ڈاکٹر سلیم اختر
ڈاکٹر سلیم اختر 11 مارچ، 1934ء کوشَہرِ زِندہ دِلاں لاہور میں پیدا ہُوئے۔ وہ تین بَہنوں (نسیم، شمیم، روبینہ) اور دو بھائیوں (عابد اور خالد) میں سَب سے بڑے تھے۔ اُن کے والِد قاضی عبدُ الحَمید مِلٹری اکاؤنٹس (CMA) میں مُلازِم تھے۔ قیامِ پاکستان کے وقت آپ کے والِد، بیوی بَچّوں کے ہَمراہ اَنبالہ میں رِہائِش پذیر تھے۔ تاہم مُلازمت کے سِلسلے میں مُختلِف شَہروں میں اُن کا تبادلہ ہوتا رہا جِس کی وجہ سے سلیم اختر نے اَنبالہ، پُونہ، لاہور، فُورٹ سنڈیمن، (بلوچِستان) اور راولپنڈی میں تعلیم کے مَدارِج مُکمّل کیے۔
ڈاکٹر سلیم اختر نے فیضُ الاِسلام ہائی سکول راولپنڈی سے 1951ء میں میٹرک کا اِمتحان پاس کیا، 1953ء میں ایف اے اور 1955ء میں بی اے گُورنمنٹ کالِج اصغر مال راولپنڈی سے جب کہ ڈپلومہ آف لائبریری سائِنس، ایم اے اُردو اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جامِعہ پنجاب لاہور سے حاصِل کیں۔
بی اے کرنے کے بعد اُنہوں نے کنٹرولر ناردرن ایریا پِشاور آفِس میں بَطورِ کلرک مُلازمت شُروع کی لیکن طَبعی مُناسَبت نہ ہونے کی وجہ سے کُچھ ہی عرصے بعد اِس مُلازمت سے استعفیٰ دے کر روزنامہ "شہباز" سے وابستہ ہو گئے۔ بعد ازاں اگست 1957ء میں آڈٹ اینڈ اِکاؤنٹس (ورکس) لاہور میں بَطورِ اَپر ڈویژن کلرک مُلازمت حاصِل کی۔ لاہور آکر سلیم اختر نے ستمبر 1957ء میں سرٹیفیکٹ اِن لائبریری سائِنس میں داخلہ لیا جِس کی تکمیل پر پنجاب یُونیورسٹی لائِبریری میں بَحیثِیّتِ لائبریرین اُن کی تعیّناتی ہوئی۔ بعد اَزاں پنجاب پبلک لائِبریری میں بَطورِ لائِبریری اَسِسٹِنٹ بَھرتی ہوئے۔ مُلازمت کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے 1961ء میں سیکنڈ ڈویژن کے ساتھ پنجاب یُونیورسٹی سے پرائیویٹ اُمیدوار کے طور پر ایم اے اُردو مُکَمّل کیا۔ 5 جنوری 1962ء میں ایمرسن کالِج مُلتان میں اُردو لیکچرر کے طور پر آپ کا تَقرّر ہُوا جہاں آٹھ برس تک خِدمات اَنجام دینے کے بعد فروری 1970ء کو آپ گُورنمنٹ ڈِگری کالِج وحدت رُوڈ تبدیل ہو کر آئے۔ دو سال بعد 15 جون 1972ء کو گُورنمنٹ کالِج لاہور آئے اور 10 مارچ 1994ء کو اِسی کالِج سے ایسوسی ایٹ پروفِیسر کی حَیثِیّت سے رِیٹائر ہوئے تاہم وزیٹنگ پروفیسر کے طَور پر اَگلے گیارہ سال تک اِس اِدارے سے وابستہ رہے۔اِس کے عِلاوہ وہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن میں بھی درس وتدریس کی ذِمہ داریاں نِبھاتے رہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ مُختلِف اَوقات میں مُتعدّد اَدبی رِسالوں سے بھی مُنسلِک رہے۔ مزید برآں کُچھ عرصہ فِلم سِنسر بُورڈ میں بھی کام کیا۔
یَکّم اپریل 1962ء کو ڈاکٹر سلیم اختر نے گَھر والوں کی ناپسندیدگی اور شدید اِختلافات کے باوجود سعیدہ بیگم سے شادی کی۔ جِس کے نتیجے میں 23 دسمبر 1962ء کو اُن کے ہاں پہلی بیٹی (سائیکی) کی پیدائش ہوئی، 21 اپریل 1964ء کو دُوسری بیٹی (اِرم) جب کہ 6 فروری 1967ء کو بیٹا (جودت) پیدا ہوئے۔ 1976ء کو اُن کی والدہ اور 1982ء کو والِد اِنتقال کر گئے۔
