رشید حسن خان کا تحقیق نگاری
عالمی سطح پر اردو تحقیق کی حیثیت تا حال قابل بحث ہے۔ اس لیے کہ ہمارے ہاں تحقیق کا تصور ایک تنقیدی عمل سے کچھ زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ اردو دنیا میں بلاشبہ کچھ علماً کرام ضرور ایسے موجود ہیں جنہوں نے واقعتا اردوتحقیق میں عالمی معیارات تحقیق کو مدنظر رکھا اور نہاہا ہے مگر ایسے ناموں کی فہرست بہت طویل نہیں ہے ۔خود تنقید میں کچھ اصحاب کبار نے معروضی انداز اختیار کیا تو انہیں ہرارتم کے طعن تشنیع سے واسطہ پڑا مثلا کلیم الدین احمد کے تجزیوں پر ہمارے وضع دارمشرقی مزاجوں نے کیا کچھ نہیں کیا۔ لیکن اگر ہم نے اردوتحقیق کو دنیا میں تعلیم کر دانا ہے تو ہمیں پہر حال اس روایتی سوچ اور وضع دارانہ رویے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ سب جانتے ہیں کہ تحقیق نئے حقائق کی دریافت کا نام ہے ۔ایسے طر ز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کو مسلمات کی روشنی میں پرکھا جا تا ہے۔ ہرتم کی راحت قربان کر کے کتابوں اور مخطوطوں کے ورق الٹنے ہوتے ہیں ۔ کچھ تاج تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ نتائج تصد یقی بھی ہو سکتے ہیں اور تر دیدی بھی مگر ان کا توسیعی ہونا بنیادی شرط ہے۔ اگر تحقیق نے موجودعلم میں اضافہ نہیں کیا تو اسے کچھ اور کہا جانا چاہیے ۔ ہمارے ہاں اردو زبان ہی کو نہیں بلکہ ادب کی تاریخ کو بھی ، ابھی تک کسی جالبی کی ضرورت ہے جو ساری چیزوں کو ڈھونڈ ھ نکالے ۔خود دیکھے، تجزیہ کرے۔ خواہ محبت سے ہی سہی ، اور زمانے کے سامنے لارکھے۔ کیونکہ ہماری ادبی تاریخ میں ابھی تک بڑے بڑے خلا موجود ہیں اور ہمارے کلاسیکی ادب کا ایک اہم حصہ تا حال تدوین کا فتظر ہے لیکن مذری ضرورتوں نے ہمیشہ اردو تحقیق کو ملازمتی تقاضوں کا ہی اسیر بنائے رکھا اور ہمارے ہاں بڑی بڑی تحقیق کی ڈگر یاں محض اس مفرومنے پر جاری کر دی جاتی ہیں کہ حقق نے کئی سال اپنے موضوع کو دے دیے اور کچھ نہ کچھ اس پر لکھ کر ایک کتاب بنا ہی دی ہے ۔ کیا اس طرح کی ڈگریوں کی بنا پر اردو تحقیق کو اعتبارفراہم کیا جاسکتا ہے؟ رشید حسن خاں ایک ایسے محقق ہیں جنہوں نے گی لپٹی رکھے بغیر اردوتحقیق کو واقعی کھرا کھوٹا الگ کر نے کامل بنادیا ہے اور معروضی انداز کی روشن مثال قائم کر کے اردو تحقیق کو حقیقی منصب تک لا نے میں اپنا کردار ادا کیا ہے ۔ ادنیاۓ تحقیق میں خان صاحب کا نام قاضی عبدالودود کے ساتھ لیا جاتا ہے جنغلطی ہاۓ مضامین پر روائتوں کا پردہ نہیں ڈالتے ۔ وہ تاریخ ادب کے تسامحات کو بھر پور اخلاقی جرات سے آشکار کر تے ہیں اور معیار تحقیق کو بھرم عطا کرتے ہیں۔
ع حذراے پردگیاں پردہ درے پیدا شد
