ترقی پسند تحریک کی ادبی خدمات
ترقی پسند تحریک
ترقی پسند تحریک میں حقیقت نگاری
ترقی پسند تحریک کی ادبی خدمات، رومانی ترکی نے ادب اور خیال کی دنیا میں جو انقلاب برپا کر دیا تھا اس نے زندگی کے مالی بوجھ سے نجات حاصل کر کے آسانی رفعتوں میں پرواز کا رجحان پیدا کیا۔ رومانی تحریک کے پہلو بہ پہلو ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظر اتی ہے۔ جو رومانیت کی ضد تھی زندگی کے اسکی رگوں میں پیش کرنے کی سعی کرتی تھی۔ یہ حقیقت نگاری کی تحریک تھی جس نے اساسی طور پر موجود زندگی اور اس کے گرد و پیشں کو اہمیت دی اور اس شعور کو بیدار کرنے کی سعی کی جس سے رومانی ادیب بالعموم اغماض برت رہا تھا ۔ حقیقت نگاری کا زاوی علی گڑھ تر یک کا اساسی جزو تھا۔ انجمن پنجاب کی تحریک نے بھی خارج کے مشاہدے کو حقیقت کی جزئیات سے بیان کرنے کی کوشش کی ۔ بلاشبہ رومانی تحریک نے علی گڑھ تر نیک کے خلاف ری عمل کا اظہار کیا تو بلا واسطہ طور پر حقیقت نگاری پر غالب آنے کی سعی بھی تھی۔ تاہم بیسویں صدی کے اولیں تین عشروں میں حقیقت نگاری کے فروغ کے عوامل بھی موجود تھے۔
یہ زمانہ مارتی اور سیاسی تحریکوں کے لیے اس لیے بھی سازگار تھا کہ عوام اب اپنی جانب دیکھنے پر مائل ہو چکے تھے اور غلامی کا جواتارنے پر آمادہ تھے۔ روس کے انقلاب عظیم نے دنیا کمر کے نچلے طبقے کی آنکھیں کھول دی تھیں اور سماجی انصاف اور مساوات ممکن عمل نظر آنے گئے تھے۔ چنانچہ اس دور میں ہندوستان میں جو تریکیں پیدا ہوئیں ان میں کھلے ہوئے عوام کی طرف زیادہ توجہ ہوئی ۔ حقیقت نگاری کی تحریک نے زندگی کے اس بدلتے ہوئے وار سے کو خورد بینی نظر سے دیکھے اور اسے با واسطے موضوع اون بنایا۔ بیسویں صدی میں اس کی واضح نمود منشی پریم چند کے ادب میں ہوئی۔
منشی پریم چند نے غربت اور افلاس میں آنکھ کھولی تھی ۔ عنفوان شباب میں جب دو ملازمت کے لیے اپنے گاؤں سے کانپور جیسے بڑے شہر میں آئے تو دیبات ان کی شخصیت کا جزو بن چکا تھا۔ چنانچہ جب انھوں نے افسانہ نگاری شروع کی تو اس پس منظر نے ان کی تحریک کو کروٹ دینے میں بہت مدد دی۔ پریم چند اپنی ادبی زندگی کے اولین دور میں ایک خواب کار تے )( د یہات سے گبرت مشارس اور اپے بد ی تریوں سک مطاع نے ان کی تهت بدل دی ۔ انھوں نے زندگی کے بڑے دھارے کو پکڑ لیا اور وہ حقیقی کرداروں کو افسانے میں پیش کہنے لگے۔ پریم چند نے انسانی قدروں کا احترام کیا اور ہندوستان کے مظلوم عوام کو اپنی ذات براتا ر سمای )2( نھوں نے جوگ، اری، کاری، جهالت اور توم پتی کو یایوں کا موضوع بنایا اور ایک عام فرد کی وہانی الجھنوں ، سا بھی بندشوں، معاشرتی پیچیدگیوں اور ان سے پیدا ہونے والے شیعوں اور غموں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ۔ پریم چند کی عطا یہ ہے کہ انھوں نے حقیقت کی نقاب کشائی کی اور انسان کو صداقت کا کھردرا چہرہ دیکھنے پر آمادہ کیا۔ ڈنرسید عبداللہ نے اردو ادب میں چوٹی کے جن تین ناموں کا انتخاب کیا ہے، ان میں سرسید اور اقبال کا نام بھی نمایاں ہے۔
ترقی پسند تحریک کا آغاز و ارتقا
ترقی پسند تحریک کا آغاز و ارتقا، روایتاو قیت ناری ک تریںایک طویل عر صےتک الگ الگ جہت میں کرتی رہیں۔ ترقی پسند تحریک کی ابتدا ہوئی تو یہ دونوں دھارے آپس میں مل گئے چنانچہ ترتی پند تحریک نے اقبال کی رومانیت سے تخلیقی قوت اور جو کی رومانیت سے بغاوت کا جذبہ حاصل کیا۔ پریم چند کی حقیقت نگاری نے اسے زمین کی طرف متوجہ کیا اور ان سب کے امتزاج کو بھی نوع انسان کی بہبود میں صرف کرنے کے لیے ادیب کی قبر کو داخل سے خارج کی طرف پیش قدمی کی راہ دکھائی۔ اہم بات یہ ہے کہ روانی فنکاروں نے تخلیق کے میدان میں داخلی مطلق العندنی حاصل کی تھی اور خارج کر دیئے بغیر اپنی ایک الگ تخیلی و یا داخل میں سنائی تھی۔ لیکن ترقی پسند تھری کے ادبا نے پینی ضرب اخلاقیات پر لگائی اور پھر معاشرے کی چند اہم قدروں کے خلاف علم بغاوت کھڑا کردیا ۔ چنانچہ نمبر ۱۹۳۴ ء میں افسانوں کی کتاب " انگارے" کی اشاعت ہوئی تو معنوی طور پر یہ متذکرہ بغاوت کا اعلان نامہ بھی تھا اور ترقی پسند تحریک که ط ناز بھی۔
انگار نے سے متعلقین میں احمد علی ، سجاد ظہیر، رشید جہاں اور محمود الظفر شامل تھے۔
