اقبال کی غزل گوئی کی حصوصیات
علامہ اقبال سے قبل غزل اور "اقبال کے تغزل کا اسلوب" کے موضوع عشق ومحبت کے حوالے سے ہوتے تھے۔ یہاں تک کہ واردات قلب کو اولیت حاصل تھی کیونکہ انسانی تہذیب نیت تاریخ کا بہت بڑا کارنامہ رہا ہے۔ محبوب سے محبت کر کے اور اس محبت کو رچا اور سنوار کے اپنی زندگی کو رجھاتے اور سنوارتے ہیں ۔ اسی کیفیات میں خواجہ حافظ اور غالب کے نام بلند ترین معیار پر ہیں۔ اگرحسن وعشق کے حوالہ نے دیکھے تو اقبال کی غزلوں میں یہ چیزنہیں ہے۔ کیونکہ اقبال نے غزل کی فکری و پانی دنیا میں ایک اور عظمت تازگی جدت اور خوشگوارلیت پیدا کر دی۔ اقبال نے مجازی محبوب کے لب و رخسار تروگیسٹرنگ حنا اور شری گفتاری کی بجائے حقیقی محبوب سے خطاب کیا ہے۔ اس کے علاوه شاعرانہ انداز میں اپنے افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ مثال انہوں نے اپنی غزلوں میں تصوف فقر درویشی است معاشرت مرد مومن تاريخ انت قلفیلم الکلام جیسے موضوعات کو غزلوں میں سمودیا ہے۔ وہ خود کہتے ہیں کہ۔
به زباں کوئی غزل کی نہ زباں سے باخبر
میں گوئی دل کشا صدا ہو بھی ہوا کہ ازی
اگر فکر و تصوف کے حوالے سے دیکھا جائے تو اقبال بلند ترین غزل گو ہیں ۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اقبال کی ذخیرہ ان میں ایک صنف کی حیثیت سے غزل کا مقام ثانوی ہے۔ پھر بھی محسوس ہوتا ہے کہ غزل کا آسیب مسلسل اقبال کا تعاقب کرتا رہا اور اقبال نے اپنی غزلوں میں تغزل کا خوب ادا کیا۔ لفظی رعایتوں کو برتنے پر کمال کی قدرت حاصل ہے۔ شاعرانہ رمز نگاری بہترین مثالیں ہیں۔ غزل کا جوش بیاں اور الفاظ کی تازگی غزلوں میں حکیمانہ اشارات اور شاعرانہ نکته بی کے ساتھ طنز و مزاح اور شوی وشگفتگی پائی جاتی ہے۔ انہیں جمالیاتی محاسن کا احساس تھا۔
میرے مینائی غزل میں تھی ذرا سی باقی
شیخ کہتا ہے کہ وہ بھی ہے حرام اے ساقی
اقبال نے غزل کے جس نے واقعے کا احساس دلایا تھا۔ بال جبریل کی غزلوں تک اپنے ہے وہ ایک واضح شکل اختیار کر لیتا ہے۔ چنانچہ اس اقبال کی غزلیں اکثر ان کی نظم کے مزاج سے قریب ہیں۔ اقبال کے فکری اورلت بلوغ کا دور ہے کہ اب اقبال اپنے ادبی روایت کے امکانات کی تسخیر کے بعد بذات خود شعر کی نئی روایت کا سرچشمہ بن چکے تھے۔ اقبال کی غزل اس مفکرانہ آہنگ کو دریافت کر چکی تھی جس نے اپنی روایات کو ایک نئے موڑ تک پہنچایا۔ بال جبریل کی غزلوں پر مکالے یا خود کلامی کا رنگ غالب ہے۔ نیتا اب ان کی غزل ڈرائے یا کہانی کی فضا کو اسیر کرتی ہوئی دکھا دیتی ہے۔
اپنے تین اشعار میں اقبال نے شعور کے نفسیاتی مراحل کا عین اس طور پر کیا تاکہ
اول شعور خویشتن خویش
را ديدن پور خون عانی شعور دیگرے
خویش را دیدن بنور دیگرے
ثالث شعور ذات حق خویش
بال جریل کی غزلوں میں وه ان تینوں ادوار سے گزرتے ہیں اور اقبال استعاروں زیاده مجردات سے کام لیتے ہیں اور استوارے دریافت کرتے ہیں تو اس طرح ان کی نوعیت شناختی نشانات کی ہوتی ہے جن کی حدوں کا تین مشکل نہیں لیکن اقبال اپنے مکالماتی انداز کے ذریعے جس کا دوسرا سرا بھی خود اپنے باطن سے جا ملتا ہے۔ بھی غیر خود سے اور بھی خدا سے مجرد فکر کے پھیکے پن ک باو جودایک کتیل کا ش غلق کرے می اس طرح ان کا گیل استعارت ب عاری فضا بھی ایک مشہور و موجود منظر کا رنگ بخشتا ہے اور ایک بظاہر نظقی اور فکری سرگری و علم کے حیرت کدے کا وقوعہ بنا دیتا ہے۔ ہای النظر میں معنی کی ایک محدود اور واحد المركز مع رکھنے کے باوجود یہ طریق کار ان کے خیال کو معنی کے فیصلوں کا پابند نہیں ہونے دیا۔ معینہ افکار کے پیرمہ سے اقبال کی تخلیقی شخصیت کو اس طریق کار نے بھی بنایا اور ان کے تقر کو اسرار یا رمز کی پچیگوت ہمکنار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ بال جبر پل کو متعدد غزلوں کے بے استعارہ اور براہ راست اشعار بھی خالی منطق کی گرفت میں پوری طرح نہیں آتے اور اقبال کے فری تفاعل کے ساتھ ساتھ ان کے وجدان کی ریاضت کا حامل بھی بن جاتے ہیں۔ شعر بہنے کے بعد اقبال کے افکار ان کی کھلی مسائل ہیں اس طور پر گھل مل جاتے ہیں کہ ان افکار کا ری شعور رکھنے والوں کے لیے بعض اوقات نہیں فکری حقیقت کے طور پر قبول کرتا یا ان کے تضادات کے معے کو حل کرنا خاصا دشوار ہو جاتا ہے۔ شاید اس لئے شعر کے قاری کو اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ شاعری میں منظق سچائیوں کی تلاش کفش بے سود ہے اور اس سے یہ تقاضا کیا تھا کہ کیا شاعر کی عظمت کے ثبوت میں وہ اس کی تخلیقات ہے اسی کی مثالیں نہ نکالے جنہیں وہ صرف انکی صداقتوں کا حال سمجھتا ہے۔ ان القادمیں کہ دفن ایک مقدس فریب ہے یا یہ کہ ایک ریاضی داں مجبور ہے مگر شاعر ایک ہی مصرے میں لامتناہیت کو مقید کر سکتا ہے۔ اقبال نے شعر کی اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا تھا۔
اقبال کی غزل کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اپنی بچی کے موڑ پر اس نے ایک نئے انسانی ) تجربے کی حیثیت اختیار کر لیا۔ بانگ درا کی ایک غزل کے دوشعر یوں ہیں۔
اے مسلماں ہر گزری پیش نظر
آ لايخلف الميعاد رکھ
و لسان حصر کا پیغام ہے
ان وعد الله حق یاد رکھ
بانگ درا کی غزلوں میں مندرجہ بالا دو اشعار کے اسکناء کے ساتھ عربی آمیز زبان یا فاری کا آہنگ پر اس حد تک نمایاں ہے مجھے اردو کی شعری روایت اپنی عادت کا جز و بنا کر قبولیت کی سند دے چکی تھی۔ بعد کی غزلوں میں اقبال نے اس حد کو بھی عبور کرنا چاہا۔ ان غیر مردف غزلوں میں بندہ آزاد لذت ایجا با دمراد اور زیادہ یا کدو من و تو اور خوردو یا دو پیوندی قازی تازگی اور خارا گلدوزی یا کشاف تا صاف اور اعراف جیسے قافی" قاری کی نسبتا تا مانوس تراکیب اور قرآن کی آیات یا عربی مرکبات کا بے تکلفانہ استعال اردو غزل کی سرگزشت میں کم و بیش ایک ان ہو نے واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ فلسفہ تہذیب اور سماجی علوم کے مختلف شعبوں کی اصطلا میں جو اقبال کی نظر سے گزر کر ان کے شاعرانہ وجدان نکل گئی تھیں۔ بال جبریل کی غزلوں میں جابجا بکھری ہوئی ہیں ۔ اقبال کی یہ کوشش غزل کے نقاد کے لئے ایک نیا مسئلہ ہے اور اس سے ایک نئی بوطیقا کی ترتیب کا تقاضا کرتا ہے۔
بال جبریل اقبال کی مقبول ترین لیتی ہے کیونکہ اس میں فلسفہ قدرے کم اور شاعری زیاده ہے۔ ان غزلوں میں قدیم اور جدید دونوں طرزوں کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ تصوف اور تنزل کو شیر و شکر کر دیا گیا ہے۔ محجوب حقیقی سے خطاب کرتے ہیں عورت اور روائتی محجوب کا کہیں بھی تذکرہ نہیں یہ انداز اردو غزل کی وسعتوں میں فرائی پیدا کرتا ہے۔
میری نوائے شوق سے شور حریم ذات میں
غلغلہ ہائے الامان بتکدہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے حلل تیری تجلیات میں
عشق کے حوالہ سے بھی ان کا محبوب روایتی نہیں اور نہ ہی کوئی عورت ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اشعار میں اقبال کے نزول کا کمال دیکھئے۔
کانٹا وہ دے کہ جس کی کٹھک لازوال ہو
یا رب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو
اس کے بارے میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں کہتے ہیں کہ اقبال کی غزل کی خصوصیت ان کا جوش بیاں اور روز بیت ہے ان کے الفاظ میں بلا کی ایمانی قوت پوشیدہ ہوتی ہے اور وہ حسن ادا کے جادو سے انسانی زمین کو مسحور کردیتے ہیں۔ ایک غزل میں انہوں نے مغ بچے کی زبانی درد اشتیاق کی شرح بیان کی ہے۔
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مقام گفتگو کیا ہے اگر میں کیمیا گر ہوں
یہی سوز نفس ہے اور میری کیمیا کیا ہے