رشید حسن خان اردو ادب کا پیراڈاکس ہیں ۔ ان سے سب مرعوب ہیں ۔ ان کا ایک ہوا ہے کہ وہ بڑے جید عالم ہیں ۔ ایسی مثالیں مذاہب کے حوالے تو موجود ہیں مگر زبانوں میں . اور ادب میں، خاص طور پر اردو ادب میں، یہ منفرد پوزیشن ہے ۔ اور یہ پیراڈاکس اس طرح ہے کہ رشید حسن خاں، کسی عالم فاضل خاندانی پس منظر کی وجہ سے علمی وجاہت کے مالک نہیں ہے ۔حتی کہ ادبی عالموں پر.سکتہ طاری کر دینے والے رشیدحسن خان، دری سندات کی بنا پر بھی رعب و دبد بہ قائم نہیں کرتے ۔ وہ پڑھے ضرور مگر کہاں اور کتا؟؟؟ ان کے کوائف میں 1939 ء میں شاہ جہان پور کے مدرسے میں تعلیم کا ذکر تو مل جا تا ہے ۔ باقی ہیں انشاءاللہ ان کے متقین تا پائیں گے۔۔۔ امیر حسن خاں کے گھر پیدا ہوۓ ۔ یہ کوئی ۔ پدرم سلطان بود والا خاندان بھی نہیں، انہیں بہت ابتدا ہی میں ملازمت کی ضرورت پڑی اور انہوں نے آرڈ نینس فیکٹری سے سلسلہ روز گار شروع کیا جس کے بارے میں یہ ڈینگ بھی نہیں ہاکی جاسکتی کہ وہ اپنے مزاج ور جان کی وجہ سے اس پیشے میں آۓ۔ ہاں! ان کی دوسری ملازمت ان کے مستقبل اور میدان کی طرف ضرور اشارہ کر سکتی ہے ۔ کہ نہیں مدارس‘‘ فیض الاسلام‘ میں چھوٹے بچوں کو پڑھانے کا کام ملا۔ اور وہ آج منوں مٹی تلے بھی بڑوں بڑوں کی املا درست کر رہے ہیں ۔ اردولکھنا، سکھا رہے ہیں ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یٹس کو میدان نہیں بناتے بلکہ میدانوں کی اہمیت یہ نابغہ ء ہاۓ روزگا بناتے ہیں ۔ ملازمت کا ذکر ہوا تو اس سلسلے میں یہ کہنا بھی بے جانہیں ہوگا کہ یہ جو ایک طر ز زمانہ بنی ہے کہ اگر کسی کے پاس عہدہ اچھا ہے تو وہ پھر سارے زمانے کا بڑا اور مسلمہ دانش ور قرار پا جا تا ہے ۔ بقول برلاس صاحب کے : بس اب تو سارے تعلقات کا ہے انحصار یہی کسی کی ذات سے ہم کو مفاد کتا ہے پچر وہ صاحب عقل کل ہوتا ہے، اس کا فرمایا ہوا حرف آخر ہوتا ہے ۔ کم از کم اس عہد ے کے وجود تک تو یہ تاثر قابل بحث تک نہیں ہوتا۔اس پر طرہ یہ کہ کسی طرح کسی بھی سیڑھی سے اگر کسی علمی یا ادبی منصب میئر تو پھر بات کہنے کی نہیں۔ لیکن رشید حسن خان کو تو، اس مدرسے کے بچے پڑھانے پر بھی ، سو طرح کی ہرزہ سرائی کا سامنا رہا ، حتی کہ یہ سب سے چوٹے بچے پڑھانے کی خصوصی ذمہ داری بھی یار لوگوں نے خاص طور ان کی حیثیت کم کروانے کے لیے طے کروائی تھی ، مگر وہی پیراڈاکس ! کہ آج ان کا بچوں کے لیے کہا گیا، کس قدر معتبر ہے ؟ کہ’زبان وقواعد‘انشا اور تنظ‘‘ اردو کیسے لکھیں‘ ’’عبارت کیے لکھیں‘‘ اور املا کے بارے میں منعقدہ سیمی ناروں میں رشید حسن کے مباحث کا باریک ہیں اور غائر مطالعہ کے بغیر کس کا کا م چلتا ہے ۔ کوئی حرف ، لفظ یا جملہ کہاں اور کس کی سند سے فیصل ہو تا ہے۔ یقینا اس سلسلے کے ’’علم‘‘ رشید حسن خاں ہی ہیں ۔ خان صاحب دیلی یو نیورسٹی آئے تو کوئی شیخ الجامع کی حیثیت سے نہیں آۓ کہ ان کی خوشنودی سے لوگوں کے مستقبل جڑے تھے ۔ وہ محض ایک ریسرچ اسٹنٹ کی حیثیت سے آۓ ۔لیکن یہ بھی عجب قصہ ہے کہ محض ایک مدرسے میں پڑھا ہوا، مچھوٹی جماعتوں کو پڑھانے والا جامعہ دہلی میں، معاون تحقیق ہی سہی ، کیسے بن گیا ؟؟؟ وجہ وہی ہے جس نے خان صاحب کو مد ری میں نشانہ ء اعتراض بنوایا تھا۔ ان کے رفقا کار کا خیال ہی نہیں مضبوط راۓ تھی کہ خاں صاحب ملحد ہیں ۔ در اصل بات یہ تھی کہ خاں صاحب نجس ذہن کے آدمی اور پھر جرات فکر وخیال تک ہی محدود نہیں تھے۔ جرأت بیاں بھی ان کا ہمیشہ سے خاصا رہا اور وہ گی لپٹی کے فطرتا قائل ہی نہیں تھے ۔سو مدرسے کے اسا تذہ کرام انہیں کیسے برداشت کر تے ؟؟ آج مدر سے کو ہی تو روشن خیالی سکھانی پڑ رہی ہے۔ انہی دنوں خان صاحب کے مضامین میے اور ان مسائل پر چیے جو اس وقت انہیں درس و تدریس زبان کے حوالے سے درپیش تھے جس پر نہ صرف انہوں نے سوچا بلکہ اس روشنی کو زمانے کے سامنے، اس طرح رکھا کہ آج بھی ان کی افادیت میں کسی بھی طور کمی نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ سو ان تحریروں نے خاں صاحب کو مدر سے سے یو نیورسٹی پہنچا دیا۔
رشید حسن خاں کا اردو تحقیق میں خاص میدان تدوین متن ہے ۔’’باغ و بہار‘ ۱۹۰۴ ء سے شائع ہونا شروع ہوئی ہے ۔ اس سے پہلے بھی ، اس کی دو روائتیں ملتی ہیں مگر اس کی ترتیب و تد دین جس طرح رشید حسن خان نے کی ۔ وہ جدا انداز کی حامل ہے ۔انہوں نے جدید اصولوں کی روشنی میں تو صیف نگاری کا اہتمام رکھا،لفظوں پر اعراب لگاۓ اور تین سو سے زائد صفحات پرمشتمل حواشی لکھے۔ان میں املا، تلفظ اور دوسرے مسائل پرمفصل منگو کی گئی ہے۔ اسی طرح ’’فسانہ عجائب‘‘ کا سات ،قدیم نسخوں کے تجزیاتی وتقابلی مطالعے سے متن مرتب کیا گیا ہے جس کے ساتھ فرہنگ و حواشی بھی دیے گئے ہیں۔ اس کام کے بارے میں گیان چند نے کہا : واقعی میای مکمل تدوینیں ہیں کہ ان سے آگے سوچا بھی نہیں جا سکتا‘‘( ۱ ) شعری کلیات کے حوالے سے خاں صاحب کے مرتب کردہ ’’ انتخاب ناسخ ‘‘ اور انتخاب سودا‘اردو تدوین کے مسافروں کے لیے سنگ میل ہیں ۔ پہلی بار’’انتخاب ناسخ ‘‘ کے طویل مقدمے میں اصلاح زبان کے حوالے سے ناسخ کے حقیقی کردار کی تفہیم کی گئی اور کلیات ناسخ ‘‘ میں رشک ، شاگر د ناسخ کی تحریفات کا پردہ چاک کیا گیا۔’انتخاب سودا‘‘ سودا کی زندگی میں رچرڈ جانسن کے لیے مرتب کردہ نسخہ کی بنیاد پر ترتیب دیا گیا ہے۔ یوں ایک بڑی کلاسیکی شعری روایت کو نئی زندگی میسر آئی ہے ۔ شعری انتخابات میں شبلی ، نظیر اکبر آبادی ، انیس اور دبیر پر ان کا کام اردو ادب کی خوش بختی ہے ۔مشنویات کے حوالے سے بھی ، خاں صاحب کی کاوشیں گلزاریم ،،’’ سحرالبیان، اور’مثنویات شوق‘‘ کی تدوین کو استنادمیسر ہے ۔ان کے آخری کاموں میں’گنجیہ معنی کا طلسم‘‘ غالبیات کے حوالے سے زبان کے مسائل ، خاص طور پر خاں صاحب کے زیر نظر ر ہے اور اس میدان میں ان کے منطقی طرز کے بنیادی فیصلے اردو دنیا پر احسان عظیم قرار دیے جانے کے حق دار ہیں ۔ انہوں اردو زبان کو حقیقی اور سیح شکل وصورت میں زندہ رکھنے کی کامیاب جستجو کی ہے اور آنے والے زمانوں کے نہایت دقیق لسانی مسائل پر واضح اور قطعی نقطہ نظر اعتیار کر کے اردو ادب کو بہت سی مشکلات سے محفوظ کر دیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کی کتب’’اردوالا‘ ’’اردو کیسے لکھیں‘ اور’’زبان اور قواعد‘‘اردو زبان کے آئین کا درجہ رکھتی ہیں ۔ جن میں صحت املا ،اور اردو املا کے مسائل پر بحث کی تفصیل ہے ۔املا کے قواعد دیے گئے ہیں ۔ ضروری الفاظ کی فہرست ہے۔ اس میں خاں صاحب نے اردو زبان کے ہیتی ارتقائی سفر کی کہانی واضح کی ہے کہ کس طرح، ایک آزاد اور خود مختار زبان کی حیثیت سے اردو نے فارسی اور عر بی لفظوں کو تلفظ اور بناوٹ کے لحاظ سے اپنے سانچوں میں ڈھالا ہے؟ متعلقات تحقیق‘‘ میں مبادیات تدوین وتحقیق بیان کر کے آنے والے محقین کو روشنی دی گئی ہے اور اس راہ کے اہم مسائل کا جائزہ لیا گیا ہے ‘‘ سحرالبیان‘‘ پر ان کا کام دنیاۓ اردو تحقیق میں اہمیت کا حامل ہے لیکن’’اولی تحقیق مسائل وتجز یہ‘‘ ان کی نمائندہ کتاب ہے، جس میں رشید حسن خان کی تحقیقی شخصیت تحمیل پالیتی ہے۔ اس کتاب میں اس دور کے ایک زندہ اردو حقق اور ادبی مؤرخ کے جاری کام کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ ظاہر ہے یہ نہایت مشکل مرحلہ ہے اور رشید حسن کے پچ کا کڑا امتحان بھی ، اور میں سمجھتا ہوں رشید حسن ہی نہیں خود اردو تحقیق کے لیے بھی یہ پل صراط سے کم مشکل مقام نہ تھا، یہ اس میدان کی معروضیت، غیر جانب داری، بے تعصبی ، جرات اور بے باکی کا امتحان ہی نہیں تھا زندگی و موت کی جنگ تھی ۔ کیونکہ اس میں زیر بحث کتاب ایک ایسے صاحب نظر ہتین ،ادب شناس ادیب کی تحقیق تھی ، جواردو تحقیق کی آبرو ہے۔ اردو زبان و ادب اس کا ممنون کرم ہے۔ایسے کام کا تجز یہ تعلیل اور وہ بھی ایسے توازن کے ساتھ کہ تمام احترامات کے باوجود تمام پہلوؤں کو ریشہ ریشہ اور رواں رواں زیر بحث لایا گیا، رشید حسن خاں ہی کانہیں بلکہ اردو تحقیق کا قد بھی بہت بلند کر دیا ہے اور میرا وہ بنیادی سوال جس کی وجہ سے یہ ترے ناگزری ہوئی تھی اپنے خوبصورت اور قابل فخر مل تک پہنچتا ہے کہ اردو ادب کی تحقیق واقعی اپنے ہونے پر بلکہ اپنی زندگی سے بھر پور وجود پر نازاں ہوسکتی ہے اور میں اپنی کلاس میں بیٹھے ہوۓ اردوتحقیق کے مسافروں سے پریقین بلند لہجے میں کہہ سکتا ہوں کہ اردوتحقیق ایک وجود رکھتی ہے اور ہمیں اسے نہیں راہوں پر چلا تا اور آگے بڑھانا ہے تا کہ اردو تحقیق کوعلمی معیارات سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی جرات مل سکے ۔ جو ہری کا دم غنیمت ہوتا ہے اس کے ہوتے ہوۓ اصلی جو ہرکو ہی حقیقی مرتبہ میسر ہوتا ہے اورنعتی شیشے بازار میں مقابل نہیں آتے ۔’علی گڑھ تاریخ ادب اردو‘‘ خاں صاحب کے اعتراضات کی بنا پر واپس لے لی گئی ۔مگر جالبی کی ’’ تاریخ اردوادب‘‘ پرمضمون کے آغاز میں رشید حسن خاں لکھتے ہیں : جمیل جالبی کی مرتب کی ہوئی یہ تاریخ ، فرد واحد کی کوشش کا نتیجہ ہے۔۔۔مؤلف نے محنت کی ہے‘‘( ۲ ) انہوں نے جمیل جالبی کے تنقیدی شعور کی تعریف کی اور صوفیا کرام کے آثار اور دکنی مخطوطات سے استفادہ کوسراہا۔