اقبال کی نظم گوئی
زبان اردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اے اقبال سا شاعر نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان ی گئی ہے۔ موزوں الفاظ کا ایک دریا بہتا یا ایک چشمہ بات معلوم ہوتا تھا۔ ایک خاص کیفیت ت کی عموما ان پر طاری ہوتی تھی۔ اپنے اشعار تریلی آواز میں ترنم سے پڑھتے تھے خود وجد کرتے اور دوسروں کو وجد میں لاتے تھے۔ یہ بھی خصوصیت ہے کہ حافظہ ایسا پایا ہے کہ جتنے شعر اس طرح زبان سے نکلیں اگر وہ ایک مسلسل نظم کی طرح ہوں تو سب کے سب اور دوسرے وقت اور دوسرے دن اسی ترتیب اور ڈھنگ سے حافظہ میں محفوظ اور مضبوط بیٹھ جاتے ہیں جس ترتیب سے وہ کہے گئے تھے اور درمیان میں خود وہ انہیں قلم بند بھی نہیں کرتے۔ اقبال کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ بایں ہمہ موزونی طبع دو حسب فرمائش شعر کہنے سے قاصر ہے۔ جب طبیت خود بائی کم ہو تو متن شعر چاہیں کہ دیں مگر یہ کہ ہر وقت اور ہر موقع پر حسب فرمان وہ ہے کہ میں تقریب قریب نامان ہے۔ اسی لئے جب ان کا نام نکلا اور فرمائشوں کی بھر مار ہوئی تو انہیں اکثر فرمانوں کی میل سے انکار نہیں کرنا پڑا۔ اسی طرح انجمنوں اور مجالس کو بھی وہ عموما جواب نہیں دیتے رہے۔ فقط لاہور کی انجمن حمایت اسلام کو بعض وجوہ کے سبب یہ موقع ملا کہ اس کے سالانہ جلسوں میں کئی سال متواتر اقبال نے اپنی نظم سنائی جو خاص اسی جلسہ کے لیے لکھی گئی تھی۔اور جس کی فکر اقبال پہلے سے کرتے رہتے تھے۔
اول اول جو نظمیں اس میں جلسہ عام میں پڑھیں جاتی تھیں، تحت الفظ پڑھی جاتی تھیں اور اس طرز میں بھی ایک لطف ہی تھا مگر بعض دوستوں نے ایک مرتبہ جلسہ عام میں اقبال سے یہ اصرار کیا کہ وہ نظم ترنم سے پڑھیں۔ ان کی آواز قدرت بلند اور خوش الحان میں طرز ترنم سے بھی حاصے تھے۔ جب نظم پڑھی تو ایسا سماں بند ها گیا کہ سکوت کا عالم چھا گیا اور لوگ جھومنے لگے۔ اس کے دو دیتے ہوئے ایک تو یہ کہ ان کے لئے تحت اللفظ پڑھنا مشکل ہو گیا۔ جب بھی پڑھیں اور اصرار کرنے کے لئے سمجھا جائے اور دوسری کے پہلے تو خواس بھی ان کے کلام کے قدردان تھے اور اس کو مجھ سکتے تھے ای کشش کے سبب عوام بھی جائے ۔ لاہور میں جلسه حمایت اسلام میں جب اقبال کی تم بھی جاتی تو دس دس ہزار آدی ایک وقت میں جمع ہوتے اور جب تک نظم پڑھی جانئے لوگ ایک دم بخود بیٹھے رہتے تھے اور اس نظم کی تفسیر پر پورے اترتے وہ مہو رہتے اور نہ سمجھتے وہ بھی مہو رہتے تھے ہر طرف سکوت کا عالم چھا گیا اور لوگ واہ واہ کرتے رہ گئے۔
ہمالہ نظم کا محتصر خاکہ بمع تشریح
ہمالہ
اے ہمالہ! اے فصیل کشور ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک آسمان
تُجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تُو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیم طور سینا کے لیے
تُو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لیے
مشکل الفاظ کے معانی:-
ہِمَالہ برف کا پہاڑ یہاں (مُراد پہاڑ ہے)
فَصِیل چار دیواری,شہر پناہ
کِشوَر ملک,دیس، وطن
دیرینہ روزی، لمبی عمر، دراز
کلیم، موسٰی علیہ السلام کا لقب تھا۔
طور سینا، پہاڑ مراد لیا گیا ہے۔
چشمِ بینا دیکھنے والی آنکھ، آنکھوں کی بصیرت
تشریح،
اس نظم میں فطرت کی خوب صورتک اور جذبۂ حُب الوطنی کا دل نشیں ہنگ پیش کیا گیا ہے,اقبال رحمہ اللّٰہ ہمالہ سے مخاطب ہو کر کہہ رہے ہیں کہ " اے ہمالہ تُو فطرت کا وہ شاہکار ہے حو نہ صرف وطنِ ہندوستان کے لیے چاردیواری اور قدرتی محافظ ہے بلکہ ترا نظارہ کرنے سے محسوس ہوتا ہے جیسے تری عظمت اور بلندی کی پیشانی کو فلک بھی چُومتا ہے اور معترف ہے.