اور جذباتی انتقاد في تصورات سے بھرے ہوئے تھے۔ ( ۲ ) جان میرا اپنا بیان ہے کہ " انگارے" کی بیش تر کہانیوں میں سنجیدگی اور خوبراو کم اور سا بھی رجعت پرستی اور دقیانوسیت کے خلاف نعض اور ہیجان ز یا دہ تھا ( ۵ ) انگارے کے مصنفین چوں کہ دلیل کا کام جذبات سے لینا چاہتے تھے اس لیے مشرق کے ثقہ مزاج نے انھیں قبول کرنے سے انکار کر دیا اور نیاز فتح پوری اور عبدالماجد در با با وی جیسے مصنفین نے اس کتاب کی مخالفت میں مضامین اور اخبار عزیز احمد نے انگارے کو سانج پر پہلا وحشیانہ حملہ قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ اس کی اشاعت سے نئے ادب نے خودمختاری کا علم بلند کیا (ع)، حقیقت یہ ہے کہ انگارے‘‘ کی اشاعت محض ایک تجربہ تھا۔ اس کتاب میں زندہ رہنے کی قوت نہیں تھی اور اگر اس کی ضبطی کا واقعہ پیش نہ آتا تو شاید یہ کتاب بہت جلد زمانے کی گرد میں گم ہو جاتی۔ انگارے کی ضبطی نے اسے غیر معمولی اہمیت دے دی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اسے تلاش کرنے پر مائل ہوئے اور بقول پروفیسر احمدعلی لوگوں نے اسے چھپ چھپ کر والہانہ پی سے پڑھا(م)“
اس ہنگامے کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ "انگارے“ کے مصنفین نے بھی کتاب کی ضبطی کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے دفاع میں ایک بیان لینڈ میں شائع کیا ( ۹ ) اس بیان کے میں شامل ہے۔
ترقی پسند تحریک کا آغاز
چند اقتباسات درج ذیل ہیں
ترقی پسند تحریک کا آغاز، تقریبا پانچ ماه قبل چار نوجوان مصنفین نے جن میں ایک نوجوان خاتون بھی شامل ہیں ۔ افسانوں کا ایک مجموع" انگارے کے نام سے شائع کیا ہے۔ اس کتاب کے مصنف اس کی اشاعت کی طرح نادم نہیں وہ اتنا چاہتے ہیں کہ نہ صرف یہ کتاب جبکہ ایک اور کتابیں شائع کرنے کا تحفظ باقی رہے... ہماری ملی تجویز یہ ہے کہ ای لیک آف پراگریسو آ تحمر قائم کی جائے جو اس قسم کے مجموعے وقتا فوقتا انگریزی اور ملک کی دوسری مقامی زبانوں میں شائع رہے ہیں۔ اس بیان کی اہمیت یہ ہے کہ اولا اس میں اپنے عہد کے مروجہ نظام کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات موجود ہے۔
اردو میں ترقی پسند کیا گیا اور بعد میں اسی نام سے ایک اہم تر یک موسوم ہوئی ۔" انگارے" نے بلا شبہ مشرق کے تہذنی روایات کو شکستہ کرنے کی کوشش کی اور کتاب کی مضٹی نے اس تلاطم کو تیز تر کرنے میں مدد دی۔ چنانچہ نوجوان او با رومانیت سے ہٹ کر زندگی کے مسائل کے بارے میں سوچنے لگے اور اس کا عملی ثبوت پروفیسر احمد علی نے اپنی نئی کتاب "شعلے میں دیا۔ ہر چند " شعلے، میں " انگارے جیسی گرمی نہیں تھی تاہم جس ترقی پسند انداز کو " انگارے میں اہمیت ملی تھی وہی ”شعلے“ میں کبھی موجود تھا۔ شعلے‘ چوں کہ بغاوت کی پہلی آواز نہیں تھی۔ اس لیے اس بغاوت کو جو رومانی نوعیت کی تھی ، فکری بنیاد مہیا نہ ہوگی۔ دوسری طرف فطرت کے جن پوشیدہ رازوں کو ادب کے ذریعے منکشف کرنے کا آغاز کیا گیا تھا عوام ان کی ضرورت اور اہمیت سے واقف نہیں تھے۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا مقالہ ”ادب اور زندگی‘‘ اکتوبر ۱۹۳۴ ء میں ہندی میں اور جولائی ۱۹۳۵ ء میں اردو میں شائع ہوا تو اس نے نوجوان اور با کی تذکرہ بغاوت کا ناطہ زندگی سے جوڑ دیا اور یوں وو اساس دستیاب ہوگئی جس پر بعد میں ترقی پسند تحریک نے اپنا سفر جاری کیا۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر اختر حسین نے یہ باور کرانے کی کوشش کی گہ۔
اول صحیح ادب کا معیار یہ ہے کہ وہ انسانیت کے مقصد کی ترجمانی اس طر پینے سے مرے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس سے اثر قبول کر سکیں ۔ اس کے لیے دل میں خدمت خلق کا جذبہ پہنے ہونا چاہیے۔
دوم : پر ایمان دار اور صادق ادیب کا مشرب یہ ہے کہ قوم و ملت اور رسم و کین کی پابندیوں کو بنا کر زندگی، بھائی اور انسانیت کی وحدت کا پیغام سنائے۔
سوم: ادیب کو رنگ ونسل اور قومیت اور وطنیت کے جذبات کی مخالفت اور اخوت اور مساوات کی حمایت کرنی چاہیے اور ان تمام عناصر کے خلاف جہاد کا پرچم بلند کرنا چاہیے جو دریائے وانسر اختر حسین رائے پوری کے مندرجہ بالا موقف میں روسی مصنفین طالسطائی اور گھورکی کے تنقیدی خیالات کی بازگشت واضح سنائی دیتی ہے، تاہم اس حقیقت سے انکا ممکن نہیں کہ اردو ادب میں یہ آواز پہلے پیدا نہیں ہوئی تھی اور اختر رائے پوری نے روسی تنقید کے مندرجہ بالا نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کی تو اسے استدلال کی گہرائی سے ثابت بھی کیا۔ چنانچہ انھوں نے ماحول کے نئے تقاضوں کے مطابق ادیب کی آزادی کا حت طلب کیا۔ ادب اور زندگی کے مقاصد کا تعین کیا اور ادب کو زندگی اور ماحول کا تر جمان قرار دیا۔ بادی النظر میں یہ خیالات وہی ہیں جن کا عملی اظهار" انگارے" اور " شعلے‘‘ کے افسانوں اور احمدعلی کے بیان مطبوی اینڈ‘‘ میں کیا گیا تھا ۔ تاہم اختر حسین رائے پوری کو ترقی پسند تحریک کے اولین مشعل برداروں میں شامل کرنا اس لیے ضروری ہے کہ انھوں نے اس تحریک کی تنقیدی جهت تلاش کی اور عوامی بہبود کو ادب کا ایک اہم مقصد قرار دے کر اسے زندگی اور ماحول کی ترجمانی پر مامور کر دیا۔