نظر آئیں مجھے تقدیر کی گہرائیاں اس میں
نہ پوچھ اے ہم نشیں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کیا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبالؔ اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے
نوائے صبح گاہی نے جگر خوں کر دیا میرا
خدایا جس خطا کی یہ سزا ہے وہ خطا کیا ہے
اقبال نے اپنی شاعری کے بالکل ابتدائی دور میں ایک غزل لکھی تھی جس کا ایک شعر بطور نمونہ پیش خدمت ہے دیکھئے اس میں اقبال کا جوش بیاں کا اظہار کس طرح ہوتا ہے۔ اقبال کی اس مصرع سے اندازہ ہوتا ہے۔
موتی مجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطر جو تھے مرے عرق الفعال کے
مزاح کی شوخی و شگفتگی اور ان کا استعمال بھی اقبال بڑے دلکش انداز میں کرتے ہیں۔
تمام مضمون میرے پرانے کلام میرا خطا سراپا
ہر کوئی دیکھتا ہے مجھ میں تو عیب ہے جو کا
جو ہے نماز بھی پڑھتے ہیں نماز اقبال
بلا کے در سے مجھے کو امام کرتے ہیں
اقبال کی غزل میں سلاست اور سادگی کا عنصر بھی ان کی غزلوں میں پایا جاتا ہے۔ انہوں بند فلفیانه انگار کوسلاست اور بلافت سے ادا کیاہے۔ مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں ہے
ذرا نم ہو تو مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
ایک اور جگہ اقبال کہتے ہیں کہ۔
کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اقبال کے ہاں سوز و گداز بہت زیادہ ہے۔ اس کے بغیر غزل میں تاثیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اقبال اور میر دونوں کی غزلوں کی جان سوز و گداز ہے۔ دونوں عشق کے بچے جذبے کے عکاس ہیں۔ ایک کا محبوب حقیقی ہے تو دوسرے کا مجازی۔
چنین دور آسمان کم دیدہ باشد
کہ جبرئیل امین را دل خراشد
چہ خوش دیری بنا کردند آنجا
پرستد مومن و کافر تراشد
ترجمہ۔۔ آسمان نے ایسا دور کم ہی دیکھا ہو گا، یہ جس نے جبریل امین (علیہ) کا دل بھی زخمی کر دیا۔
یہ کیسا اچھا بتخانہ تعمیر کیا گیا ہے، جہاں کافر بت تراشتا ہے اور مسلمان اس کی پوجا کرتا ہے (یعنی مسلمان کافروں کے نظریات کی پیروی کر رہے ہیں)۔
ارمغانِ حجاز
اقبال نے جگہ مسلمانوں کی طرف اشارہ کیا ہے تاکہ مسلمان ملت کی خواب غفلت ختم ہو راہ سنت پر ہو مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔
اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل
جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد
تشریح:اس شعر میں علامہؒ مسلمانوں کی حالتِ زار کا بیان فرما رہے ہیں کہ اس دور میں کفر سے نبرد آزما ہونے کے لیے قوتِ ایمانی کی ضرورت ھے جو کہ اے مرد مسلم! تجھ میں نہیں ھے تو اقبالؒ طنز کہہ رہے ہیں کہ (راہبی) کی طرز پہ کسی غار میں بیٹھ جا اور اللہ کو یاد کر۔ کیونکہ تو یہی سمجھتا ھے کہ محض نماز ,روزہ ہی عبادات ھیں! جبکہ جہاد اور کفر کے خلاف محاز آرائی تجھے گوارا نہیں۔
آج اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو یہ عقیدہ ہم میں بھی راسخ ہوتا جا رہا ھے۔اور ہمارے ناخلف حکمران امن کی آڑ میں اپنی بزدلی کو چھپا رہے ھیں۔ کیا کبھی تلوار کے فیصلے امن سے حل ہوۓ؟اور اگر جہاد اتن ا ہی برا ہوتا تو اللہ اس کو ہم پہ فرض نا کرتا۔ اللہ تعالی قرآن میں جا بجا جہاد کا حکم دیتا ھے۔ اور یہ بھی حکم دیتا ھے کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرو ان عورتوں اور مظلموں کے لیے جو کسی ظالم کے زیرِ نگیں ہیں اور مظلوم و محکوم ھیں۔ کیا کشمیرو فلسطین و برما کے مسلمانوں سے زیادہ کوئی مظلوم و محکوم ہو سکتا ھے؟مگر افسوس ہمارے ذہنوں میں (کولڈ وار کے ایک پراثر جال کے تحت) یہ بات ڈالی کہ جی اسلام امن کا درس دیتا ھے مگر ہمیں یہ کبھی نا سیکھایا گیا کہ اسلام جہاد کا بھی حکم دیتا ھے۔ افسوس
اللہ ہمیں سمجھ بوجھ عطا فرماۓ ۔ آمین