جب اس کائنات کو تخلیق کیا گیا تب سے تیرا وجود جلوہ افروز ہے لیکن مجال ہے کہ ذرا بھی بوسیدگی یا تبدیلی رونما ہوئی ہو,تُو آغاز و ابتداء کی طرح اپنی شان و شوکت کے ساتھ زندہ و جاوید ہے..
آخری شعر میں شاعرِ مشرق ہمالہ کا موازنہ طور پہاڑ سے کرتے ہیں اور کہنے کا مطلب یہ ہے کہ طورِ سینا کے لیے اک ہی بار تجلّی کا ساماں ہوا جس کی وجہ سے اُسے اختصاص ملا لیکن اے ہمالہ تُو تو بذاتِ خود سراسر تجلّی ہے ہر اُس آنکھ کے لیے جو بصارت و بصیرت والی ہو....
(حوالہ کُلیاتِ اقبال رحمہ اللّٰہ)
1905 ء سے 1908 ء تک اقبال کی شاعری کا ایک دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ وہ زمانہ ہے جو ۱۷۷۷ ) انہوں نے یورپ میں بسر کیا۔ گو وہاں انہیں شاعری کے لیے بہت کم وقت ملا اور ان نظموں کی تعداد جو وہاں کے قیام میں لکھ میں تھوڑی ہے مگر ان میں ایک خاص رنگ وہاں کے مشاہدات کا نظر آتا ہے۔ اس زمانے میں دو بڑے تغیر ان کے خیالات میں آئے۔ اقبال کا اردو کلام جو وقتا فوقتا 1901 ء سے لے کر آج تک رسالوں اور البیان میں منافع کام) کرتا رہتا تھا۔
اقبال کا یہ نظم مختلف انجمنوں میں پڑھا گیا اور وہاں اقبال کو اور اقبال کی تخلیقی انداز شعروں شاعری کو شہرت ملی۔ مجموعہ اشاعت کے بہت کم لوگ خواں تھے۔ مگر جب یہ تمام مواد شائع ہوا تو یہ دعوی سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو میں آج تک کوئی اس کی کتاب اشعار موجوتیں ہ جس می خیات کی فرانی هوان قدر مطلب کا اول اور کیوں نہ وہ ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔ بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک مصرعه ایا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔
نظم نگاری
اقبال نے جلد کی جان لیا تھا کہ روایتی نظم گوئی اور غزل گوئی ان کے مزاج اور طبیعت سے مناسبت نہیں رکھتی۔ اسے ایک وسیع میدان کی ضرورت ہے لہذا انہوں نے اپنی توجہ اپنی نظم کی طرف توجہ کی اور ہمالہ جیسی نظم کی بسمہ اللہ کی جیسے فوری قبول عام کی سند حاصل ہوئی۔ اس کے بد زمان نظمیں" خالد شمیم ہلال عید سے خطاب اور اپر گہر بار" کے عنوان سے انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں پڑھی۔ مال اور ایک آرزو ، نظمیں مناظر فطرت کے ساتھ ان کی وابستگی کو ظاہر کرتی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان مناظر کی مکمل اور جاندار تصویریشی کا کہ انہیں قدرت کی جانب
مغربی ادب کے اثرات
اقبال نے بہت ہی انگریزی نظموں کے خوبصورت ترکھے گئے ہیں۔ پیام میع»، «عشق اور موت اور " رخصت اے بزم جہاں تراجم کی واضح مثالیں ہیں۔ بچوں کی فلموں کے حوالہ سے کا اور بھی ایک پہاڑ اور گلہری ”ایک گائے اور بکری بچے کی دعا ماں کا خواب ہمدردی و غیره میں مغربی شعرا کے کلام سے ماخوذ ہیں ۔ مثلا کوئی ٹینی سن اور ایران وغیرہ کے کلام سے ماخوز ہے۔ انکے علاو چوت و آہنگ اور میت کے بھی مارے گئے جو کہ مغربی شاعری کے زیر اثر تھے۔
تصوف کے اثرات
اقبال کی ابتدائی شاعری پر ایران کے صوفیانہ تصورات کا اثر بھی ملتا ہے۔ قاری کا پورا بر ایران کی نظروں کے سامنے تھا۔ اس دور کی شاعری میں صوفیان اصورات اگرچہ بالکل ابتدائی اور خام شکل میں ملتے ہیں جو کہ شعوری طور پر اثر تھا۔ تصوف کے منفی تصورات کو بعد میں انہوں نے زبان سے نکال لیا تھا۔ بقول عبد السلام ندوی۔