اختر حسین رائے پوری نے ترقی پسندتحریک کی تاسیس کانفرنس سے کچھ عرصہ قبل مندرجہ بالا نظریات کو روبعمل لانے کے طریقے تلاش کرنے شروع کر دیے تھے اور اپر میں ۱۹۳۷ ء میں ناگپور کے مقام پر ساہتیہ پرشد کا تاریخی اجلاس منعقد ہوا تو انھوں نے اس جلسے میں ادب اور زندگی کا سوال اٹھایا اور نے ادب کی توضیح کے لیے ایک اعلان نامہ پڑھا جس پر مولوی عبد الق، منشی پریم چند ، اچار ہی نریندر د لوی اختر حسین رائے پوری اور پنڈت جواہر حل نہرو نے دستخط کیے۔ اس اعلان نامے کے مندرجہ ذیل نکات بے حد اہم ہیں۔
تمارے خیال میں ادب کے مسائل کو زندگی کے دوسرے مسائل سے علا حد نہیں کیا جاسکتا۔ زندگی ایک مکمل اکائی ہے۔ اور ادب زندگی کا آئینہ اور کاروان حیات کا رہبر ہے... ہم نے یہ تو طے کرلیا ہے کہ ادب که قلب کیا ہو مگر نہیں بتایا کہ اس کے قالب کا روپ رنگ کیا ہو؟
پہلے تو یہ دیکھنا ہے کہ کیا کہتا ہے؟ اور ان سے کہنا ہے؟ کسے کہتا ہے کا سوال بعد میں پیدا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہندوستانی ادیوں سے ہماری یہ توقع واجب اور جائز ہے کہ وہ یہ ثابت کر دکھائیں کہ ادب کی بنیادیں زندگی میں پیوست ہیں۔ زندہ اور صادق ادب وہی ہے جو ان کو بدلنا
چاہتا ہے... اور جملہ بنی نوع انسان کی خدمت کی آرزو رکھتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ملک کا ادب جب زندگی سے اپنے آپ کو وابستہ کرے گا تو زندگی کے ارتقا کا علمبردار ہوگا ( ڈاکٹر اختر رائے پوری کے اس اعلان نامے میں نہ صرف ادب کو ایک مخصوم سا بیافرین سونپا گیا ہے بلکہ اس میں قاری کی تو میں بھی کی گئی ہے۔ چنانچہ جہاں ادیب کو غریبوں اور مظلوموں کی ہے کی زائل کرنے کا مشورہ دیا گیا وہاں یہ بھی واضح کیا گیا کہ ادب کا موضوع غریب لوگ ہیں اور انھیں کی حالت بدلنے سے تاج عروج کی راہ دیکھ سکتا ہے۔ پس ادب کا وو قاری جے ادب کی تخلیق کے وقت پیش نظر رکھنا ضروری قرار دیا گیا غریب عوام کی تھے۔ ڈاکٹر اختر کے ان تصورات کی بازگشت مستقبل میں سامنے آنے والی ترقی پسند تحریک میں متعدد مرتبہ سنی گئی اور اس تحریک کا باضابطہ منشور سامنے آیا تو اس میں بھی ان کی صدا موجودتھی۔
ترقی پسند تحریک اردو ادب کی اولین تحریک تھی جس کے لیے ایک باضابطہ منشور تور کیا گیا۔ علی گز هتریک ایک فقال تحریک تھی اور اس نے ادب کو شدت سے متاثر کیا۔ تاہم اس تحریک نے جماعتی انداز میں ادب کی تخلیق کے بارے میں کوئی فیصلہ نافذ نہیں کیا۔ بیسویں صدی کے ربع چہارم سے پسینے ادب کی تخلیق ایک انفرادی عمل تھا اور ادبا کی پہچان ان کے منفرد ادبی کارناموں سے ہوتی تھی۔ ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے اردو ادب کو جن مسائل سے آشنا کرایا ان کے حل کے لیے ان کی کاوش کی ضرورت تھی چنانچہ ایک باضابل تنظیم کی ضرورت حق جوئی اور اسے سید تا خمیر نے معرض وجود میں لانے کے لیے عمده خدمات سرانجام دیں۔ ترقی پسند تحریک میں سجاد ظہیر کا نام اساسی حیثیت رکھتا ہے۔ اس تحریک کا عروج ان کی کی تنظیمی صلاحیتوں کا مرہون منت ہے۔ انھوں نے اسی تحریک کو سیاسی خطوط پر چلانے کی کوشش کی اور باوجود یکہ جا ظہیر نے ادب سے زیادہ سیاست میں ( ۳ ) اہم مقام حاصل کیا تاہم ان کی وقت تک تحریک انھیں کے نام سے موسوم ہوئی نتیجہ یہ ہوا کہ احمد علی اور اختر حسین رائے پوری جنھوں نے ابتدائی دور میں ترقی پسند نظریات کے فروغ میں نمایاں خدمات سرانجام دی تھیں پری طرح آنکھر کر سامنے نہ آ سکے۔
ابوظہبی لکھنو کے ایک اونچے گھرانے کے چشم و چراغ تھے ( 7 ) ان کے والد سروزی حسن ملک کی سرکردہ سیاسی شخصیات میں شمار ہوتے تھے۔ چنانچہ اوائل عمر میں ہی حافظہیر کو ملک کے بڑے بڑے سیاسی رہنماوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ( 5 ) کالج کی تعلیم کے دوران وہ : طول فرانس اور برٹرینڈ رسل سے متاثر ہوئے اور یورپ میں تعلیم کے دوران انھیں کمیونزم پر کتابیں پڑھنے اور اس تحریک کے رہنماؤں سے ملنے کا موقعہ ملا تو ان کے خیالات میں انقلابي تبدیلی آگئی اور وہ کمیونزم میں پوری طرح مبتلا ہو گئے ۔ آکسفورڈ کے قیام کے دوران سیا ظہیر کی سیاسی سرگرمیوں کو اہمیت حاصل ہوئی ۔ انھوں نے طلبائے ہند کے نام سے ایک جماعت بنائی اور فرانکفرٹ میں فسطائی کانفرنس میں شرکت کی تعلیم کے آخری چند سالوں میں انھوں نے زیادہ وقت رالف فاکس اور ڈیوڈ گیر بیٹ جیسے مارسی ادب کی محبت میں گزارا ( ۱ ) یوں ان کظریات می جتی اورستقبل سک ارادوں ش تنظویت پدا ہوی ور ان ک نوجوان سین میں آرزوؤں کا امنڈتا ہوا اطوقان بین الاقوامی ہیجان کے پس منظر میں پروان چڑھتا گیا۔