ڈاکٹر سلیم اختر اُردو کے اُن مَعدُودے چَند نَقّادوں میں شامِل ہیں جو نَقّاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین تخلیق کار بھی ہیں۔ ڈاکٹر سلیم اختر کی پِہچان چار حَوالوں سے ہوتی ہے۔ بَطورِ نَقّاد، اَفسانہ نِگار، نفسیات نِگار اور اُستاد۔ اُن کی کِتاب: "اُردو اَدب کی مُختَصر ترِین تارِیخ" اُردو اَدب کی اَب تک لِکھی گئی تارِیخ میں ایک اَہم حَوالہ تَصَوّر کی جاتی ہے جِسے شُہرتِ دَوام حاصِل ہے۔
ڈاکٹر سلیم اختر اَفسانہ نِگاری میں بھی ایک خاص مُقام رکھتے ہیں۔ اُن کی کہانیوں میں خاصا تَنوّع اور تَلوُّن مَوجُود ہے۔ اِبتدائی دَور میں اُن کے یہاں رُومانی اور جَذباتی قِسم کے مَوضُوعات بھی مِلتے ہیں۔ "ایک مِحبُوبہ ایک طَوائِف، سویٹ ہارٹ اور کَٹھ پُتلی" وغیرہ کا مَوضُوع رُومانی ہے۔ کلَب، ڈانس، شراب، شَباب، جَذباتی محبت، یہ سَب کُچھ اُن کی کَہانیوں میں ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ایک رُومانی رَویّہ ترقّی پَسندوں جیسا بھی اُن میں پایا جاتا ہے اور وہ ہے صُورتِ حال کو بدلنے کی خواہِش۔ "ہم مرکز دائرے، دو راستے ایک پُل اور مَچھر" طبقاتی نِظام کی بَدولت وُجود میں آنے والے اِقتدار پر لِکھے گئے اَفسانے ہیں۔ اِن میں چُھوٹی بڑی مَجبُوریاں، گُھٹّن اور اِجتماعی رَویّوں کی مُختلِف شَکلیں دِکھائی دیتی ہیں۔ اَفسانوی مَجمُوعوں اور ناولوں کے ساتھ ساتھ تنقید، تحقِیق، نفسیات اور دیگر کئی مَوضُوعات پر ڈاکٹر سلیم اختر کی بہت سی ( تقریباً ساٹھ) کِتابیں شائِع ہو چُکی ہیں۔ ذِیل کی سُطُور میں اُن کی تخلِیقات کی فَہرِست پیش کی جائے گی۔
ڈاکٹر سلیم اختر کی تصانیف درج ذیل ہیں۔
تنقید:
اُردو اُدب کی مُختَصر ترِین تاریِخ
اُردو زُبان کی مُختَصر ترِین تارِیخ
اُردو میں تنقِید کا نفسیاتی دبِستان (پی ایچ ڈی کا مَقالہ)
نظر اور نظریہ
اَدب اور کَلچر
اَدب اور لاشُعور
باغ وبہار کا تحقِیقی وتنقِیدی جائِزہ
مِراۃُالعُرُوس کا تنقِیدی جائِزہ
اَنار کلی کا تنقِیدی جائِزہ
پردہِ غفلت اور اِس کا تنقِیدی جائزہ
چھے اَفسانے کا تنقِیدی جائِزہ
اُمراؤ جان ادا کا تجزیاتی مُطالعہ
مِراۃُالعُرُوس کا تَجزِیاتی مُطالعہ
اَنار کلی کا تَجزِیاتی مُطالعہ
چھے اَفسانے کا تَجزِیاتی مُطالعہ
شُعور اور لاشُعور کا شاعِر: غالِب
جُوش کا نفسیاتی مُطالعہ
نفسیاتی تنقید
اَفسانہ: حقِیقت سے عَلامَت تک
شرحِ اَرمُغانِ حِجاز
حیاتِ جاوید
پاکستانی شاعِرات: تخلِیقی خَدوخال
نِگاہ اور نُقطے
تخلِیق، تخلِیقی شَخصِیّات اور تنقِید
عابد علی عابد شَخصِیّت اور فَن
تنقیدی اِصلاحات
بُنیاد پرستی
اَفسانہ اور اَفسانہ نِگار
مَغرِب میں نفسیاتی تنقِید
تنقِیدی دبِستان
داستان اور ناول
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پر لکھی گئی کتب
اقبالیات۔
فِکر اقبال کا تَعارُف
اقبال کا نفسیاتی مُطالعہ
اقبال: شخصیت، اَفکار، تَصوّرات
اقبال کا اَدبی نَصبُ العین
فِکرِ اقبال کے مُنوّر گُوشے
اقبال کی فِکری مِیراث
اقبال شَناسِی کے زاویے
ایران میں اقبال شناسی کی رِوایت
اقبال اور ہمارے فِکری رَویّے
نفسیات پر لکھی گئی کتب۔
نفسیات
شادی، جِنس اور جذبات
ہماری جِنسی اور جذباتی زِندگی
عَورت، جِنس اور جذبات
تین بڑے نفسیات دان
عَورت، جِنس کے آئینے میں
مرد، جِنس کے آئینے
خُوشگوار اور مُطمئِن زِندگی گزارئیے
تخلِیق اور لاشُعوری مُحرِکات
افسانوں ادب پر لکھی گئی کتب۔
اَفسانہ
کڑوے بادام
آدھی رات کی مَخلُوق
مُٹھی بھر سَانپ
کاٹھ کی عَورتیں
چالیس مِنٹ کی عَورت
نرگس اور کیکٹس (اَفسانوی مَجمُوعہ، جو کُل 107 اَفسانوں اور ناولِٹ "ضَبط کی دِیوار" پر مُشتمِل ہے)
سفرنامے
سَفر نامہ
اِک جَہاں سَب سے اَلگ
عَجَب سیر کی
لِسانیات
اُردو زُبان کیا ہے؟
اِنشائیہ کی بُنیاد
طَنزِیہ مَضامِین:
کَلامِ نرمُ ونازُک
ناولِٹ
ضَبط کی دِیوار
آپ بیتی:
نِشانِ جِگرِ سُوختہ
کُلیات
مَجمُوعہ ڈاکٹر سلیم اختر (تنقِیدی وتحقِیقی)
ڈاکٹر سلیم اختر کی عِلمی واَدبی خِدمات کے اِعتراف میں 2008ء کو حُکُومتِ پاکستان کی طرف سے اُنہیں صَدارتی اِعزاز برائے حُسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔
1994ء میں ہزاری باغ کے جلیل اشرف نے "سلیم اختر: بَحیثِیّتِ نَقّاد" کے نام سے تحقِیقی مَقالہ لِکھ کر رانچی یُونیورسٹی بھارت سے پی ایچ ڈی کی ڈِگری حاصِل کی۔ ڈاکٹر سلیم اختر اِس لِحاظ سے ایک مُنفرِد اِعزاز کے حامِل ہیں کہ وہ پاکستان کے پِہلے اور تاحال واحِد نَقّاد ہیں جِن کی زِندگی ہی میں اُن کی تَخلِیقات پر ڈاکٹریٹ سَطح کا کام ہُوا ہے۔ یہ تَحقِیقی مَقالہ کِتابی صُورت میں 1999ء میں لاہور سے شائِع ہوا۔ عِلاوہ اَزیں ڈاکٹر طاہر تونسوی (جو ایمرسن کالِج مُلتان میں ڈاکٹر سلیم اختر کے شاگرد رہے) نے اپنے اُستاد پر تین کتابیں (ہم سَفر بگُولوں کا، ڈاکٹر سلیم اختر: شَخصِیّت وتَخلِیقی شَخصِیّت اور جَہت ساز قَلم کار: ڈاکٹر سلیم اختر) لِکھ کر اُنہیں خراجِ تحسین پیش کی۔
ڈاکٹر سلیم اختر "الجودت" 569 جَہاں زِیب بلاک، عَلامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں 30 دسمبر 2018ء کو 84 بَرس کی عُمر میں اِنتقال کر گئے۔ وہ لاہور میں کریم بلاک اقبال ٹاؤن کے قبرِستان میں آسُودہ خاک ہیں۔
ڈاکٹر سلیم اختر کی مُتَعدِّد کُتب عرصہِ دراز سے اِس ناچیز کی ذاتی لائِبریری کی زِینت ہیں، بِالخُصُوص عِلمِ نفسیات کے مَوضُوع پر لِکھی گئی کِتابُوں سے خاکسار نے اپنے ایم فِل مَقالے کی تکمِیل کے دَوران بہت زیادہ اِستفاده کیا ہے۔ موصُوف کی کِتابیں آج کَل زیرِ مُطالعہ ہیں۔ اَگرچہ اُن کی بیشتر کُتُب تنقِید اور تحقِیق ایسے خُشک مَوضُوع پر ہیں تاہم حَسبِ سابِق اِن تصنِیفات سے اپنی پَسند کی اِقتباسات کی خُوشہ چِینی کا سِلسِلہ اَگلے کُچھ دِنوں تک جاری رہے گا۔