اردو نثر کی اصناف
اردو اصناف نثر کامختصر تعارف
اردو نثر کی اصناف، نثر ایک ذر ایک ذریعہ ترسیل ہی نہیں بلکہ ادبی اور مصنفی حیثیت بھی رکھتی ہے صنفی اعتبار سے نثر کے کچھ اصول وضوابط بھی ہیں جن کے پیش نظر نثر نگاراپنے تجربات ، مشاہدات اور افکار وخیالات کی ترسیل کر تا ہے ۔ شاعری میں اختصار ہوتا ہے جبکہ نئ توی اظہار کے لیے مشہور ہے ۔شاعری کے دوش بہ دوش نثر نے ہر خاص و عام کو متاثر کیا اور اہل علم وفن نے اپنے علمی وادبی سرماۓ کو نثری ادبی اسلوب میں پیش کیا ہے۔
اصناف نثر
نثر اصل میں ایک عربی لفظ ہے جس کے لغوی معنی کھیر نے یا چٹر کنے کے ہوتے ہیں لیکن اصطلاح میں کلام غیر موزوں کونٹر کہتے ہیں ۔ نثر میں نظم کی طرح الفاظ ختم نہیں بلکہ منتشر ہوتے ہیں ۔ نثری تحریر میں پھیلاؤ بھراؤ اورتفصیل ہوتی ہے یعنی نثر میں الفاظ کو جملوں اور جملوں کو عبارتوں میں پروۓ ہوۓ موتیوں کی مانند سلسلے وار تم کیا جا تا ہے ۔ زبان و ادب میں افسانوی اور غیر افسانوی نیئر ستعمل ہے ۔ اس کی تعریف تفصیل پنچے دی جارہی ہے ۔
افسانوی نثر
افسانوی نثر میں رومانی فضا ،ڈرامائی عصر اورافسانوی روح حاوی ہوتی ہے جو نہ صرف قاری کے ذہن وفکر کومتاثر کرتی ہے بلکہ اس کے ذوق جمال و جذباتی کیفیتوں کو بھی مہمیز کرتی ہے ۔ افسانوی نثر میں ناراست زبان کا استعمال کیا جا تا ہے ۔ ناراست زبان سے مراد یہاں تمثیلی انداز ، علامتی اسلوب اور استعاراتی زبان ہے جو افسانوی نژ کودکشی خوبصورتی عطا کرتی ہے ۔ بسا اوقات کسی واقعہ یا شے کا راست بیان مشکل و نا گوار ثابت ہوسکتا ہے لیکن جب یہی بیان کہانی کے انداز تخلیقی فضا اور فنکارانہ اسلوب و تکنیک میں سامنے آ تا ہے تو تا گوارنہیں بلکہ خوشگوار لگتا ہے ۔ افسانوی نثر میں اسلوب کی رتینی وکشش ہوتی ہے۔ یہ رگینی و چاشنی کہانی میں زور حسن اور لطافت پیدا کرتی ہے ۔ قاری اس رنکینی عبارت میں گم ہوتا چلا جا تا ہے۔ واس تلین بیانی سے لطف اندوز ہوتا ہے اور ساتھ ہی اس کا ذہن و دماغ پڑھ سوچنے پر آمادہ بھی ہوتا ہے۔ افسانوی نثر کا اطلاق جن اصناف پر ہوتا ہے واصناف در جہ ذیل ہیں۔
داستان
داستان خیالی واقعات پر مبنی رومانی کہانی کو کہتے ہیں ۔ داستانوں میں جن و پری طلسم و سحر کے کارنامے اور عجیب وغریب واقعات ہوتے ہیں جو پڑھنے اور سننے والے کے لیے فرحت ومسرت کا سامان فراہم کر تے ہیں ۔ داستانیں ماضی کی روایت رہی ہیں۔ ان کے ذریعے ہونے والے اسانی ،او بی اور اسلوبیاتی تجربوں نے زبان و ادب کو نوع بہ نوع معیار وانداز سے آشنا کیا ہے ۔ داستان میں واقعات کا الجھا ویچیدگی ، بیان کی طوالت ، پلات کی بے ترتیبی اور کرداروں کی کثرت ہوتی ہے جواس کے حسن کو مجروح نہیں بلکہ دوبالا کرتی ہے ۔ قاری نے الفاظ اوران کے بڑٹل استعمال سے واقف ہوتا ہے ۔ ان الفاظ ومحاوروں میں مافوق الفطرت عناصر کی کا رفرمائی ، ماوارائی طاقتوں کے کارناے اورحسن وعشق کی کہانیاں بڑی خولی سے پیش ہوتی ہیں مختلف مناظر قصہ میں ایک خاص کیفیت پیدا کر تے ہیں ۔ تجس وجستجو داستان کا اہم وصف ہے ۔ داستان میں واقعات درواقعات کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ مخاطب ان پیچیدہ واقعات ، رنگا رنگ مناظر اور حیرت انگیز کر داروں سے پوری توجہ کے ساتھ وابستہ رہتا ہے ۔منظم تر تیب اور پلاٹ نہ ہونے کے باوجود قاری کی دپی برقرار رہتی ہے۔ سامعین و قارئین قصے یا داستان کے انجام تک پہنچنے کے لیے بے قرار رہتے ہیں ۔موجودہ دور میں یہ داستانیں ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں تاہم ان کی ادبی، تہذیبی اور لسانی اہمیت سے انکارممکن نہیں ۔ داستان ناول ،افسانہ اور ڈرامے سے مختلف ہے تخیل کی بلندی داستان میں معنوی حسن اورفنی لطافت پیدا کرتی ہے ۔ داستان کی فنی حیثیت کے متعلق کلیم الدین احمد لکھتے ہیں۔ کہ
’’داستان کہانی کی طویل، پیچیدہ، بھاری بھر کم صورت ہے ۔لیکن اپنی طوالت پیچیدگی بوجھل پن کے باوجود بھی کہانی سے بنیادی طور پر مختلف نہیں. یہ بھی دل بہلانے کی ایک صورت ہے ۔ داستان گوئی ایک دلچسپ مشغلہ ہونے کے ساتھ فنی حیثیت بھی رکھتی ہے اور ہرکس وناکس داستان گو ہیں ہوسکتاتھا ۔‘‘ ( ۴ ) داستان امیر حمزہ ،نواب مرزا امان علی خاں لکھنوی ۔ باغ و بہار، میر امن دہلوی ۔ آرائش محفل، حیدر بخش حیدری فسانہ عجائب رجب علی بیگ سرور وغیر دار دوگی مشہور داستانیں ہیں ۔
ناول۔
ناول انگریزی لفظ Novel سے ماخوذ ہے جس کے معنی انو کھا اور عجیب وغریب کے ہوتے ہیں ۔ ناول در اصل زندگی کی تصویرکشی کافن ہے۔ اس میں کسی فکر واحساس اور زندگی کی حقیقتوں کو کش انداز میں پیش کیا جا تا ہے۔ رومانی عنصر، ناول میں جذب کشش کا احساس دلا تا ہے اور مناسب تراکیب دالفاظ انو کھے پن کی کیفیت پیدا کرتے ہیں ۔ ناول کے موضوعات کا دائرہ وسیع ہے ۔ اس میں فردوساج کی شمش اور جذبات و احساسات کی بھر پور عکاسی کی جاتی ہے۔ زندگی کے طویل واقعات ناول میں بڑی آسانی سے سما جاتے ہیں ۔ واقعات کے تفصیلی بیان میں عہد و ماحول اور تہذیب و معاشرت کی جنگ بھی ہوتی ہے ۔ ناول میں کردار کے ہر پہلو پر باتفصیل روشنی ڈالی جاتی ہے جہاں کہانی کے واقعات اور کرداروں کی تفصیلات خو بصورت انداز میں فنی عناصر میں ڈھلتی ہیں ۔ یہ عناصر ناول میں لطافت کی فضا قائم کرتے ہیں اور قاری کی توجہ گو گرفت میں لیے رہتے ہیں ۔ پڑھنے والا ناول کی ہرعبارت وسطر میں زندگی کے تضادات اورشمکش حیات کو بہر حال محسوس کر تا ہے۔ پلاٹ، کردار نگاری ، منظر نگاری ، جز نیات نگاری اور مکالمہ نگاری وغیر ہ ناول کے بنیادی عناصر ہیں ۔ گو یا یا یسے عناصر ہیں جن بڑی خوبصورتی سے ڈھل جاتی ہیں ۔ گو یا واقعات زندگی کہانی میں اس سلیقے سے پیش ہوتے ہیں کہ قاری کوسی شنلی کا احساس نہیں ہوتا فکر و خیال کی عکاسی اور جذبات کی ترجمانی نئی تکنیک و اسالیب کے ذریعے کی جاتی ہے جس سے زبان وادب میں اضافہ ہوتا ہے ۔ لہذا ان کی اہمیت سے انکا ممکن نہیں ۔
غیر افسانوی نثر
نثر کا اطلاق کسی بھی تحریر پر کیا جا سکتا ہے۔خواہ میتھر یہ خط کی شکل میں ہو یا کسی دستاویز کی شکل میں لیکن مطالعہ ادب میں افسانوی نثر اورغیر افسانوی نثر ایک دوسرے سے مختلف ہے ۔ غیر افسانوی نثر میں حقیقی مادی اور فلسفیانہ مباحث پیش کیے جاتے ہیں ۔مسائل وحقائق کے ساتھ سابی وسیاسی امور، سائنسی علوم اور اقتصادی موضوعات بڑی خوبی سے پیش ہوتے ہیں ۔ غیر افسانوی نثر میں او بی گلربی کارفرما ہوتی ہے جواس میں سلاست و دکشی پیدا کرتی ہے ۔ غیر افسانوی نثر میں راست زبان کا استعمال کیا جا تا ہے ۔ راست زبان سے مراد یہاں فکر وخیال کا براہ راست اظہار ہے جہاں نثر نگار استعاراتی و علامتی اسلوب کے بجاۓ منطقی اورتونی انداز اختیار کرتا ہے منطقی اظہار میں موجود ادبی عناصر صرف ذہن ودماغ پر اثر انداز ہی نہیں ہوتے بلکہ علم ومعلومات میں اضافے کا باعث بھی ہوتے ہیں ۔ دلائل وحوالے عبارت کے ابہام والجھ ڈاور شک وشبہات کو دور کر تے ہیں ۔ خیال کی وضاحت اسے جامع اور پر عن بناتی ہے۔ یہاں تکی بیان کے بجاۓ تجز یہ سے کام لیا جا تا ہے ۔فلسفہ، ریاضی منطق مذہبی علوم اور جغرافیائی مطالعے کی باریکیاں بڑی احتیاط کے ساتھ تحقیقی و شریکی انداز میں پیش کی جاتی ہیں ۔غیر افسانوی نثر کا دائر نہایت وسیع ہے ۔ موضوع کی مناسبت اورانداز وہئیت کے انتہار سے یہ منفرد نوعیت کی حامل ہے جس کے پچھ خاص معیار و پیانے ہیں ۔ان مختلف پیانوں کے وسیلے سے نثر نگار اپنے تجربات و مشاہدات کی پیش کش کر تا ہے ۔مناسب استعارے ،موزوں تشبیہات اورالفات ومحاورات اسے ادبی حسن سے آراستہ کرتے ہیں ۔ غیر افسانوی نثر کی مختلف قسمیں ہیں ۔ان کا مختصر تعارف مندرجہ میں ہے۔
خاکہ
کسی چیز یا شے کا سرسری تعارف خا کہ کہلا تا ہے ۔ خا کہ میں کسی فرد یا شخص کا مختصر تعارف پیش کیا جا تا ہے۔ خاکہ نگاراپنے مطالعے اور مشاہدہ کی روشنی میں شخصیت کے کسی ایک پہلو یعنی اس کے کردار یا اوصاف وشائل وغیرہ پر اس انداز سے اظہار خیال کرتا ہے کہ شخصیت کی شبیہ قاری کے سامنے آ جاتی ہے ۔ اس طرح قاری،متعالت شخص کے افعال والمال کے بارے میں میح اندازہ لگا لیتا ہے۔ خا کہ میں تفصیل کے بجاۓ اختصار سے کام لیا جا تا ہے ۔ انگریزی میں انچ یا چین پوٹریٹ کے الفاظ خاکے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اردو میں مرقع نگاری قلمی تصویر اور قلمی چہرہ وغیرہ الفاظ بھی مستعمل ہیں ۔ خاکہ نگاری سے متعلق فہمید و شیخ یوں لکھتی ہیں۔