باہمیز کی زندگی میں ۱۹۳۵ ء کا سال بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس سال انگریز کی حکومت نے میونسٹ پارٹی آف انڈیا کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرلیا اور اور گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کی کی معیار پر کی وزارتیں قائم ہوئیں ۔ لندن کے ایک ریستوران میں ترقی پند معقوں کے جاتے ہیں۔ اس کے بارے میں انجمن کا پہلا اعلان نامہ تیار ہوا جسے آ خری شکل دینے میں ژانر ملک راج آنند، و استر جیوتی پرشاد، پر مودمین گیت ، وامر من شیر اور سیانا میں نے حصہ لیا۔ اسی سال جولائی میں پیروں میں آندرے مارلو، رومن رولاں اور گورکی کی رہنمائی میں ایک بین الاقوامی کانفرنس ہوئی جس میں انفرادیت کو خیر باد کہہ کر اجتھے کی سطح پر کام کرنے کی تحریک کی گئی اور ادیب کے آزاد خیال و رائے کے تحفظ کے لیے پوری طاقت استعمال کرنے اور متحدہ محاذ کا جزو بن کر محنت کش طبقے کا تعاون حاصل کرنے کا عہد کیا گیا ۔ ( 2 ) جا ظہیر اس کا نفرنس کی کامیابی سے بے حد متاثر تھے۔ چنانچہ انھوں نے لندن کی ترقی پسند انجمن کو اس بین الاقوامی مرکز کے ساتھ مت کرنے کا فیصلہ کیا اور ارادہ کرلیا کہ ہندوستان میں یہ انجمن قائم ہوتو مرکزی انجمن کی ہدایات کے مطابق پیر ونجات میں ہندوستانی ادب کی نمائندگی کرے ( ۸ ) چنانچہ سجاد ظہیر نے ہندوستان میں ترقی پسند انجمن قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی اور تانگ ریستوران کے اعلان تا ے کا مسودہ ہندوستان بھجوایا اور جب واپس وطن آئے تو ہندوستانی او با گو ہم خیال بنانے کے لیے ان سے نامہ و پیام کا سلسلہ جاری کر دیا۔
گزشتہ اوراق میں یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ احمد علی کے افسانوں اور اختر حسین رائے پوری کے مقالہ ”ادب اور زندگی نے ہندوستان میں ترقی پسند نظریات کے فروغ کے لیے زمین ہموار کر دی تھی۔ چنانچہ جب سجاد ظہیر کے اعلان عامہ کی نقل یہاں پہنچی تو اس پر کسی حیرت کا اظی نہیں کیا گیا بلکہ بیش تر ادبا نے جن میں منشی پریم چند، حسرت موہانی، مولوی عبد بحق ، ڈاکٹر عابد حسین، نیاز فتح پوری، جوش ملیح آبادی، قاضی عبدالغفار علی عباس حسینی اور فراق گورکھ پوری جیسے او با شامل تھے۔ اس پر دستخط کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ حافظہیر کا یہ اعلان نامہ ترقی پسند تحریک کا اق میں اعلامیہ مجھا جاتا ہے اس کے چند اہم اقتباسات درج ذیل ہیں ۔
اس وقت ہندوستان میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں. پرانے تبنی و ڈھانچوں کی شکست و ریخت کے بعد سے اب تک ہمارا ادب ایک گونه فراریت کا شکار رہا ہے۔ ہندوستانی او میچوں کا فرض ہے کہ وہ ہندوستانی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھر پور اظہا ر کر ہیں اور ادب میں سائنسی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا بھر پور اظہار گھر میں اور ادب میں سائنسی عقلیت پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ترقی پسندوں کی حمایت مر ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ اس قسم کے انداز تنقید کو فروغ دیں جس سے خاندان ، منذ ہب بنس، جنگ اور ان کے بارے میں رجعت پسندی اور ماضی پرستی کے خیالات کی روک تھام کی جا سکے۔ ان کا فرض ہے کہ وہ ایسے ادبی رجحانات کونشو و نما پانے سے روئیں جو فرقہ پیتی نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی حمایت کرتے ہیں. ہم چاہتے ہیں کہ ہندوستان کا نیا ادب ہماری زندگی کے بنیادی مسائل کو اپنا موضوع بنائے ۔ یہ جھوک، پیاس، سامی پستی اور غلامی کے مسائل ہیں۔
ہم ان تمام آثار کی مخالفت کریں گے جو ہمیں لاچاری سستی اور توہم پرستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ ہم ان تمام باتوں کو جو ہماری توتو تنقید کو ابھارتی ہیں اور رسموں اور اداروں کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتی ہیں۔ تغیر اور ترقی کا اور یہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں ( ۱۹ ) اس اعلان نے پر ایک نظر ڈالیں تو یہ بے حد خوش آ مند نظر آتا ہے۔ اس میں ادب کونسلی تعقب ، فرقہ پرستی اور انسانی استحصال کے خلاف استعمال کرنے اور اسے عوام کے قریب تر لانے کا عمید بھی نمایاں ہے۔ اس میں سائنسی شعور کو بیدار کرنے کا جذبہ بھی موجود ہے۔ اس بات سے کوئی نئے دار ادیب انکار نہیں کرسکتا کہ ادیب کا شعور معاشرے کو تنقیدی نگاہ سے دیگیت ہے، وہ اس کی خامیوں اور خوبیوں سے نصرف واقف ہوتا ہے بلکہ ان کا تاثر بالواسطہ طور پر اس کی تحقیقات میں بھی سنا جاتا ہے اور یوں معاشرے کو آہستہ روی سے تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا اعلامیہ ہندوستانی مصنفین کو معاشرے کی بہترین روایات کا وارث قرار دیتا ہے۔ تاہم اس میں خاندان، مذہب اور چینی کی عائد کردہ پابندیوں کو درخور اعتنا نہ بجھنے کی آزادی ہو۔ اس اعلان نامے نے موجود کی ہیئت ترکی کو منتشر کرنے کا اہتمام ہو گیا لیکن اس انتشار سے تعبیر بھارنے کی سعی نہیں کی ۔ متی وہ منزل جسے پانے کی آرزو ترقی پسند تحریک نے کی تھی۔ مے تک خیالی سرابوں میں گم رہی اور ادب ایک دنا و یزی رو نی خواب می بکورے لیے گ چن ا تبدی اورتی ک ال قدر جذ بات باوجود اس اعلان جانے کے اجمال میں اجتماع ضدین بھی موجود ہے۔ ترقی پسند تھی تین او وار مشتمل ہے۔
پہلا دور: تاکنگ ریستوران لندن کے الان بنانے سے حافظہیر کی گرفتاری تک ( ۱۹۳۶ - ۱۹۳۰ ) دوسرا دور : سجاد ظہیر کی رہائی سے آزادی پاکستان تک ( ۱۹۴۲ ء ۔ ۱۹۴۷ )
شیرا دور طوع آزادی س سیای پاندی اور ن منشورکی اشاعت ک )۱۹۴ء -۱۹۵۲( ترقی پسند تحریک کی ابتدا اگر چه نامساعد حالات میں ہوئی تھی۔ تاہم ہندوستان میں اس تبدیلی کو قبول کرنے کے لیے فضا موجود تھی۔ چنانچہ ترقی پسند تحریک کو پہلے دور میں ہی فقال حیثیت حاصل ہوئی اور اس نے ملک کی عام ادبی فضا میں تحریک اور رومل پیدا کیا۔ ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کا نفرنس ۱۵ اپریل ۱۹۳۲ ء کو گھر میں منعقد ہوئی ۔ ( ۲ ) اس کانفرنس کی صدارت منشی پریم چند نے کی ۔ اس کانفرنس میں پڑھی جانے والی چیزوں میں سب سے اہم نشی پریم چند کا خطبہ صدارت تھا جس میں انھوں نے ادب کی دائمی قدروں کو اجاگر کیا اور حسین تر بنا دیا۔
جس ادب سے ہمارا فوت می بیدار نہ ہو، روحانی اور پانی تسکین نہ کرے، وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں بوست. ادب آرانٹ کے روحانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آ گئی حسن کی تخلیق کرتی ہے تخریب نہیں ... ادب ہماری زندگی کو قطری اور آزاد بناتا ہے. اس کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔ یہ اس کا
ملے، ہم میں قوت اور حرکت پیدا نہ ہو، ہمارا جذبہ حسن نہ جائے، جو ہم میں کیا ارادہ اور مشکلات پر فتح پانے کے لیے پا استقلال نہ پیدا کرے، وہ آج ہمارے لیے بیکار ہے۔ اس پر ادب کا اطلاق نہیں بوست. ادب آرانٹ کے روحانی توازن کی ظاہری صورت ہے اور ہم آ گئی حسن کی تخلیق کرتی ہے تخریب نہیں ... ادب ہماری زندگی کو قطری اور آزاد بناتا ہے. اس کی بدولت نفس کی تہذیب ہوتی ہے۔ یہ اس کا مقصد اولی ہے۔
اور دال میں خلیج پیدا کرنے کے بجائے اس میں توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی تلقین کی۔ انھوں نے نہایت حسن اور روحانی تسکین کو سب سے زیادہ اہمیت دی۔ اہم بات یہ ہے کہ پریم چند نے معاشرے کو منقلب کرنے کے لیے ادب کو ایک اہم وسیلہ قرار دیا لیکن ادیب کو اپنا مذہب چھوڑ نے ، خاندانی اکائی کو منتشر کرنے اور جنسی انارکی میں آلودہ ہونے کا مشورہ نہیں دیا۔ بالف نظر دیگر پریم چند نے ترقی پسند تحریک کو توازن اور اعتدال کی راہ دکھائی اور انھوں نے ادب کا جو فطری نصب این مقرر کیا وہ معاشرے کے خارج اور فرد کے داخل کو یکساں طور پر متاثر کرسکتا تھا۔ چنانچہ سید سجاد ظہیر نے اس صدارتی خطبے کی تعریف کی اور لکھا کہ "میرا اب بھی یہ خیال ہے کہ ہمارے ملک میں ترقی پسند تحریک کی غرض و غایت کے مطلق شاید اس سے بہتر کوئی چیز ابھی تک نہیں لکھی گئی ہو۔
سید سجا ظہیر کے اس اعتراف کے باوجود یہ کہنا مناسب ہے کہ پریم چند کے صدارتی خطبے اور ترقی پسند تحریک کے لائی عمل میں بعد مشر قین تھا ۔ اول الذکر ادب کی مشرقی قدروں کو اجاگر کرتا ہے، فرد کی تخلیقی آزادی کو برقرار رکھتا ہے اور اسے سیاست کا تابع فرمان ہونے کا مشورہ نہیں دیتا۔ جبکہ موخر الذکر انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لیے خارمتی سطح پر متحرک ہونے اور ادب و بجمالیات کا نیا غیرمشرقی مفہوم پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ چنانچہ کانفرنس کے ماتھے پر جب منشور کو معمولی رد و بدل کے بعد منظور کر لیا گیا تو اس میں منشی پریم چند کے خطبہ کر کے اپنے مقاصد کی تبلیغ کرنا۔
صدارت کی بازگشت موجود نہیں تھی اور انجمن کے جو مقاصد طے کیے گئے وہ حسب ذیل تھے۔
اول: تمام ہندوستان کے ترقی پسند مصنفین کی امداد سے مشورتی جلسے منعقد کرنا اور لٹریچر شائع کر کے اپنے مقاصد کی تبلیغ کرنا۔
دوم: ترقی پذیر مضامین لکھنے اور ان کا ترجمہ کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور رجعت پند رجحانات کے خلاف جدوجمد کر کے اب ملک کی آزادی کی کوشش کرنا۔ سوم: ترقی پذير مصنفین کی مدد کرنا۔
