسے مثبت سوچوں کے دائرے میں لاسکیں۔ یہاں یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی فطرت ہی اصل میں ایسی ہے کہ ہمیشہ ایک چیز پر گزارا ممکن نہیں، ہمیشہ ایک رجحان کادہ قائل نہیں یونہی اس کی سوچیں بدلتی رہتی ہیں اور پھر علم کا متواتر بے بہا خزانہ وجدان کو جلا بخشا ہے اور اسے سمجھ کر استعمال کر نے والے کسی بھی گناہ سے بچ کر شعور کی عدالت میں سرخرو ہوتے ہیں مگر منفیت کے اثرات قبول کرنے والوں میں حساس کمتری اور احساس جرم کا غلبہ ہوجا تا ہے۔ بہرحال یہ ایک الگ لمبی بحث ہے۔ اس ناول کا ایک کردار’’ چاچا غلام رسول‘‘ کا کر دار ایک عجیب منفیت لیے ہوۓ ہے چاچا غلام رسول کا تعارف ہی اس کی شخصیت میں پیدا
ہونے والی منفی لچکداریت کا عکاس ہے کہ چاچا غلام اشتہاری مجرم جبیها اشتہاری عاشق تھا۔ شروع شروع میں پانچ سات معاشقے چندرا میں بھی دھڑے کے ہوۓ لیکن دوکان کی مشہوری سے بہت پہلے بات پھیل گئی کہ سارا سودا نا کارہ -ہے۔آنگن میں پانچ کر عموما چاچا غلام اپنی داڑھی میں انگلیاں پھیرتا۔ کان کامیل نکالتا، کسی چھوٹے بچے کو شیشہ پکڑا کر مونچھوں کے بال تراشتا، جو بھی باور چی خانے میں موجود ہوئی اس سے باسی روٹی اور مکھن مانگ کر کھا تا پھر لال نرمی کی جوتی میں سے لٹھے کی شلوار جیسی شواق شواق آواز نکالتا۔ وہ بھی آنگن میں یہاں جاتا کبھی وہاں ۔ چاچا بڑاحکمی آ دی تھا۔اسے ہرلڑ کی پر عورت کی پرسنل ہسٹری معلوم تھی کون سیدانی کس میراثی کے ساتھ کتنی در پنسی ری کون سی شیخانی کا پانچواں بچہ ترامی تھا۔ کس مغلانی نے اپنے مزارع کے بیٹے سے دوستی لگارکھی ہے کون سی آ رائیں گھر سے اودھل گئی ہے ۔ایسے قصے اسے بڑی چٹ پٹی تفصیلوں کے ساتھ یاد تھے ۔ای کہانیوں کی وجہ سے جوان لڑ کے اس کے آس پاس بیٹھنا پسند کرتے تھے۔ وہ جوانوں کو محبت کرنے کے طریقے ایسے بتاتا تھا جیسے پہلوان اپنے بچوں کو داؤ پیچ از بر کراتے ہیں ۔‘( ۳ ) اس سب تعارف کے بعد قاری کو بخوبی اندازہ ہو جا تا ہے کہ چاچا غلام رسول کا کر دار ہمیشہ ان کی ٹوہ میں ہے جو اس کی شخصیت سے مطابقت رکھتے ہیں اور اس کی ٹوہ لگانے کا عمل تب تب جاری ہے جب جب موافق ماحول مہیا ہوتا ہے یوں اپنے منفی رویوں کی بنا پر وہ سمت کے تعین میں بے خود ثابت ہوا اور’قیوم ‘‘ کی یادوں کا ایک حصہ بھی ہے اور یہ تمام رویہ اس کی شخصیت میں پائی جانے والی منفی لچکدار بیت کو مضبوط کرتا چلا جا تا ہے۔ یوں منفی رویوں سے استفادہ کی ہوں بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہرشخص کے احساس کی یوں بھی ایک عام نواہوتی ہے اور یہ نوا ان خارجی اسباب سے آزاد ہوتی ہے جو ہماری طمانیت و بے اطمینانی کا باعث ہو سکتے ہیں لینی اگر ایک ادنی درجہ کے آدی کوکوئی بڑی کامیابی حاصل ہو جائے تو وہ ممکن ہے کہ غرور تکبر کا شکار ہو جاۓ ۔ اور ایک ایسا شخص جس کی زندگی میں کا میالی مشتہ نہیں ہے اور جس کی سب قدر و منزلت کرتے ہیں دو آخر تک اپنی قوتوں پر منکسرانہ نظر ڈالتا ہے ۔’’ پروفیسر سہیل‘‘ کے ہاں ایسا جذ بہ نظر آ تا ہے جو اس کی ذات کی پشت پناہی منفی رجحان کے تحت کرتا ہے اور وہ ایک زنم میں مبتلا ہے اور اسے اپنی ذات کے سامنے کسی قسم کے جذبات و احساسات کی پرواہ نہیں ہے۔ یہ سب تبھی تک اس کی ذات کو تسکین دیتا ہے ۔ جب تک اس کی ذات اس کی ذات میں’’مطابقت کی طاقت‘‘ موجود ہوتی ہے مگر پھر اس کی ذات اپنے باطن مطالبات سے تھک کر انہیں رد یا قبول کرنے کی سطح پر پہنچتی ہے تو پھر اس کے شعور میں بسنے والاتصوف کی طرف رجحان اس موافق ماحول مہیا کر تا ہے اور یوں وہ اپنے اندر ثبت لچکداریت پیدا کرتا ہے ۔(ذات کا عرفان) ’’ آفتاب‘‘ قیوم کا روم میٹ ہے مگر رقیب بھی ہے ۔ یہاں گدھ والی حسرتیں کھل کر سامنے آتی ہیں کہ گدھ مردار کی نسبت زندہ کو اپنارقیب خیال کرتا ہے اور حسد محسوس کرنا اس کی فطرت اس وقت بھی ہے کہ جب دوسرے جانوروں کی طرح وہ زندہ کا شکار کر کے کھانے کی نہ تو ہمت رکھتا ہے اور نہ ہی شوق بوجہ بزدلی رکھتا ہے۔ یوں آفتاب جس مردہ میں زندگی کی نئی روح پھونکتا ہے اسی زندہ کو پھر سے شکار کر لیتا ہے پھر قیوم کے لیے اسے مردار کی
میں نچوڑ تا ہے ۔ ایک اور حقیقت یہاں مزید آ شکار ہوتی ہے کہ قیوم یمی سے ( جو ناول کی بظاہر ہیروئن بھی ہے ) آ فتاب کی موجودگی میں اظہار محبت کیوں نہیں کرتا۔اس کی کئی وجوہات ہوں گی مگر پہلی وجہ یہ کہ وہ آفتاب کے ساتھ زندہ ہے اور
( گدھ کی فطرت لیے ) قیوم، زندہ کی طرف رجوع نہیں کرسکتا کہ یہ رویہ اس کی طبیعت سے مطابقت نہیں رکھتا۔ دوسرے ابھی اسے ماحول موافق نہیں ملتا لہذا جب آفتاب الگ تا ہے تو قیوم کو فو را موافق ما حول مہیا ہو جا تا ہے اور یوں سیمی اور قیوم کی شخصیت میں ایک نوچنے کی بھی بھی بھی اجازت نہ دیتی۔ وہ عشق میں فنا تو ہوئی مگر سوچ مثبت نہ ہوسکی اور شعور پر منفی اثرات مرتب ہوتے چلے گئے ۔ عشق چونکہ مطابقت و موافقت کے فارمولے سے گزرتا ہوا شخصیت میں لچک پیدا کر جاتا ہے مگر یشق بالآ خراسے تصوف کی راہوں پہ نہ لا سکا اور وہ بالکل کمتر در دیوار ثابت ہوئی یہاں یہ چیز بھی انھی طرح سمجھ آ جاتی ہے کہ شخصیات کی مطابقت اور ان کے لیے موافق رویے، شخصیت کو روز بروز نکھارنے یا بگاڑنے میں کس قدر مدومعاون ہیں پھر قیوم کا سیمی سے رجوع نہ کرنے کا وعدہ کوئی ذات کا عرفان نہیں بلکہ اس کی ذات میں مطابقت و موافقت کامل مھم پڑ چکا ہے۔ تیمارداری کرنا بہر حال اس میں موجود ایک مثبت رویہ ہے جو اشرف المخلوقات ہونے کی بنا پر بھی ہوسکتا ہے اور لاشعور میں کہیں موجود بھی ہے۔ یہ لاشعور میں چھپی خواہشات کھل کر تجھی بیدار ہوتی ہیں جب شعور میں بے پناہ بگاڑ کی بناپر چور دروازے وا ہوجائیں اور انسان خود بھی راہ نجات چاہتاہو۔ سیمی کا کردار اس کی شخصیت کے عین مطابق ہے کہ خودکشی ، بزدلی ہے اور بزدلی اپر کلاس کے سنگین الیے کے طور پر بھی نظر آتی ہے۔ آفتاب کے حوالے سے بھی ۔ دوسری طرف’’ عابدہ‘‘ بھی عورت کا ایسا کردار نظر آتی ہے کہ جو قیوم کی کلاس اور مزاج سے مطابقت رکھتی ہے یعنی اس کی طرح ادھوری ہے ۔ ماحول بھی موافق ملامگر اس سے پہلے کہ ماحول مزید موافق فضا پیدا کر کے عابدہ کے کردار میں لچک لاتا۔ اس نے منفی ر قانات کو اپنی شعوری فکر کے بل بوتے پر کنکست دی اور یوں اپنے آپ کو مضبوط ثابت کیا۔ یہاں یہ بات بھی کھلتی ہے کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے یعنی جہاں داخلی روی خارجی حقیقت کو بدل سکتا ہے ۔ وہیں خارجی حقیقت بھی داخلیت پر اثر انداز ہو کر باطن کو مضبوط بناتی ہے۔(مثبت ہونے پر اس طرح اگر منفی حقیقتیں داخلیت پر اثر انداز ہو جائیں تو انسانی شخصیت کو سخ کر دیتی ہیں اور یہی صورت حال ہمیں’’عابدہ‘‘ کے کردار میں دیکھنے کوملتی ہیں کہ بہر حال باطن اپیل کرتے ہوۓ ظاہر کو سرخرو کرتا ہے۔ تیسرا کر دار عورت کا ابیا روپ ہے جوڈھکا چھپا ہوتو قابل احترام بھی ہے مگر ایک با قاعدہ شناخت لیے ہوۓ ہوتو داغ بن جاتا ہے ۔’اتل‘‘ طوائف ایک تجربہ کار اور کامیاب طوائف کے روپ میں سامنے آتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی معاملہ کچھ عجیب ہے کہ وہ اپنے پیشے میں ماہر ضرور ہے مگر اسے سدھرنے کے بھی کئی مواقع میسر آ تے ہیں ۔ دہ گنوا دیتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مثبت رجحانات اس کی شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتے یا یہ کہہ لیجئے کہ اس کی مطابقت بھی کچھ منفی رویوں سے ہے اور کچھ لوگ بھی’’گدھ ہائی‘‘ اور ماحول بھی منفی ملتا چلا جاتا ہے یوں اس کی شخصیت میں پیدا ہونے والی پک ثبت کی بجاۓ منفی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اب ایک سوال یہاں اجرتا ہے کہ مثبت مواقع ہاتھ آنے کے باوجود وہ نہیں سدھرتی تو اس کی وجہ صاف نظر آتی ہے کہ منفی ریحانات سے اس کا ذہن بد حال و در ماندہ ہو چکا ہوتا ہے اور وہ اپنی شخصی اقدار کو بحال بھی نہیں کر نا چاہتی سو اپنی شخصیت سے میل کھاتے موافق حالات میں وہ اپنی کھوئی ہوئی صلاحیتوں کو مزید ڈبوتی چلی جاتی ہے اور بالآ خر اس کا انجام قتل کی صورت میں سامنے آ تا ہے ۔ یہاں اس کر دار کی بھی حرام سے اس قدر مطابقت ہے کہ موت بھی اذیت ناک طریقے سے ہوئی اس کے اپنے الفاظ اس کی حرام سے مطابقت اور اس سے پیدا ہونے والی نتائج سے آشنا ہوتی ہیں۔ میرے جسم کات. ہرقطرہ حرام پر پلا ہے سر جی ۔ میں اس لہو سے اب کوئی حلال زادہ پیدانہیں کرسکتی ‘‘( ۴ ) وہ جانتی ہے کہ حرام سے مطابقت پیدا ہونے کے بعد حلال بھی موافق نہیں آ تا۔’’