اردو افسانہ
اردو افسانہ اس کا کافی شعور بالید اور پختہ ہوتا ہے اور زندگی جس حد تک اس کی گرفت میں آتی ہے اس حد تک وہ زندگی وخوابصورتی سے پیش کر تا ہے ‘‘ اردو میں افسانہ نگاروں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ، سعادت حسن منٹو کفن عید گاہ پریم چند وغیرہ مشہور افسانے ہیں ۔ ان کے علاوہ مشہورفن کاروں کے پٹھ افسانے انتخابات کی شکل میں شائع ہو چکے ہیں۔ جیسے آزادی کے بعد اردو افسانہ( ایک انتخاب کلیات منٹو( منٹو کے افسانے وغیرہ ۔
ڈراما
ڈرامے کے معنی کسی چیز کو کر کے دکھانا یا عملا پیش کر نے کے ہیں ۔ اس میں واقعات زندگی کو کر داوں کی مدد سے عما پیش کیا جا تا ہے ۔۔ رامے میں جذبات کے اتار چڑھاؤ اور واقعات زندگی کو صورت حال کے مطابق ، کرداروں کے توسط سے پیش کرنے کی خاصی گنجائش ہوتی ہے ۔ کرداروں کی حرکات وسکنات ، مکالموں کی ادائیگی ،لباس اور روشنی وغیر ہ ڈرامے کو دلچسپ و موثر بناتی ہیں ۔ساھین اور ناظرین ڈرامائی پیش کش میں دیپی لیتے ہیں اوراحت و سکون کا احساس بھی کرتے ہیں ۔ یہی نہیں ہکہ واقعات کو ما ہوتے دیکھ کر افراد کے تڑ کی نس کامل بھی انجام پا تا ہے ۔ ڈرامے میں بھی زندگی کے واقعات و مسائل کی تصویرشی کی جاتی ہے ۔ تاریخی واقعات ،سابی اقدار تہذیبی روایات ، جذبات واحساسات کی ترجمانی اور فرد و ساج کی مشماش وغیرہ ڈرامے کے موضوعات ہیں۔ عام طور پر ڈراما دوقسم پر مبنی ہوتا ہے ( ۱ ) کامیڈی ( ۲ ) ٹریجڈی۔ ڈراما ریڈیورٹی وی اور اسٹیج کے لیے کھا جاسکتا ہے ۔ پلاٹ ، کردار نگاری ،مکالمہ نگاری، منظر نگاری ،آرائش،اسٹیج اور موسیقی وغیر ہ ڈرامے کے بنیادی عناصر ہیں ۔ ان اجزاۓ ترکی کے ذریعے ڈرا میں زندگی کے نشیب وفرازاور تضادات کو پیش کیا جا تا ہے ۔ بقول عتیق اللہ : ڈرامے میں کسی ایک یا ایک سے زائدساجی مسائل کو بنیاد بنایا جا تا ہے اور بھی بھی ان کا حل بھی پیش کیا جا تا ہے ۔ ڈراما نگاران کشا کشوں کو حقیقت آ گیں نثر میں نمایاں کرتا ہے
جو انسانوں کے مابین جاری ہیں۔ دوان تضادات کونمایاں کر کے دکھا تا ہے جن کی جڑیں انسانی معاشرے کے تضادات میں پیوست ہیں ‘‘
اردو میں ناول و افسانے کے ساتھ کامیاب ڈرامے بھی لکھے گئے ہیں ۔سلور کنگ ، آنها حشر کاشمیری ۔ انارکلی، امتیازعلی تاج گر و بازار حبیب تنویر ضحاک محسن وغیر مشہور ڈارامے ہیں۔ مختصر یہ کہ افسانوی نثر خواه داستان ہو یا افسانہ، ناول ہو یا ڈراما ہر ایک کی اپنی انفرادی حیثیت ہے ۔ ان اصناف میں زیادہ تر بیانیہ انداز ہوتا ہے جس میں کہانی کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ احساس کی شدت ، جذ بے کی حرارت او تخیل کی بلندی ان اصناف نثر میں فنی حسن پیدا کرتی ہے ۔ حالات کی تخنی ،زندگی کی ناکامی و تشنہ لی ،فر دوساج کی کشمکش اور افراد کی زیادتیاں افسانوی نثر میں میں رونما ہوتی ہے اس سے اردو افسانہ بہترین بنتی ہے۔
روز نامچہ
روزناچے میں شب درز کے واقعات یعنی صبح سے شام تک کے معمولات اور کارکردگیوں کوروزانہ لکھا جا تا ہے ۔ ان تمام واقعات کا تعلق مصنف کی داخلی اور خارجی زندگی سے ہوتا ہے ۔ زمانے کا ماحول مروجہ روایات و نظریات کا نکس بھی روز نا پچے میں جگہ جگہ ملتا ہے ۔ گو یا روز نامچہ ایک ایسی دستاویز ہے جوکسی شخص کی مصروفیات زندگی کے ساتھ ساتھ تاریخی سچائیوں اور سیاست و معاشرت کے متعلق بھی معلومات فراہم کرتی ہے۔ روز نامچ کسی بھی شخص کے ذریعے لکھا جا سکتا ہے۔ لکھنے والے کے سامنے کی طرح کی کوئی پابندی بھی نہیں ہوتی ۔ موضوع سے لے کر انداز بیان تک لکھنے والا آزاد ہوتا ہے جہاں وہ اپنی ذات کسی ادبی یا سیاسی مسئلے کو روز ناچے میں پیش کرسکتا ہے ۔ گو یا ڈائری کسی بھی موضوع یعنی نھی ، ادبی ، سیاسی اور ساجی صورت حال کے متعلق لکھی جاسکتی ہے ۔ روزنامچہ کے حوالے سے عبیہ انورراس طرح کہتی ہیں۔
روز نامچے کے لئے سی ترتیب کی ضرورت نہیں ہوتی یہ انتشار کا مظہر ہوتا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ پیش آمد و واقعات فوراورمکن ہوتو اسی دن قلم بند کر لیے جائیں ۔ پہلا واقعہ آ خر میں اور آ خری واقعی شروع میں بھی آ سکتا ہے ‘‘
روزنامہ
روز نامچہ نگاری کی جانب بعض نثر نگاروں نے اپنی توجہ مبذول کی ہے ۔ حالانکہ یڈز یادہ تعداد میں فراہم نہیں تا ہم پچھ روز نامچے ( ڈائریاں مختلف موضوعات پر موجود ہیں ۔ جیسے ایک ادبی ڈائری ،اختر انصاری ۔ پھٹادر یا فکر تونسوی وغیرہ۔
یادداشت
یاداشت ماضی سے وابستہ ہوتی ہے ۔ یہ یادوں کے سہارے قلم بند کی جاتی ہے ۔ جب ماضی کے خوش گوار لمحات یادگار واقعات اور حیرت انگیز حادثات ذہن پر گردش کرتے ہیں تو بے ساحبتہ تحریری شکل میں ظاہر ہونے لگاتے ہیں ۔ ماضی کی بازگشت اور گذرے ہوۓ کل کو ہرانا یادداشت کا محرک ہے جس میں قوت حافظہ کا بڑاعمل فضل ہوتا ہے۔ بعض اہل علم نے یا داداشت کو ڈائری یا روز نا بچے کے ذیل میں بیان کیا ہے لیکن یاداشت کو ڈائری کے ذیل میں رکھنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ یا لگ بات ہے کہ سوانحی اظہار کی وجہ سے اس میں اور روز ناپے میں چھ ماکت ہوسکتی ہے ۔ یعنی اس کا لکھتے والاکوئی غیر نہیں بلکہ مصنف خود ہوتا ہے ۔ ان کے مابین جو واضح فرق ہے وہ یہ ہے کہ روز نا پے یا ڈائری روزمرہ کے واقعات کی بھر مار ہوتی ہے۔ اس سے کہانی میں خوبصورتی ہوتی ہے۔