چہارم: آزادی رائے اور آزادی خیال کی حفاظت کی کوشش کرنا ( ۳۳ )۔ به مقاصد ظاہر کرتے ہیں کہ ترقی پسند تھر میں ادب کے ذری تبلیغ اور عملی جدو جہد کے ذریعے ملک میں انقلاب لانے کی آرزو مند تھی۔ تحریک کے اولین محرک باد ظہیر چوں کہ کمیونسٹ تھے اس لیے مقاصد کی زمیں میں ان کی نظریات کو زیادہ اہمیت ملی اور اس تحریک کی جهت روز اول سے ہی میونزم اور اشترائیت کی طرف مڑگئی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک نے آزادی رائے کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا تھا ، لیکن ادب کی تخلیق کے معاملے میں ادیب کو پا بہ زنجیر کردیا گیا اور اسے ایک مخصوص وضع کا ادب پیدا کرنے اور ایک خاص نظریے پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کیا جانے لگا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس تحریک کے فروغ عام سے پہلے ہی اس کی مخالفت نمایی می پر شروع ہوگئی ۔ چنانچہ اخبار اسٹینس مین نے ترقی پند تخری کوشش ایک پردہ قرار دیا جس کی آڑ میں اشتراکیت کی تبلیغ اور اشتراکی پارٹی کی تنظیم کی جا رہی تھی۔ ( ۳ ) سجاد ظہیر نے "روشنائی میں اور علی سردار جعفری نے ترقی پند ادب میں اس مخالفت کو غیر جمہوری اور رجعت پسندانہ قرار دیا ہے تاہم جس طرح انگار نے کمیٹی نے اس کتاب کو غیر معمولی اہمیت دے دی تھی اسی طرح متذکه اخبار کی مخالفت نے ترقی پسند تحریک کو پڑھے لکھے طبقے سے روشناس کرانے . میں بڑی مدد دی۔ سجاد ظہیر لکھتے ہیں کہ ہم نے مختلف اخباروں اور رسالوں میں مضامین اور بیانات شائع کے ... اور اپنے تمام خبروں اور ہمدردوں کے سامنے انجمن کی میں پوزیشن واضح کی ( ۲۵ )"
چنانچہ اخبارات میں بحث و نظر کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا اور بہتر یک فوری طور پر عوام کی توجہ کا مرکز بن گئی ۔ اس ابتال سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ اس تحریک کی اولین مقبولیت میں ادب کی بہ نسبت سیاست کا عمل دخل زیادہ تھا اور تحریک کا ادب تخلیق ہونے سے بہت عرصہ پہلے اس کی سیاسی جہت سے اختلاف رائے پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔
یہاں اس بات کا اعتراف ضروری ہے کہ اس مخالفت کے باوجود ترقی پسند تحریک نے اپنے نظریات کی تبلیغ اور مقاصد کے حصول کی جد و جہد جاری رکھی اور حالات کا مقابلہ مردانہ وار کیا۔ چنانچہ ۱۹۳۸ ء کے وسط تک ترقی پند تحریک نے لا بورکھو اور حیدر آباد دکن میں اپنے مراکز قائم کر لیے۔ اس عرصے میں اردو اور ہندی او میچوں کی تعین کا نفرنسیں منعقد ہوئیں۔
تحریک کے نظریات کو فروغ دینے کے لیے ایک انگر یز ی سہ ماہی رساله نیوانڈین ان پر جاری کیا گیا۔ متعدد مقامات پر کارکنوں کے جلے ہوئے ۔ کسان کانفرنسوں میں اس تحریک کے مقاصد کی نشر و اشاعت کی گئی ۔ ۱۹۳۸ ء میں کلکتہ میں ایک کل ہند کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاحی خطبہ رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا ( ۳۹ )۔ اس سب کے باوجود ایک نام زیر بھی موجود تھا اور اسے بپا کرنے میں تحریک کے کارکنوں سے شکوک و شبہات کامل علی بھی شامل ہے۔ ترقی پسند تحریک میں داخلی انتشار کی اولین نمود اس وقت ظاہر ہوئی جب تحریک کے بانیوں میں اختلافات رونما ہونا شروع ہو گئے۔
حافظہیر کا بیان ہے کہ علی سردار جعفری، سبط حسن اور میز وغیرہ جو تحریک کے شوریدہ سرملغ تھے، احمد علی کے آرٹ کو مشتہ نظروں سے دیکھتے تھے (ع) اور انھیں پسند نہیں کرتے تھے احمد علی نے لکھا ہے کہ تحریک کے سیاسی مربیوں کا کہنا یہ تھا کہ ادب پرولتاریہ ہونا چاہیے۔ کسی ادبی تحر یک کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ مصنفوں کے ہاتھ جگر دے اور ان کے حق رائے اور تحریر کی آزادی کو چھین کر اسے ایک مخصوص نظریے پر عمل پیرا ہونے پر مجبور کرے۔ بادظہیر ، عبدالعلیم اور محمود الظفر کو یہ بات قبول نہیں تھی ، لیکن مجھے ان کا اپنی نظری قبول نہیں تھی ( 3 ) احمدعلی کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ ترقی پسند تحریک نے مخصوص نظریات کی تبلیغ کے لیے بہت جلد اپنی رویہ اختیار کر لیا تھا اور جو او با اسے قبول کرنے سے گریزاں تھے ان پر ترکی کے دروازے بند ہونا شروع ہو گئے ۔ یہ کہ اس حقیقت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ جب تحریک کی مخالفت اس کے سیاسی نظریات کی بنا پر ہوئی تو ادبا کے ایک طبقے نے منشور میں مناسب ترمیم کی تجویز پیش کی لیکن تحریک کے رہنماؤں نے اس تجویز کو ماننے کے بجائے بعض رفقا کی متوقع علاحدگی کو قبول کر لیا ہے۔
ایک ادبی تحریک میں سیاسی نظریات کے فروغ کو باعث انتشار قرار دیا ہے۔ تذکرہ او با میں چوں کہ احمد علی نسبتا بلند مقام رکھتے تھے۔ اس لیے یہ قیاس کرنا درست ہے کہ ان کی اولی برتری کو سیاست پند نوجوان او با نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک راج آنندگی معالی ان کوششوں کے با وجود مخالفان نظریات میں نقط اتصال تلاش نہ کیا جا سکا اور اپنی انفرادیت
قائم رکھنے کے لیے احمد علی اس تحریک سے عملا علاحدہ ہوگئے ۔ احمد علی کی علاحدگی ترقی پسند تحریک کے لیے کاری ضرب نہیں تھی۔ اس تحریک نے اب اتنی اہمیت اختیار کرلی تھی کہ اس کے مضبوط اجتماعی نظام پر افراد اپنی ذاتی حیثیت میں کچھ زیادہ اثر انداز نہیں ہو سکتے تھے۔
وہ حالات کے ساتھ مصیحت کرنے کے بجائے حالات کا وصارا موڑنے میں زیاده و پی لیتے تھے۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ احمدعلی کے اختلاف نے ترقی پسند تحریک کو دو دبستانوں میں تقسیم کر دیا۔ ان میں سے ایک داستان نظریاتی اور سیا ہی تھا اور اس کی نمائندگی جادو ظبی ، علی سردار جعفری اور ڈاسٹر عبد العلیم کرتے تھے۔ دوسرا دبستان غیر نظریاتی اور ادبی تھا اور اس کی نمائندگی احمد علی اور اختر حسین رائے پوری نے کی ۔ تحریک کا سین کی داستان زیبا و منظم فقال، سرگرم اور مستعد تھا اور اس نے مستقبل پر اثرانداز ہونے کی سعی کی ۔ موخر الذکر دلبستان غیرمنظم اور منتشر تھا اور اس کے ادبا نے اپنی ادبی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے انفرادی سطح پر تخلیقی کام کیا۔ ان او با کے فن نے پریم چند کے خطبہ صدارت سے روشنی حاصل کی اور خارجی حقیقت کو بجمال فن سے پیش کرنے کی کوشش کی۔ ترقی پسند تحریک کے اول الذکر دبستان میں بالعموم وہ نوجوان شامل تھے جو ادب میں اپنا مقام پیدا کرنے کے لیے مناسب موقع اوریل کی تلاش میں تھے۔ چنان تر بیک کے آغاز میں نے ادبا کا جو گروہ سامنے آیا۔ ان میں سبط حسن، کرشن چندر، حمایت اللہ انصاری ، خواجہ احمد عباس، اوپندر ناتھ اشک، سلام مچھلی شہری، مسعود اختر جمال ، عصمت چتائی، اختر انصاری و لوی، فیض احمد فیض ، مخدوم محی الدین، احتشام حسین محسن عبدالله علی اطهر، شهاب ملیح آبادی، اسرار الحق مجاز معین احسن جذبی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس دبستان نے تحریک کے ابتدائی ایام میں ملک کے بیش تر بڑے آدمیوں کو اپنے ساتھ شامل کر لیا۔ لیکن جونہی اس تحریک کے نظریات کو فروغ حاصل ہوا اور اس کے قدم جم گئے تو پرانے او با پس منظر میں چلے گئے اور ان کی جگہ نئے ادبا نے لے لی ۔ ترقی پسند تھری کے فروغ کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اسے نہ صرف آغاز میں نیا خون وافر مقدار میں مہیا ہوگیا بلکہ مرور ایام کے ساتھ اس میں مزید تازہ خون بھی شامل کیا گیا۔ چنانچہ ۱۹۴۷ ء تک جو لوگ ادب کے مطلع پر نمودار ہوئے۔ ان میں سے بیش تر کا تعلق ترقی پسند تحریک کے ساتھ ہی تھا( ۳ )۔ اور بھی ادب کی سب اصناف میں قلم آزمائی کر رہے تھے۔ تاہم ادب کے اس انبوہ میں سب او با صف اول کے ادیب نہیں تھے اور جب وقت کا تنا خظر بدل گیا تو ان میں سے بیشتر استان ادب کی پہنائیوں میں گم ہو کر رہ گئے۔
حقیقت یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک نے ادب میں سیاست کا نقطہ نظر آزمانے کی جو کوشش کی تھی، اس نے اس تحریک کا دائرہ تخلیق بہت محدود کر دیا تھا۔ اگر چہ سجاد ظہیر نے اسے ایک و بی تحریک کیا اور اس کی اساس حب الونی ، انسان دوستی اور آزادی پر رکھی (ص) اور اسے ایک سیاسی پارٹی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ( ۳ ) تا ہم تحریک سے ایک اور اہم رکن علی سردار جعفری نے برملا اعلان کیا کہ سیاسی تحریکوں کے ساتھ وابستگی ہمارے ادبی ورثے میں آئی ہے اور ترقی پسند ادب کی کشتی میں سیاست پڑی ہوئی ہے ( ۳ ) احمدعلی کا بیان ہے کہ ترقی پسندوں کا یہ نظر یہ تھا کہ ترقی کے معنی اشتراکیت کی طرف بڑھنا ہے ( ۳ ) ممتاز حسین نے لکھا ہے کہ که ترقی پسند تحریک کی بنیاد اس طبقے کے قلنے پتھی جو باہر سے لایا گیا تھا یعنی مارکسزم پڑھی ( ۳۵ ) مؤخر الذکر تین شہادتوں کی بنیاد پر جادظہیر کا مندرجہ بالا بیان ترین قبول نظرنہیں آتا۔ چنانچہ ترقی پسند ترکی کے سیای زاویے کی اہمیت کسی دور میں بھی کمزور نہیں ہوئی اور اس کا ید ہی نتیجہ یہ ہوا کہ ادب نے خارجی حقائق کو بلا واسطہ طور پرس کرنا شروع کردیا اور جذبے کا آئینہ آ ہستہ آہستہ دھندلا ہوگیا۔ اس کی انتہائی صورت ہی تھی کہ ادیب کی عظمت سیاسی ، سماجی اور جنسی الجنوں کی تنقید سے عبارت ہونے لگی اور عظیم اور بلند پایہ ادب کی تخلیقی دوای قدروں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے ہنگامی موضوعات کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ( ۳۹ )۔ ترقی پسند تحریک کی متذکرہ سیاسی جهت انگریزی حکومت سے پوشیدہ نہیں تھی اور جب دوسری جنگ عظیم چھری تو تحریک کو میونسٹ پارٹی کا حصہ قرار دیا گیا اور جا ظہیر علی سردار جعفری اور عبد العلیم وغیرہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ چنانچہ ترقی پند تریک تعطل کا شکار ہوئی اور جو او با جیل سے باہر تھے ان میں سے کئی ایک نے انگر یز ی افواج یا حکومت کے دوسرے اداروں میں
ان میں حاصل کرلیں ( ۳ )۔ ترقی پسند تحریک کا پہلا دور ۱۹۳۲ ء سے ۱۹۴۰ ء تک چھیڑا ہوا ہے۔ بقول آل احمد سردتر یک کے پہلے پانچ سال ادبی اہمیت سے ز یا تبلیفی اہمیت رکھتے ہیں۔ ( ۱ ) اس زمانے میں حرکت اور جمود کے سوال کو اہمیت حاصل ہوئی ۔ ادب اور مقصدیت کا مسئلہ حل کرنے کے لیے او میر وسایی فرائض ہونے گئے اور لفظ کے گرد جو جذباتی دائر و تور گردش کر رہا تھا اس کا تھر تو ز کر اسے سادہ اور اکبر سے انداز میں استعمال کرنے کا رجحان پیدا ہوا اس دور میں ترقی پسند تھر کی ایک تجرباتی دو میں سے گزر رہی تھی۔ چنانچہ اس کے بیش تر نظریات بحث و تنقید کا موضوع بن گئے ۔ اس گہما بی میں بہت زیاده پردازی ۔ تا ہم ترقی پسند تحریک کو مقبول بنانے میں یہ تقید بہت مفید ثابت ہوئی ترقی پسند تحریک کا دوسرا د ور ۱۹۳۲ ء سے ۱۹۴۷ ء تک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں جنگ عظیم ہندوستان کے دروازے پر پہنچ چکی تھی۔ برطانوی سامراج چوں کہ آخری چھٹی لے رہا تھا اس لیے سیاسی جماعتوں نے اپنی جد و جہد تیز تر کر دی۔ برصغیر کی تاریخ کا یہ زمانہ شدید ترین سیا اور سماجی آوینیش کا زمانہ تھا۔ چنانچ ۱۹۴۲ ء میں جب سجادظہیر قید سے رہا ہوئے تو وہ کچھ عرصے تک تحریک کے لیے کوئی لائیکل سوچ نہ سکے ۔ روس پر ہال کے عملے نے ان کے سابقہ سیاسی نظریات کی کایا پیٹ دی تھی ۔ اشتراکیوں کے نزدیک جنگ عظیم ایک ایسی عوامی جنگ میں بدل چھی تھی، جس کے ساتھ بین الاقوامی سوشلزم کی فی مسلک تھی ۔ ( ۲۹ ) بلاشبہ برطانوی سامراج اپنی توپوں کے لیے اندرون ہند سے ایندھن فراہم کر رہا تھا۔ اس کے باوجود ہندوستان کے اشتراکیوں کو ایشیا کے گلوم مالک کی آزادی کا خواب اتحادیوں کی وقت کے ساتھ منسلک نظر آنے لگا اور ان کی ہمدردیاں انگریزی حکومت کے ساتھ ہو گئیں۔
ملکی انتشار اور فکری افراتفری کے اس عالم میں سجا ظہیر نے ترقی پسند تحر یک کو دوبارہ منتظم کرنا شروع کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اس تحریک میں ہشتم کے نظریات کے لوگ شامل ہو سکتے ہیں ۔ شمالی ہندوستان کے بیش تر او با اس تحریک کی سیاسی جہت سے آشنا نہیں ہوئی تھی اور وہ ادب کو بلیغ کا وسیلہ بنانے کے بجائے اسے حسن اور صداقت کے بیکس پریم چند
تھے۔ ان ادبا کی ادبی تربیت ماہنامه ادبی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین احمد کے زیر اثر کے ادنی موقف کے ہم نوا تھے۔ چنانچہ جب ترقی پسند تحریک کے رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تو اسے ترقی پندتر یک پرتما تصور نہیں کیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ آل انڈیا ریڈیو کے ملازم او یوں اور
ظہیر کے درمیان بھی اجنبیت کی ایک دیوار کھڑی تھی ۔ اس صورت حال کی ایک دلچسپ تجبير اس وقت سامنے آئی جب ۱۹۳۴ ء میں دہلی میں ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس میں کرشن چندر نے مولانا صلاح الدین احمد قیوم نظر ، میرانی ، حفیظ جالندھری اور عبد المجید سالک وغیرہ کو بھی جواس تحریک کے مقاصد سے متفق نہیں تھے ، مدعو کرلیا۔ چنانچہ یہ واضح کرنا مشکل ہوگیا کہ یہ مصنفین کی کانفرنس تھی۔
اس کانفرنس کا ایک اہم نتیجہ وہ قرارداتھی جسے تمام مصنفین نے متفقہ طور پر منظور کیا اور جس میں فاشزم کی مخالفت اور امن عالم کے لیے اتحادی اقوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا گیا۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہے کہ انسانی بہبود کا مسئلہ صرف ترقی پسند ادب کا مسئلہ نہیں تھا بلکہ اس میں برصغیر کے ہر طبقے خیال کے او با شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کانفرنس میں انسان کی بنیادی آزادی کا سوال اٹھایا گیا تو کوئی مخالفانہ آواز نہ بھری اور قرار داد دبلی پر غیر ترقی پسند ادب کا اتفاق رائے اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ وہ زندگی اور سماج کے تقاضوں سے غافل نہیں تھے اور حافظہیر کا یہ خیال قل نظر ہے کہ ان لوگوں کا ترقی پسند ادبا نے
اختلاف در اصل ایک پردہ ہے جس کے پیچھے موقعہ پرستی کو چھپایا گیا تھا(س) ترقی پسندتحریک نے وقتا فوقتا مختلف مقامات پر کانفرنسیں منعقد کرنے کی جوطرح ڈالی تھی اس نے اس تحریک کے مقاصد کو نشر کرنے میں بھی مدد دی۔ اس تحریک کی پروپیگنڈا مشینری اتنی تیز تھی کہ نئے لکھنے والے اپنے آپ کو ترقی پسند تحریک سے وابستہ کھتے اور انجمن کا ، رکن بنے بغیر اسے اپنے حلقے میں فروغ دینے کی سعی کرتے ۔ ادب چوں کہ جمود آشنا نہیں اور تغیر کا مسلسل عمل اس پر ہرلمحہ اثر انداز ہوتا رہتا ہے اس لیے ہندوستان کے نئے حالات نے ادب کا وحارا بھی یکسر تبدیل کر دیا تھا۔ علی گڑھ تحر یک انجمن پنجاب، اقبال اور رومانی تحریک نے فکر و خیال میں ہمہ جہت تبد بھی پیدا کر دی تھی ۔ انگریزی زبان کے فروغ نے یورپ کے علمی سرمائے سے براہ راست استفادے کا موقعہ پیدا کیا۔ چنانچہ اس دور کے اہم ادبی رسائل مثلا: ادبي و ا ساتی‘ 'ہمایوں اور نیرنگ خیال وغیرہ میں جو ادب شائع ہو رہا تھا دو خون نگار زمانہ اور معارف کے ادب سے یکسر مختلف تھا اور فرد کو بغاوت پر آمادہ کرنے کے بجائے زندگی کے چیدہ چیدہ لمحات کو ادب کی روپ ڈال دیا۔