ان کی اس دور کی نظموں میں بعض ایسے اشعار بھی موجود ہیں جو ان کام کے فلسفہ خودی کے مخالف ہیں۔ مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔
زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے ۔
خواب ہے غفلت ہے سر مستی بے خوشی ہے یہ
میری ہستی ہی جو تھی میری نظر کا پردہ
أٹھ گیا بزم سے میں پرده مخفل ہو کر
فلسفہ خودی
اقبال کے ابتدائی دور کی بہت سی نظموں میں فلسفہ خودی کے کئی عناصر اپنی ابتدائی اور خاص شکل میں موجود ہیں جو آگے چل کر اپنی صورت وا کرتے گئے اور اس کے نظام فکر میں بنیادی حیثیت اختیار کر کے فلسفہ خودی قرار پائے اس فلسفہ کے دو منتشر عناصر جس کو ابتدائی شکل میں اس بان استی ذاش كام خود شناسی اور انسان کی فضیات انسان اور بزم قدرت، نظم میں ابتدائی دور کی شاعری کی شکل میں ہیں ۔ خودی کا دوسراعضر عشق عقل و دل نظر میں موجود ہے۔ فوقیت دل کو ہی ہے۔ جب مسلسل ابتدائی کلام میں ہی جد و جہد کے تصورات کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
حقیقت کی تلاش
بقول پروفیسر طاہر فاروقی، اس دور میں اقبال حقیقت کا متلاشی نظر آتا ہے۔ اسکو راز ہائے سربستہ راز کے انکشاف کی بھی ہے۔ قدرت کے مناظر اور مظاہر فطرت کے اسرار کھل کر نا چاہتا ہے۔
تم بتا دو راز جو اس گنبد گرداں میں ہے
موت ال چبھتا ہوا گانا دل انسان میں ہے
"پرندے کی فریاد اور ایک آرزو حقیقت کی تلاش میں لکھی گئی ہیں۔ جو شہرت یافتہ ہے۔
وطن پرستی
علامہ اقبال کی ابتدائی میں وہ ایک کٹر وطن پرست شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ جیسے ”ترانہ ہندی ہندوستانی بچوں کا گیت نیا شوال‘اور’’ صدائے درد وغیرہ۔ اقبال کا دوسرا دور اس را اس وجہ سے اہم ہے کہ ان کے افکار ونظریات میں پختگی آنے لگی۔ اور پی تہذیب کے منی کو انہوں نے محسوس کر لیا۔ پلان پرتی کا احساس مٹ گیا اور اس کی جگہ قومیت پر ان کا ایمان پختہ ہو گیا علمی مصروفیات کے باعث انہوں نے شاعری کونسیت کم وقت دیا۔
رومانویت
یورپ میں قیام کے دوران علامہ محمد اقبال کا ان حسن وعشق کے معاملات اور محبت کی کیفیات کی دل آویزی سے متاثر رہا جیسے " محبت حقیقت حسن پیام حسن و عشق رسال‘‘ اور جلوه حست تمہیں کاش مثالیں ہیں لیکن یہ رومانویت زیادہ دیر تک ان کے ہاں قیام نہ کرسکی پیشکش ایک شاعرانہ تجربہ تھا۔
پیامبری
دوسرے دور کی شاعری میں یورپ کے مشاہدات کا عکس نمایاں ہے۔ یورپ کی ترقی کے پس منظر میں اقبال نے مسلسل جدوجهد حرکت کا مشاہدہ کیا اور اپنے ہم وطنوں کو نظر به زندگی درست کر لینے کی تلقین کی ۔ بقول مولانا عبد السلام ندوی۔ کہ
اسی زمانہ میں ان کا زوایہ نام تبدیل ہو گیا اور انہوں نے شاعری کے بجائے پیامبر کی حیثیت اختیار کر لی۔
اس کی مثالیں طلبہ علی گڑھ نام ایک نظم "چاند اور تارے" کے نام چاند اور تارے نظم میں جو کوشش ناتمام ساری نظمیں پیغام کی حال ہیں۔ مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور بے
عشق کے درد مند طرز مند کا طرز کلام اور ہے
آئی تھی ، گوہ و همدا راز حیات ہے سکون
کہتا تھا اور ناتواں لطف خرام اور ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جوہر نے ذرا کچل گئے ہیں
یورپی تہذیب سے بیزاری
