فارغ بخاری
فن ترجمہ نگاری اور فارغ بخاری
فارغ بخاری، سرحد میں تر جمہ نگاری کے حوالے سے اپنی الگ پہچان رکھتے ہیں۔ بقول پروفیسر خاطر غزنوی صوبہ سرحد میں ترجمہ نگاری کے لن سے فارغ و رضا آ گاہ تھے ۔ کا۔ اس حملے میں وہی معتبر تھے ‘‘( ۱ ) فارغ نے دصرف اس خطے کی عہد بہ عہد سرگرمیوں کو بندری ترنے کے قالب میں ڈھالا بلکہ ان کے ادبی انسان کی رعایت اور ناہٹ بھی لگاء میں رکھی .. فارغ بخاری ے ۔ داری کی ۱۲ میں کر کے رہنے کا شوق پورا نہیں کیا ہے بلکہ پاری سنجیدگی کے ساتھ اس کے ہنری پہلوؤں کو برتنے کی کوشش کی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے تراجم ایک خاص اعتبار اور حسن کے حامل ہیں ۔ فارغ بخاری نے صو بہ سرحد میں بولی جانے والی اکثر زبانوں کے منتخب ادب کا اردو میں ترجمہ کیا ہے۔ جن میں ہندکو، فاری، چترالی، کو ہستانی اور گجری شامل ہیں ۔ لیکن ان کے پشتو تراجم کو اس حوالے سے خاص اہمیت حاصل ہے۔ یقینا اس سلسلے میں ان سے فروگزاشتیں بھی سرزد ہوئیں تا ہم مجموی کا رکردگی کو دیکھتے ہوۓ ان سے صرف نظر ہوسکتا ہے لیکن اس سے پہلے فارغ بخاری کے تراجم کا علمی و عملی تجزیہ کیا جاۓ ضروری ہے کہ فن ترجمہ نگاری کے بارے میں اس شعبے کے ماہرین کی آراء کو اجاگر کیا جاۓ اور پھر ان معیارات کی روشنی میں موصوف کی کاوشوں کاتعین کیا جاۓ ترجمہ نگاری کو اہل علم کے ایک طبقے نے ثانوی درجے کا عمل قرار دیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ عام طور پر اس عمل میں تخلیق کے اصل جوہر کے خون ہو جانے کا غالب اندیشہ رہتا ہے جب کہ عام طور پر تر جے کا عمل محض نفسیاتی سطح پر واقع ہوتا ہے ۔ اس میں اسلوبیاتی رعنائیوں کی صحت مجروح ہونے کا نمایاں امکان پایا جا تا ہے ۔ بہر کیف اہل نقد و نظر کا ایک اور گروہ ترجمے کے عمل کو غیر آفادی اور غیر موثر خیال نہیں کرتا۔ اس طبقے کے نزدیک ترجمہ ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بدولت دنیا میں مختلف تقاضوں کی حامل متفرق زبانیں بولنے والے ایک دوسرے کے خیالات ،نظریات ،نفسیات ،ادبیات ، روایات اور خواہشات وغیرہ سے آ گہی حاصل کر سکتے ہیں اور اپنے نقطہ نگاہ کو وسعتوں سے ہم کنار کرنے کے مواقع پیدا کر سکتے ہیں ۔ راقم السطور کی نگاہ میں اگر تر جے کامل تخلیقی کرب سے ہم آہنگی کی بنیاد پر واقع ہو تو اس کی افادیت اور جاذبیت بڑی حد تک اصل تخلیق کے ہم پلہ ہوسکتی ہے۔ بہر کیف اس مرحلے پر تر جمہ نگاری کے حوالے سے ہر دوقسم کی آ را نقل کی جار ہی ہیں ۔ نثر میں ترجمہ نا قابل فہم اور ناممکن ہے ۔‘‘(وکٹر ہیوگو، ۱۹ ویں صدی عیسوی)
شاعری ترجمہ ہوہی نہیں سکتی‘‘۔ (ڈاکٹر سموئیل جانس ( ۱۸ و میں صدی عیسوی ) ترجے کی زبان قابل التفات دکھائی نہیں دیتی ۔‘‘ ( جے ایچ فریر، ۱۸۲۰ ) ’’ترجمہ کرنا ایک گناہ ہے ۔‘‘( گرانٹ شاور مین کر سیلی ، ۱۹۱۴ ) "ترجمہ نام ہے ایک سعی نامشکور کا ، جس کے صلے میں مشقت کے بعد صرف حقارت ملتی ہے ۔‘‘ ترجمہ ناممکن کومکن بنانے کی سعی ہے ۔‘‘(ربراٹ فراسٹ ۱۹۵۵ )( ۲ ) ترجمہ نگاری کے سلسلے میں یہ آراء کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ۔ یقینا ان کے پس منظر میں وسیع تجر بہ اور عمیق مشاہدے کی قندیلیں روشن ہوئی ہوں گی ۔ تا ہم عالمی تناظر میں تراجم کے ایسے نمونے بھی موجود ہیں جومحولا بالا احکامات کی منطق کو سراسر رد کرنے کی قوت رکھتے ہیں اور پھرنقل کردہ آراء کسی حد تک اپنی معقولیت کے باوصف ایک خاص جذباتی عمل کی پیداوار معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں تصویر کا ایک رخ تو پوری تفصیلات کے ساتھ سامنے آ تا ہے جب کہ دوسرے رخ کا تذکرہ تو کجا اسے لائق اعتناء ہی نہیں سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس موڑ پر ماہرین کی آراء کو بھی بطور مثال پیش کیا جاۓ ۔ جو زیادہ معقول، مناسب اور متوازن ہیں اور جن میں تصویر کے دونوں رخ بڑی حد تک نمایاں ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالحق کی راۓ ہے: ادبیات کے میدان میں پہلی منزل ترجمہ ہوتی ہے۔اس لیے اس قوم میں نیاپن اور اپج نہیں ہوتی رہتی تو ہر ممکن ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے کہ اس کی تصانیف معمولی، ادھوری، کم سرمایہ اور ادنی تصانیف اپنی زبان میں لائی جائیں ، یہی ترجے خیالات میں تغیر اور معلومات میں اضافہ کر میں گے ۔ جمود کو توڑ میں گے اور قوم میں ایک ایسی حرکت پیدا کر یں گے اور پھر یہی ترجے تصانیف و تالیف کے جدید اسلوب اور آہنگ سجائیں گے ایسے میں ترجمہ تصنیف سے زیادہ قابل قدر ، زیادہ مفید اور زیادہ فیض رساں ہوتا ہے ۔‘( ۳ ) حاجی فخری احمد کہتے ہیں: ہمارے نزدیک ترجے کی تعریف یہ ہے کہ کسی مصنف کے خیالات کو لیا جاۓ کو اپنی زبان کا لباس پہنایا جاۓ ۔ ان کو اپنے الفاظ و محاورات کے سانچے میں ڈھالا جاۓ اور اپنی قوم کے سامنے اس انداز میں پیش کیا جائے کہ ترجمے اور تالیف میں کچھ فرق معلوم نہ ہو۔‘‘( ۲ ) عبدالقادر سروری رقم طراز ہیں: ” جس طرح دیئے سے دیا جلتا ہے اس طرح علوم سے علوم پیدا ہوتے ہیں ۔ اگر دنیا کی تمام ترقی یافتہ زبانوں کوٹولا جاۓ تو اس کا پہیہ چلے گا کہ ان کی نشو ونما کے مختلف مرحلوں میں دوسری زبانوں کے اثر کو بھی بڑا دخل رہا ہے ۔‘‘( ۷ ) ڈاکٹر عابد حسین کے مطابق: "ترجمہ صرف اس کا نام نہیں کہ اصل عبارت کا مفہوم دوسری زبان میں ادا کر دیا جاۓ ۔ مفہوم تو صرف خیال کا بے کیف اور بے رنگ بہت ہوتا ہے۔ جو فلسفے کی میزان میں چاہے جو کچھ وزن رکھتا ہو ادب میں کوئی وزن نہیں رکھتا۔ ادبی قدر و قیمت تر جے کو اس وقت حاصل ہوتی ہے۔ جب ایک زبان سے دوسری زبان میں مفہوم کے ساتھ وہ آب و رنگ وہ چاشنی وہ خوشبو، وہ مزہ بھی آ جاۓ جو اصل عبارت میں موجودتھا۔‘‘( ۸ ) حاجی فخری احمہ کے خیال میں: یہ امر مسلم الثبوت ہے کہ جب کوئی قوم علوم، فنون میں ترقی کا پہلا قدم اٹھاتی ہے تو سب سے پہلے بھی رہالوں کے تاہم سے اپی زبان کو سرمایہ بناتی ہے اور اپنے علمی خزانوں کو معمور کرتی ہے ۔ ترجمہ کا جوار محض موضوع یا کہانی کو ایک زبان سے دوسری زبان میں نتقل کرانا نہیں۔ اصل بات تو ترجمے کے ذریعے ترقی یافتہ رہالوں کے اسالیب کو اپنی زبان میں ڈالنے اور رائج کرنے سے پیدا ہوتی ہے ۔‘‘( ۹ ) محولہ بالا اقتباس کی روشنی میں یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ اگر تر جمہ قرینے کی شرط سے معرانہ ہو تو اس کے ذریعے نہ فقنا ادبیات کی علمی حیثیت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ معاشرہ اور ادب اس وسیلے سے نکتہ نگاہ کی وسعتوں سے بھی ہم کنار ہوسکتا ہے ۔ جہاں تک فارغ بخاری کی تر جمہ نگاری کاتعلق ہے تو اس بات میں ان کی مجموعی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ان کی سعی دو نام کنکور سعی نہیں جس کے صلے میں مشقت کے بعد حقارت ملتی ہے ۔ ان کے تر جے گناہ کی صورت نہیں بلکہ ان کی بنیاد خیر پر استوار ہے۔ ان کے تراجم زبان کی بے التفاتی کا شکارنہیں ہوۓ اور نہ ہی انہوں نے ترجمے کو نا قابل فہم یا ابہامات کا کوئی سلسلہ بننے دیا۔ ان کے لیے ترجمہ نگاری ناممکنات میں پہل اندازی کی صورت نہیں بلکہ مکن کوموثر بنانے کا وسیلہ ہے ۔ فارغ بخاری نے جن زبانوں کے ادبیات کا ترجمہ کیا ہے، وہ نہ فقظ ان کی زندگی میں رچ بس گئی تھیں بلکہ ان کے لاشعور میں سفر کرتے کرتے ان کی شعوری سطح پر اتنی تہذیب وثقافت کے بیشتر رنگ نمایاں کر چکی تھیں ۔ اس لیے انہیں اس سلسلے میں زیادہ وقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فارغ بخاری کانلیقی شعور اور ہر ترجمہ نگاری کے رموز وغوامض سے مکمل واقلیت رکھتا تھا ان کے لیے ترجمہ کسی حادثاتی عمل کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے اپنے رفیع ادبی مقاصد کے حصول کا موثر وسیلہ بجھتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تراجم کردہ حوالوں نے جغرافیائی حد بندیوں اورنسلی امتیازات سے بالاتر ہو کر آفاقیت کا تصور اجاگر کیا ہے ۔ ترجمہ نگاری کے سلسلے میں فارغ بخاری نے عصری علوم سے برابر استفادہ کیا۔ تاہم مسلسل ترجمہ نگاری کے عمل نے ترجمے کے سلسلے میں ان کا اپنا ایک نقطہ نظر بھی تشکیل دے رکھا تھا۔ جو سراسر اختراعی نہ ہی لیکن بڑی حد تک ان کی انفرادی افتادطبع کی ترجمانی ضرور کرتا ہے چنانچہ ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ ترجمے کے فن کے بارے میں فارغ بخاری کے نظریات کی چند جھلکیاں دکھائی جائیں تا کہ ان کے تراجم کے مباحث حقیقی تناظر میں اجا گر ہوئیں۔ فارغ بخاری ترجمے کے فن کو عالم گیر سچائیوں کی دریافت اور پہچان کی طرف بڑھتا ہوا قدم تصور کرتے ہیں ۔ یوں ان کے نزدیک ترجمہ زبان کی وسعت کا باعث بھی بنتا ہے ۔ اس طرح فارغ بخاری تر جے کے ہنر کو تہذیبی مطالعے اور ساج کے تقابلی تجزیے کا اہم وسیلہ گردانتے ہیں ۔ ان کے مطابق: ’’ دنیا کا وہ پہلاشخص جس نے ترجمہ کی طرف توجہ دی ادب کے علاوہ انسانیت کا بھی محسن تھا۔ ترائیم نے مخفی دنیاؤں کو متعارف کرایا۔ انسان کو انسان دوستی پر مجبور کیا۔ اگر تر جمہ نہ ہوتا تو ہرشخص اپنے خول میں مقید رہتا۔ ترجمہ زبان و ادب میں اضافہ کرتا ہے۔ خیال آفرینی کے جوہر دیتا ہے۔ اس آئینے میں ساج اپنے چہرے کا بھی جائزہ لے کر اپنے خد و خال سنوار سکتا ہے ۔‘‘( ۱۰ ) فارغ بخاری ترجمے کو آفاق گیر وسعتوں کا حامل قرار دیتے ہیں اس کے ذریعے ایک انسان دوسرے انسان سے اور ایک معاشرہ دوسرے معاشرے سے جڑ جاتا ہے۔ لیکن فارغ بخاری ترجمے کے لیے چند شرائط لاگو کر تے ہیں ۔ ان کی نظر میں ترجمہ اصل تخلیق کی روح کے مطابق ہونا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو تر جے میں اس ماحول ۔ ان معروضی صداقتوں، اسی نفسیاتی فضا اور اس ادبی تناظر کو بھی منتقل کر نالازمی ہے۔ جس میں اصل تخلیق معرض وجود میں آتی ہے ۔ فارغ بخاری تر جے کو اصل کے ہم پلہ بنانے کی سعی ترک کر باتیج خیال کرتے ہیں حالانکہ انہیں خود بھی اعتراف ہے کہ تخلیق کا کسی دوسری زبان میں انتقال من وعن ممکن نہیں ہوتا ۔ کسی زبان کے اسلوب ، روز مرہ اور محاورے کی انفرادیت یا وکشی کو تر جے میں قائم رکھنا بہت ہی مشکل ہے۔ ترجمہ بہر حال ترجمہ رہے گا۔ اگر کسی زبان کے اپنے اسلوب کو بیضہ ترجمہ میں سمویا جاۓ تو مہمل ہوکر رہ جاۓ گا۔‘‘( ۱۱ ) فارغ بخاری ترجمے کے سلسلے میں خوب سے خوب تر کی جستجو ضروری سمجھتے ہیں۔ بہر حال اگر وہ مترجم کو تر جھے کے سلسلے میں چند پابندیوں میں جکڑ تے ہیں تو انہیں چند رعایتیں بھی دیتے ہیں ان کی نگاہ میں ترکی بہ تر کی یا لفظی ترجمہ کرنا ایک خطرناک عمل ہے اس طرح ایک طرف اصل تخلیق کی روح پائمال ہوجاتی ہے تو دوسری جانب مترجم بھی ہنری سطح پر اتنا جرم قائم نہیں رکھ سکتا۔ ترجے میں لطیف لسانیاتی پہلوؤں کو نظر انداز کر نے سے بھی مسائل پیدا ہونے کا احتمال ہوتا ہے، یوں کسی زبان کی نفسیات سے صرف نظر کر نا بھی ترجہ میں عیوب پیدا کرسکتا ہے۔ چونکہ ایک زبان کی نفسیات دوسری زبان سے مختلف ہوسکتی ہیں ۔ اس طرح بعض الفاظ کراہت کا باعث بن سکتے ہیں ۔ اس لیے فارغ بخاری کے نزدیک اگر مترجم کسی مکروہ لفظ یا عنوان کو کسی دوسرے مترادف لفظ یا عنوان سے بدل ڈالے تو یہ اس کی خوبی تصور ہوگی بشرطیکہ معنوی سطح پر اس تبدیلی سے گڑ بڑ پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو، یہاں بات لفظوں کے بیچ وٹم میں الجھ کر اپی معنویت گنواسکتی ہے۔ فارغ بخاری وہاں آ زاد تر ہے کو ہی بہتر بجھتے ہیں ۔ان کے مطابق ہمیں بعض میگہ آ زاد تر جھے سے کام لینا پڑا۔ لیکن اس سے مصنف کی تحری با اصل شاعری پر کوئی اثر نہیں پڑا۔‘‘ ( ۱۲ ) فارغ بخاری تر جسے میں زبان کے روز مرہ اور محاورہ کا لحاظ رکھنے کے ساتھ اس بات پر بھی توجہ صرف کرتے ہیں کہ ترجمہ ذوق و وجدان پر بار نہ ہو۔ گویا وہ ترجئے میں تخلیق کی روح برقرار رکھتے ہوۓ کسی زبان کے ذوق و وجدان کی رعایت بھی لازم خیال کرتے ہیں ۔ کیونکہ اگر ان چیزوں کی گنجائش نہ نکالی جاۓ تو ترجمہ اپنی افادیت سے خود بخود عاری ہو جا تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فارغ بخاری نے ترجمہ رکتے وقت ایسے فن پاروں کا انتخاب کیا جو اردو بولنے والوں کے ذوق و وجدان سے ہم آہنگ محسوس ہوتے تھے اور جہاں کہیں انہیں ذوق و وجدان سے متصادم کوئی بات نظر آئی تو وہ اسے ترجے کے معنوی اہتمام کو پیش نگاہ رکھ کر رفع کر دیتے ۔ لیکن اس ہنری آزادی کے باوصف وہ تخلیق کی روح کوزک پہنچانے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔ چنانچہ پٹھانوں کے ارمان‘‘ کے دیباچے میں موصوف لکھتے ہیں: اس مجموعے میں جن کہانیوں کو اردو کالباس دیا گیا ہے ۔ وہ ہو بہو اصل کاتر جمہ نہیں، بلکہ کہانی کے مواد اور داستان ساز کے منشاء کو افسانوی زبان میں بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ بعض مقامات ایسے بھی آ گئے ہیں جہاں مقامی رنگ جوں کا توں قائم رکھا گیا ہے ۔ اگر اس میں رد و بدل کیا جاۓ تو شاید واقعیت مسخ اور حقیقت نگاری کا خون ہوجا تا ۔‘‘( ۱۳ ) ترجمہ سازی کے لیے فارغ بخاری کی آ زادی صنوبر کی آزادی کی طرح ہے جس کے بارے میں اقبال نے کہا ہے۔
صنو بر باغ میں آ زاد بھی ہے پا بہ گل بھی ہے
دہ ہنری آ زادی جو تخلیق کی معنوی دنیا میں بے جا تصرف کا باعث بنتی ہے اور سچائی کا خون کرنے لگتی ہے کسی بھی ترجمہ نگار کے لیے فارغ بخاری ای آزادی کے حق میں نہیں ہے۔ فارغ بخاری ترجمہ نگار کے لیے کم سے کم اور نصیح سے نصیح تر الفاظ کے استعمال پر زور دیتے ہیں ۔ الفاظ کی عدم کفایت شعاری فارغ بخاری کے نزدیک تر جے کی جامعیت کو نقصان پہنچاسکتی ہے ۔ موصوف چونکہ، چنانچہ لیکن، تاہم، چہ ہاۓ اور اگر مگر وغیرہ لاحقوں اور سابقوں سے بھی ترجے کو گراں بار بنانے کے حق میں نہیں ہیں، ان کے خیال میں ترجمے کو رواں دواں ، عام فہم ، زود اثر اور ادبی رعنائیوں کا حامل ہونا چاہیے ۔ فارغ بخاری مشکل اور پیچیدہ عبارات کا ترجمہ بھی سلیس پیراۓ میں کرنے کے حق میں ہیں ۔ اسے نا گز یہ خیال نہیں کرتے ۔ کیونکہ اگر اصل عبارت میں یہ امکان نہیں ہے تو ترجمہ نگار بھی بڑی حد تک اس ذمہ داری سے بری الذمہ ظہر تا ہے فارغ بخاری دوسری زبانوں کی ادبیات کو اردو میں منتقل کرتے ہوۓ فقط ان اصطلاحات ،تراکیب اور علامتوں تک محدود نہیں رہتے جو ان زبانوں کے ساتھ خاص ہیں۔ بلکہ ترجے کرتے ہوۓ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی کام میں لاتے ہیں اور ان اصطلاحات اور ترکیات کو اردو میں منتقل کرنے سے دامن بچاتے ہیں ۔ جو اس زبان کی نفسیات سے لگا نہیں کھاتیں وہ ترجمہ کرنے کے دوران میں اردو زبان کی مروجہ اصطلاحات اور تراکیب کو کام میں لاتے ہیں اور اگر ایسی کوئی صورت نظر نہیں آتی تو پھر اپنے طور پر ایسی اصطلاحات اور تراکیب وضع کرتے ہیں جو اردو زبان کے لیے قابل قبول ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں رواج پانے کی قوت بھی رکھتی ہوں ۔ فارغ بخاری کا یہ مل زبان کو بار آور بنانے کا اک حیلہ بھی ہے چونکہ فارغ بخاری کو فاری زبان پر عبور حاصل تھا یہی وجہ ہے کہ اصطلاحات وضع کرنے میں انہیں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ فارغ بخاری نے نہ فقط اردو ادب کو بہترین زاہم سے مالا مال کیا بلکہ اس حوالے سے اردو زبان کو کئی خوب صورت تراکیب و اصطلاحات سے بھی نوازا۔ نیاز فتح پوری اپنے مضمون دوتر جے کے متعلق چند اصولی باتیں میں لکھتے ہیں: یہ بحث کبھی نہ بھی ضرور دیکھنے میں آ جاتی ہے کہ غیر زبانوں کے الفاظ کا ترجمہ کس اصول سے کیا جاۓ ۔ کوئی کہتا ہے کہ ٹھیٹھ ہندی کے الفاظ استعال کیے جائیں اور کوئی عربی و فاری سے مدد لینا ضروری سمجھتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ جس حد تک صرف معمولی قصے کہانیوں کاتعلق ہے۔ آپ بہ آسانی ہندی بھاشا سے کام نکال سکتے ہیں لیکن جس وقت سوال علمی کتابوں کا آۓ گا تو آپ مجبور ہوں گے کہ یا تو عربی فاری سے مدد لیں پاسنسکرت سے ۔‘‘( ۱۴ ) چونکہ فارغ بخاری کے تراجم زیادہ تر عملی نوعیت کے تراجم ہیں اس لیے انہوں نے عملی طور پر ان تراجم کے وسیلے سے اس حقیقت کو مکشف کرانے کی سعی کی کہ بڑی تخلیقات کے تراجم عربی اور فارسی زبان پر گرفت اور دسترس رکھنے کے متقاضی ہوتے ہیں چونکہ کسی عمل کو برتنے کے پس منظر میں نظریات کافرما ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے فارغ بخاری کے اس عمل کو ان کے فن ترجمہ نگاری کے نظریات کے تحت لا نا نا مناسب نہیں۔ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کے رائج چلن پر حسن عسکری نے سب سے کلیدی التراض کیا ہے کہ مجموعی طور پر تراجم کے ذریعے ہمارے تخلیقی ادب کو زیادہ فائدہ نہیں پنچا۔ لیکن یہ اعتراض فارغ بخاری پر اس لیے وار نہیں ہوتا کہ وہ تر جھے کو ایک تخلیقی مسئلہ تصور کرتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے گزشتہ عہد کے ادب کو اپنے تراجم میں مجموعی اعتبار سے اپنی تمام تر روح سمیت نئے لہجے میں ترجمہ کیا ہے جسے آج کا لہجہ کہنا مناسب ہے، گویا محل انہوں نے ترجمہ نہیں کیا بلکہ اس وسیلے سے ایک تخلیقی تجربے کی باز آفری کی راہ ہموار کی ہے فارغ بخاری کاشعور اس ترجمے کو بے وقعت مظہرا تا ہے جو تخلیقی تجربے کی باز آفری توانائی سے معمور نہ ہو۔ فی زمانہ ترجھے کے فن سے عدم آ گیا ئے تراجم میں ایک عجیب طرز تحر متعارف کیا ہے، جسے انگریزی زبان میں " Journalese کی اصطلاح سے یاد کیا جا تا ہے ۔ یعنی ایسی ناقص زبان جو نہ تو خیالات کے اظہار پر قدرت رکھتی ہے اور نہ معنی کی ترسیل کے سلسلے میں مہ ٹھہراتی ہے لیکن فارغ بخاری کا فنی شعور " Journalese " کی اصطلاح سے آلودہ نہیں ہوتا ہے اس لیے کہ ان کی زبان نہ تو قوت اظہار اور ابلاغ کی توانائی سے محروم ہے اور نہ ہی اپنے قاری کو اپنی تن آسانی سے مات دینا چاہتے ہیں، فارغ بخاری نہ تو قاری کی دیوی کی خاطر ترجمے کے نام پر کاٹھ کباڑ کے ڈھیر لگانے کے روادار ہیں اور نہ ہی وہ غیر مفید اور غیر معتبر کتب کے ترجے کرتے ہیں۔ اس کے باوصف وہ اصل متن کو پوری طرح سمجھ کر ترجمہ کے لیے قلم اٹھانے کاملی احساس جگاتے ہیں ۔ آ نکھیں بند کر کے ترجمہ کر دینا ان کے مطمح نظر اور مقاصد کے خلاف ہے۔ فارغ بخاری اردو زبان کی گہری اور گیرائی سے آشنا تھے ۔ اس لیے انہوں نے محض تراجم کرنے کے عمل کو اہم خیال نہیں کیا بلکہ ان تراجم کی وساطت سے انہوں نے اردو ادب کو نئے اسالیب بیان سے ہمکنار کیا۔ نئے قرینہ احساس کو جگایا۔ بیان کے پیراۓ میں انہوں نے متانت ، سلاست، صلابت ،استدلال اور اعتدال پیدا کیا۔ انہوں نے اردو میں نہ فقط ترجے کے وسیلے سے اظہار کی نئی ہیئیں متعارف کیں، بلکہ اردو کو ئی اصناف سے آشنا کر کے اس کے ادبی وقار کو نئی وسعتوں میں ابھارا۔ اپنے تراجم کے حوالے سے فارغ بخاری نے اردو کو نئی جہتوں بنئی کروٹوں اور نئے ذائقوں سے سرشار کیا اور یہی اس کے نظریفن کا حاصل بھی تھا۔اگر فارغ بخاری کے ترجمہ نگارا نہ نظریات کو چند لفظوں میں سمیٹنا پڑے تو یہ کہنا پڑے گا کہ وہ ترجے کے ہنر کے لیے موزوں افتادطیع کے ساتھ ساتھ وسیع مطالع، گہرے مشاہدے، بین السانیاتی تہذیب سے آ گاہی اصل تخلیقی روح سے ہم جنگی ، ہنری در یافت اور موثر اسلوبیاتی پیراۓ اظہار کو لازمی عناصر میں شار کرتے ہیں یہ ان کانظر می فن بھی تھا اور ہنر کا وظیفہ بھی ، فارغ بخاری کے تراجم کو دیکھتے ہوۓ پیٹرن کی اس راۓ میں کئی پہلوؤں سے شگاف پڑتے دکھائی دیتے ہیں۔
حوالہ جات۔
انٹر ویو خاطر غزنوی: ۱۶ فروری ۲۰۰۲ ء بمقام گل بہار( خانه خاطر غزنوی) بحوالہ ترجمہ کافن : ڈاکٹر مرزا حامد بیگ: مقتدرہ قومی زبان ، اسلام آباد، ۱۹۸۷ ء، مقدمہ تاریخ یونان: ڈاکٹر عبدالحق ( ترجمہ سید ہاشمی فرید آبادی) دار الطبع سرکار عالم ، حیدر آباد ۱۹۱۹ ء ص ۳ رسالہ’’ اردو‘ کراچی اکتوبر ۱۹۲۹ ء بس ۵ بیاض مبارک مقدمه، مرتبه سید زور حسین زیدی، مکتبه امیری لاہبری، ۱۹۷۴ ء،ص ۵۴ رساله،اردو ،اکتو بر ۱۹۲۹ ء،ص ۵۹۴