لیکن انہوں نے جالبی صاحب کے طرز اندارج وشرط حوالہ پر تولد زبان کے حوالے سے صلح گل کی پالیسی پر اعتراضات کیے۔ راقم نے خاں صاحب کی زندگی میں ان کے اعتراضات کا جواب لکھا تھا مگر افسوس کہ وہ ان کی زندگی میں شائع نہ بوا( ۳ ) اب خاں صاحب اردو تحقیق کو موجودنہیں ، پر ان کا کیا کام ایسا منارہ نور ہے جو سکندریہ کے ساحل پر ایستادہ بھٹکے ہوؤں کو راہ راست کی طرف بلاتا رہے گا۔ رشید حسن خاں نے قدیم متون کو مد وی اصول کی شرائط کے مطابق مرتب کیا اور تحقیقی تقاضوں کے تحت حواشی ، مقد مہ منی زمانہ، تصنیف و مصنف کے عہد کے متعلق ضروری معلومات ، داخلی شواہد کا تعین جیسے اہم امور کولحوظ رکھا ۔ مد دین وحقیق کا فرق یوں بتاتے ہیں : " حقائق کی باز یافت ،صداقت کی تلاش، حقائق کا تعین اور ان سے نتائج کا استخراج ادبی تحقیق کا مقصود ہے یا ہونا چا ہیے ۔ تدوین یعنی متن کی تصیح وترتیب ، اس سے الگ چیز ہے جس کے اپنے مسائل و مطالبات ہیں تحقیق اور تدوین بجاۓ خود دو مستقل موضوع ہیں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دونوں کی حد میں کہیں کہیں مل جاتی ہیں ۔ تحقیق کا لفظ ان دونوں پر حادی سمجھا جاتا ہے مگر یہ اچھا خاصا خلط مبحث ہے‘‘( ۴ ) تدوین کی کی اہمیت کے متعلق لکھتے ہیں: تدوین تحقیق سے آگے کی منزل ہے‘‘ ( ۵ ) رشید حسن خان تحقیقی و تدویی کام کو پورے انہاک ، یک سوئی اور مکمل ذمہ داری سے کرتے ہیں اور ہنگامہ آلود زندگی تحقیق کے منافی سمجھتے ہیں ۔ وہ منطقی طور پر استخراج نتائج کے قائل ہیں اور معتبر حوالے کے بغیر کچھ بھی قابل قبول نہیں سمجھتے ۔ خارجی حقائق کے علاوہ والی عوامل کی تحقیق میں بھی گہری دلچسپی رکھتے ہیں ۔ان کا اسلوب خالصتا تحقیقی ہے ۔اس میں سنجیدگی نہ تو بہت زیادہ ہوتی ہے اور نہ ہی دل چسپی کا عنصر بہت زیادہ ۔ جب وہ کسی دوسرے لق کے کام پر تصر و کر تے ہیں تو ان کے ہاں طنر نمایاں ہوتا ہے لیکن جہاں تحقیقی تیز یہ ہو وہاں طئر یہ انداز بالکل نہیں اپناتے ۔ رشید حسن خاں کے نزدیک ادبی تحقیق سائنس کی طرح۔ غیر اطلاقی و تصوری ہوتی ہے ۔ اس کا طریقہ بیش تر تاریخی اور کم تر تجزیاتی ہوتا ہے ( ۲ ) خاں صاحب کی سخت گیری کا سب سے بڑا فائد و واثر یہ ہوا کہ شخصیت پرستی کا اثر ٹوٹا اورٹس کی بجاۓ کام و یکھنے کی روایت شروع ہوئی ۔انہوں نے تحقیق میں اصول پسندی کو رواج و یا اور ریاضت کوار و تحقیق کا آئین بنایا۔ یوں ایک مستقل مزاج اور حوصلہ مند ار وتق کی حیثیت سے مستند مقام پایا۔
حوالہ جات
رشید حسن خاں ، او بی تحقیق مسائل و تجزیہ، افیل لاہور ، ۱۹۷۹ ص ۲۸۹ راقم جمیل جالی کا تحقیقی طریقہ ء کار تخلیقی ادب، NUML ، اسلام آباد ،شار گیان چند تحقیق کا فن طبع دوم ، مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، ۲۰۰۲ ء،ص ۱۰۵ و ۲۰۰۲ ء د. ايضا، ايضاء رشید حسن خاں ، او بی تحقیق مسائل و تجز یہ ص ۲۸۹ ص ۷۹ ۔ رشید حسن خاں ، متعلقات تحقیق ، ساہتیہ اکیڈی ، دیلی ، ۱۹۹۴ ، ۵۲