حرام کھانا ایک منفی رویہ ہے اور اس کے اثرات بڑے بھیا تک ثابت ہوتے ہیں کہ نسل درنسل منتقل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس لیے تو احل کو یہ بات بخوبی سمجھ میں آ گئی کہ حرام جب انسانی لہو میں پہنے گے تو بھی اس سے علال کا پودانہیں اگتا کہ ’’حرام و حلال‘ میں مطابقت بھی نہیں اور نہ ہی انہیں کسی موافق رویے سے یکجا کیا جاسکتا ہے اور ان دونوں کے مکسچر سے اگر پکداریت پیدا ہو جاۓ تو وہ شخصیت میں ایک ہیجان برپا کر کے اسے دنیا والوں کی نظروں میں دیوانہ ظاہر کرتی ہے۔ یعنی دیوانگی حلال و حرام کی عدم مطابقت کی صورت میں پیدادار ہے۔’’افراہیم‘‘ اس بے ربط مطابقت کی بناپر دیوانگی کی عمدہ مثال ہے۔ اس طرح جسم اور دل میں بھی ایک خاص قسم کی مطابقت ہے کیونکہ دل ہی جسمانی طمانیت کا باعث بنتا ہے ۔ یہ دل ہی ہے جو مطابقت پیدا کرتا ہے اور موافقت ملنے پر خوشی وقمی کے اظہار میں لچکدار یت کا موجب بلا ہے۔ ” یہ جسم اور دل بڑے بیری ہیں ایک دوسرے کے سر جی بسم روندا جاۓ تو دل کو بسنے نہیں دیتا۔ دل مٹھی بند رہے تو یہ جسم کی نگری تباہ کر دیتا ہے۔ ان دونوں کو بھی آ زادی نصیب نہیں ہوتی ۔ ( ۵ ) یعنی دونوں ایک دوسرے سے مطابقت کی بنا پر ایک دوسرے کی قید میں رہتے ہیں۔ مطابقت کا یہ سلسلہ نسل درنسل چلا آ رہا ہے ۔ حضرت آدم کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور یہ عادت مرد میں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی گئی۔’انسان اور سجدہ‘‘ انسان اور انسانی خواہشات کی تحمیل کا جذ بہ ان سب میں ایک سلسلۂ مطابقت چلا آ رہا ہے اور یہ صفت مردوں میں چلی آ رہی ہے کیونکہ عورت مرد کو موافق ماحول مہیا کر کے اس کی ذات کے تابع ہوجاتی ہے۔ ’’ بقول امتل ہر انسان کے اندر ایک چھوٹا سا رب چھپا ہوا ہے جو چاہتا ہے کہ زندگی میں اسے ایک سچا پہاری ایک صادق عہد اور ایک سر ہتھیلی پر رکھنے والا عاشق مل جاۓ ۔ جس وقت اللہ نے حضرت آدم میں اپنی روح پھونکی ۔ اس وقت سے یہ چوٹا خدا اس بات کا آرزومند ہوا۔ اسی لیے آدم کی خواہش کے احترام میں حضرت حوا وجود میں آئیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد حضرت آدم اللہ کے بچے عبد نہ رہے لیکن چھوٹا سا رب بنے کی تمنا ان کے ساتھ ہی زمین پر آئی ۔‘‘( ۶ ) بانو قدسیہ کے ناول میں دونوں رویے منفی و مثبت نبرد آزماہیں اور منفی رویے مطابقت + موافقت کی فضا میں خوب پنتے ہیں اور ناول کے کرداروں کی اس صورت میں قوت مدافعت کھل کر عیاں ہوتی ہے کہ منفی لچکداریت کے نتیجے میں خودغرضی کا رجحان اور پھر ساتھ ساتھ مثبت رویہ ہے جو بقاۓ نفس کا جذ بہ لیے ہوۓ ہے۔ ’’روشن‘‘ عورت کا ایسا کردار ہے کہ جس میں خود غرضی بھی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بقاۓ نفس کا جذ بہ بھی کارفرما ہے کہ اسے جسمانی افادہ نفس کا بھی احساس ہے جو اس میں پلنے والی روح کے آئندہ کے انتظام کے علاوہ اپنے روحانی افادہ نفس کو بھی کارفرما رکھتی ہے کہ بہرحال اسے روح کا ہنمیر کا اطمینان بھی عزیز ہے۔ جسے جسمانی طور پر ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کا کر دار اجتماعی افادہ نفس کی بھی بھر پور عکاسی کرتا ہے کہ اس کی محبت ومودت بہر حال’افتخار‘ ہے کہ قیوم اور اجتماعی افادیت کا پہلو اس میں یہی نظر آ تا ہے کہ محبت اس سے حاصل کرنا اس کاحق ہے جو اس کے جسم سے محبت کرتا کرا اس کی روح میں بس گیا ہے اور قیوم کو دھو کے میں نہ رکھنا یہ بھی محبت کا اصول ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ۔ وجود میں پلنے والی روح کی تسکین بھی ضروری ہے ۔اس طرح سے اس کی شخصیت میں پائی جانے والی لچک ثبت رجحان ثابت ہوا سو وہ ایک اخلاقی درس لیے ہوئی ہوتی ہے کہ ذات کے عرفان میں ہی وجود کو قائم رکھنے کاراز پنہاں ہے۔ آخر میں قیوم کا پروفیسر سہیل کے ساتھ تصوف کی راہوں پہ کل جانا اس بات کاثبوت ہے کہ بہرحال یہی انسانی ذات کی نجات کا ذریعہ بھی ہے ۔ اصل میں ہم نفسیاتی الجھنوں کو خود پر حاوی کر کے تاریکی میں ہاتھ پاؤ تو مار رہے ہیں مگر صورت حال کے پیش نظر مطابقت و موافقت پیدا کرنے سے قاصر ہیں یوں شخصیت میں کسی قسم کی لچکداریت نہ ہونے کے باعث انسانی سوچ مردہ ہو جاتی ہے پھر یہی لمحہ یا تو شعور کی ہستی کو جلا بخشا ہے یا پھر انسانی ذات کو توڑ پھوڑ کر مستقل منفی رجحانات کی طرف ڈھال دیتا ہے ۔’راجہ گدھ‘ کے تمام کر دار اس صورت حال کو پیش کر نے نظر آتے ہیں۔ بانو قدسیہ کے ناول کے کرداروں کا جائزہ لینے کے بعد یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ذات کا عرفان ہی اصل میں انسانی وجودکو قائم رکھنے اور اس کی زندگی میں ایک مثبت ظہر اؤ لانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ اس کے ناول کے کرداروں (مرد وعورت کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں بے شار آلام ومصائب کا شکار ہو جا تا ہے۔ خوف و ہراس میں مبتلا ہوتا ہے مگر پھر بھی انسان بے بس نہیں ہوتا وہ اپنے فیصلوں میں آ زاد ہوتا ہے اور ان تمام رویوں سے منفی یامثبت اثر اپنی ذات کی مطابقت اور مزاج کی موافقت کے مطابق قبول کرتا ہے اور یوں نفس کا غلام ہوکر اپنی ذات میں منفی لچک پیدا کر لیتا ہے۔ انسان خارجیت کو اگر اپنی داخلیت پر حاوی نہ ہونے دے اور ذات کا عرفان حاصل کرے تو یہی اس کے لیے ذریعہ نجات حاصل کرنے اور اپنے وجود کو ایک کائنات بنانے کا ذریعہ بنتا ہے ۔انسانی ذات جب افراتفری ، انحطاط وزوال جیسے عوامل کا شکار ہوتی ہے تو پھر یا تو خارجی دنیامیں اپنے لیے مطابقت و موافقت تلاش کرتی ہے یا ان سب اشیاء کا ادراک حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کے شعور کی ہستی کو بدل کر شخصیت میں ثبت لچک پیدا کر یں۔
حاصل حسن وعشق بس ہے یہی
آدمی آدمی کو پہچانے