اقبال یورپ کی ترقی سے متاثر ضرور ہوئے مگر یورپی تہذیب سے بیزار بھی ہوئے ۔ انہوں نے اچھی باتوں کو اپنایا اور بری باتوں سے بیزاری کا اظہار کیا۔ دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں کراے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ کی خود کشی کرے گی جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
اسلامی شاعری
علامہ اقبال نے دوسرے دور میں اسلامی نظریہ وفکر کی جانب راغب ہوئے اور ان کی سمجھ میں بات آگئی ک مغرب ک تقلید کو قوم کی نجات اسلای تہذیب اختیار کرنے میں ہے۔ اسی تغیر و تفکر کو ان کے اندرملت اسلامی کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔بقول شیخ عبدالقادر کے نام لکھتے ہیں کہ۔
آٹھ کم ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
شمع کی طرح میں جبیں بزم کہ عالم میں
خود جلیں دیدو اغیار کو بینا کر دیں۔
اسلامی شاعری
اسلامی قومیت کا یہ جذبہ تھا جس نے ان کے تصور وطنیت کو بھی تبدیل کر دیا ہے۔
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا بناء عمارت حصار مت کی اتحاد وطن نہیں ہے
فارسی شاعری کا آغاز
اقبال نے پہلے فارسی ادب اور شاعری کا آغاز کیا، قاری زبان کے وسعت اور اس کے پیرایہ اظہار و بیان کی ہمہ گیری کے ساتھ اقبال کو اپنی شاعری کے وسیع امکانات کی بڑی مطابقت نظر آئی۔ تیسرے دور میں اقبال ایک قومی مفکر کا روپ دھار چکے تھے۔ دہ اور پی وطنیت کے لئے کو رد کرتے ہیں۔ انہوں نے جغرافیائی وطنیت کے نظریے کی مذمت کی اور ملت اسلامی کو ایک قوم کہا۔ مثلا اقبال کہتے ہیں کہ۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
لیکن تیسرے دور میں انہوں نے یہ کہہ کر پرانے نظریے سے دست برداری اختیار کی۔ اقبال نے اسی سوچ کو فلسفیانہ تفکر کے سانچے سے تیار کیا گیا ہے۔
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن کے سارا جہاں ہمارا
اسی دور میں اقبال نے اسلامی شاعری کی داغ بیل ڈالی۔ انہوں نے مسلمانوں کو عظمت رفتہ کی یاد دلائی۔ کو جواب شکوہ شمع اور شاعر طلوع اسلام اور خضر راه“ جیسی عظیم تخلیقات میں علامہ محمد اقبال نے اسلامی نظریات کا پرچار کیا ہے۔
مسلمان کو مسلمان کر دیا طوفان مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
اقبال دینی اور فکری طور پر پوری طرح اسلام کی جانب متوجہ ہو چکے تھے اور اسلام کو ہی وو دنیا کا نجات دہندہ خیال کرنے گئے اور خود اسلام اور شارع اسلام سے اس حد تک وابستہ ہو چکے ہیں کہ ان کی محبت و عقیدت اقبال کی نظم "شفاخانہ حجاز میں تو وہ سرزمین حجاز میں ہی مرنے کی خواہش کرتے ہیں ۔ میں اور تو صدیق بال اور جنگ یرموک کا ایک واقعه بھی نظموں میں پیش کیا ہے۔
بھی یہی خیالات کا بخوبی اظہار ہوا ہے۔ اس دور میں علامہ اقبال نے مغربی تہذیب سے بیزاری کا برملا اظہار کیا ۔ اس دور میں اقبال نے قاری شاعری کی اسرار خودی رموز بیخودی پیام مشرق بھی اسی زمانے کی یادگار ہیں۔ اقبال کی شاعری کے اس دور میں اردو کلام پر بھی فارکی تراکیب کا اثر زیادہ نظر آتا ہے۔ فلن خوری کی تخت وتوضع بھی نظر آ تی ہے۔مثلا علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ۔
تو راز کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہوجا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا