اردو شاعری میں رومانیت
رومانوی تحریک،اردو شاعری کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ روایت کے عناصر گروه شاعری کی گھڑی میں موجود تھے۔ (ع) تاہم بعد میں یہ عناصر بھی حد تک بکھرے ہوئے تھے اور کیا ایسے عالم طرز احساس سے نہیں چھوٹے تھے جو شاعر کی شخصیت کا جزو بن چکا ہو۔ بیسویں صدی سے پہلے اردو شاعری پر غوزل کا نہ تھا۔ غزل نے ایشیا اور ماحول کو سیتا قا نسلے سے و یکی اور مندالا پن پیدا کیا۔ چنانچے زندگی کی وہ افراد پیت چرخی مزان کے آ نے سے منعکس ہوکر ان میں در آتی ہے نکھر کر سامنے نہ آ گیا۔ یہ عہد آفریں خدمت بیسویں صدی میں صناظم نے سرانجام دی اور اردونام ای پتو فرد کے نمایاں ہونے کی خواہش سے تعبیر ہوسکتی ہے۔ این دوسری سطح پر اس میں غزل کی کلاسیکیت کے خلاف بغاوت کا عنصر بھی نظر آتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کرج ممکن نہیں کہ جب اردو شاعری میں اعظم کو فروغ حاصل ہوا تو ترال کی معنوی وست میں بھی اضافہ ہوا اور شاعری کے نئے درجات مختلف سورتوں میں تغزل میں بھی جلوہ گر ہونے لگے۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ کم سنه اردو غزل کے اوسات کو مجروح نہیں کیا بلکہ اس نے آفات سے روشناس کرانے میں مدد دی۔ دوسری طرف الم کے فقرون نے شعرا کو اپنے خارج کی جزئیات میں جھا گئے، اشیا کو اس کرنے اور زندگی کے ملی نقوش کو اجاگر کرنے کی طرف متوجہ کیا ۔ بادی النظر میں عمل موجود وٹا موجود کے ساتھ تعلق کرتا ہے۔ تا نام به عرض کرنا ضروری ہے کہ ایمان پنجاب کی تحریک میں ان دونوں میں واضح حد فاصل موجود تھی ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فطرت اور شاعر کے درمیان ایک بیٹ نا پیدا ہوگیا ۔ شا عر عن نظر فطرت کی ثنا خوان تو کرتا ہے لیکن اس کی برون فطرت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتی ۔ اردو شاعری میں اقبال نے انسانی احساسات کو فطرت کے پر اسرار میں سے پہلی مرتبہ روشناس کرایا اور اس کی پہنائیوں میں کھو جانے سے بچا اسے فطرت کی منھ زور قوت سے زندگی کو ترک اور تازگی ، بلا کی ملی
یہ اسی کی وجہ ہے کہ اقبال کو رومانی تحریک کا اولین اہم شاعر شمار کیا جاتا ہے اور ان کی تفصیلی تجزیہ
اقبال کی شاعری میں رومانویت
اقبال کی شاعری میں رومانویت، اگلے سبق میں اردو ادب اور شاعری میں رومانیت کے بارے میں لیے گئے ہیں اور اس میں بہت سے معلوماتی تحاریر وارد کی گئی ہے۔حوالہ "اردو ادب کی تحریکیں"
رومانوی تحریک، اردو شاعری پر اقبال کے اثرات بے پایاں ہیں۔ چنانچہ اس عہد کے بیش تر شعرا جنھوں رومانیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ ان کی شاعری میں پرواز کی عمودی جهت فروغ تمنا، طغیان ایک ایسی سے دریافت کی جور در کل کی طرح لطیف اور رسمی تھی۔ چنانچہ اقبال نے رومانیت کے جس زاویے کی ترون کی ہے اس کے اثرات جدید اردو نظم کے تشکیلی دور میں نمایاں ہوئے ہیں۔اقبال نے انگریزی مدرسوں میں تعلیم پائی تھی اور جو سرش جوانی کی منزل عبور کر رہے تھے۔ اقبال کی مسرت ، انتہائے بیاس اور زبانی پیش افتادگی کی صورت میں نمایاں نظر آنے تھی ۔ ان شاعروں نے تصرف فطرت کے حسن کو اپنا موضوع بنایا بلکہ اس کا رشتہ اپنے دلائل سے بھی قائم کیا اور خلیق
کے عمل غواصی سے اس انوکھی اور پراسرا روح کو دریافت کرنے کی سعی کی جس کی اطافت اور جان بیت ذرے ذرے میں پوشیدہ تھی۔ اس طرح شعرانے معاشرے کی کثیف سے بلند ہوکر بغیر نہ رہ سکے۔
اردو شاعری و ادب کے رومانی شعراء
اردو کے رومانی شعرا میں حفیظ جالندھری کو یہ اہمیت حاصل ہے کہ انھوں نے زندگی کے مادی ذرے سے نقاب اتارنے کی کوشش کی ہے۔ ( ۸ ) انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ ان کی شاعری کی تخلیق میں عنفوان شباب کی بے فکری، خودنظری، لطافت، نزاکت، خوشی حاصل ہو جانے پر خوشی ، رنج وغم سے دوچار ہو جانے پر رنج وغم مسکراہٹ اور آنسو بھی طلب و تلاش نہ استغنا اور انانیت سب کچھ شامل تھا۔ ( تلخابہ شیریں“ میں حفیظ نے اقبال ، حالی اور ٹیگور کی تحسین و ستائش بھی کی ہے۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ مشرق کے ان تین شعرات بالخصوص متاثر تھے۔ حفیظ کی شاعری کے بیش تر ماخذات مشرتی ہیں۔ ان کی رومانیت کومشرق پسندی کے اس رجحان کا ایک زاویہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جس کے فروغ میں مہدی افادی، سجاد انصاری اور ڈاکٹر بجنوری نے اہم حصہ لیا۔ اس لیے ڈاکٹر محمد حسن کی رائے سے متفق ہونا ممکن نہیں ہے کہ خفیظ پر نمایاں ہے۔ حفیظ کی رومانیت ان معصوم عورتوں سے عبارت ہے جو ان کے دل میں گرد و پیش کے حسن پیدا ہوتی ہے۔ ان کی فلموں میں فطرت کا جمال این نغمه سرمدی بن کر ابھرا ہے ۔ فطرت کی آغوش میں سر رکھ کر ان حیات آفریں اور کیوں کرتے ہیں اور فطرت سے لیتے قلب و روح کو تازگی عطا کرتے ہیں۔ چنانچہ حفیظ سے شباب کی سرشی ، استغنا اور انانیت در حقیقت ان کے رومانی مزاج کا حصہ ہے۔ حفیظ کی رومانیت کا عمدہ ترین اخبار ان کی غنائیت میں ہوا ہے۔ انھوں نے ہم میں سے انتخاب اور الفاظ کی ترتیب سے آہ نہ پیدا کیا اور منظر کی رقصند و کیفیت کو بھی علم کی بنت میں شامل کر دیا ۔ ان کی رومانیت کا ایک اور زاویہ اور وطن کی محبت میں ظاہر ہوا ہے۔ پھر بخاری نے لکھا ہے کہ حفیظ کی نظر ہندوستان کی بین پر ہے اور وہ اس کی بھنک پر فدا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حفیظ نے سرزمین وطن کی رعنائیوں سے تخلیق مسرت کی ہے اور روح انسانی کی نازک لرزشوں کو جن میں بلی کی ایک نہ غم کی بھی ہے، جگا دیا ہے۔ بلاشبہ حفیظ کا سابجی عبد بیداری اور عقلیت کا عہد ہے لیکن ان کی رومانیت کی بدولت انھیں فطرت کے خت خواب تاک۔ نے مہرے فلسفے میں الجھنے کے بجائے تخیل کے جزیروں میں اڑنے پر مائل کیا ہے ۔ حفیظ نے جس خوب صورتی سے ہندوستان کے رسم و رواج میلوں ٹھیلوں اور مناظر فطرت سے دالبہ نہ وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے، وہ انھیں رومانی تحریک کا ایک اہم شاعر تسلیم کروانے کے لیے کافی ہے۔
رومانی شاعر عظمت اللہ خان
اردو شاعری میں عظمت اللہ خاں کی نظم نگاری کی حیثیت محض ایک تجر نے کی ہے لیکن اس کے اثرات دور رس ہیں ۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے لکھا ہے کہ عظمت اللہ خان اپنے زمانے کی مراج نظم اور اس کے موضوعات سے مطمئن نہیں تھے۔ ( ۳ ) ڈائر عبادت بریلوی کا خیال ہے کہ ان کے ہاں رومان کے علاوہ اور کچھ نہیں ملتا۔ ( ۳ ) جیلانی کامران کو ان کی نظموں میں جذبے کی ایک نئی صورت نظر آئی۔ ( ۳ ) بیتیوں آ را بظاہرمختلف ہیں تا ہم ان سے ایک مشترک نتیجہ یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عظمت اللہ خاں کے مزاج میں رومانیت کا وہ عنصر موجود تھا جو موجودحقیقت کو منقلب کرتے اور نے افق تلاش کرنے پر فرد کو آمادہ کرتا ہے۔ اقبال اور ابو الکلام کی مقبولیت کے زمانے میں عظمت اللہ نے اردو اور ہندی کے امتزاج سے لوک گیتوں کی تجدید کی اور یوں تغزل کی قدیم روایت کے خلاف نظم نے جو بغاوت کی تھی اس میں انسانی تجد د کا زاویہ بھی شامل ہے اور ایک اہم بات یہ ہے کہ عظمت اللہ نے اردو نظم کو ہندوستانی عورت سے متعارف کرایا اور اس کوشش میں اس سرزمین کی رسوم بھی اس کی نظم میں شامل ہوئیں جن سے ظلم کی داخلی دھڑکن تیز تر ہوئی ہے اور اس میں ایک رنگینی سی فضا پیدا ہو جاتی ہے جس میں رومانیت کی لہر صاف دیکھائی دیتا ہے۔ اس کی موضوع بنا کر بیش تر مرد کی انفعالی کیفیت کو ہی ابھارا ہے۔ انھوں نے چوں کہ شاعری کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس لیے آج ان کی نظم تجربے کی ابتدائی صورت میں ہی زندہ ہے۔
رومانی شاعر جوش ملیح آبادی
جوش ملیح آبادی کی رومانیت میں جذ نے کا طوقانی بال سیاسی اہمیت رکھتا ہے۔ ان کے اولین مجموعه کلام روح ادب میں یہ رومانیت فکر کی آزادی تخیل کے حسن اور اظہار کی ہے تکلفی کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے۔" روح ادب کے بعد جوش کی شاعری کے متعدد مجموعے شائع ہوئے اور ان سب میں سیمانی اضطراب اور ہیجانی کیفیت بتدریج شدت اختیار کرتی گئی۔ ان کی رومانیت کا ایک زاویہ احساس حسن کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے اور جمال قطرت کی گوناگوں نے گلیوں اور بموں رعنائیوں کو خارجی سطح پر نمایاں کرتا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے لکھا ہے کہ وہ بیک وقت شاعر شباب ہیں اور شاعر انقلاب بھی۔ ( ۳ ) ڈاکٹر عبادت بریوی کی اس رائے میں جو کی رومانیت کے تمام زاویے سما گئے ہیں ۔ چنانچہ جوش نے خار بی مے پر فرد کو متلاطم کیا۔ اسے بڑھتی ہوئی بیل اور بھرا ہوا طوفان نے پر آمادہ کیا اور یوں پرانی دیواروں کو یکسر ها و پینے کا مشورہ دیا۔ تاہم جوش نے نئی دیواروں کی تعمیر کے لیے کوئی راول تجویز نہیں کی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جوں کا سیمل رومانیت کا ہی زاویہ ہے تاہم اس میں تعمیر کی بنسبت تخریب زیادہ ہے۔ جو کی رومانیت کا دوسرا زاویہ جمالیاتی ہے اور یہاں جوش خالي جمال کے بجائے ثنا خوان جمال کی صورت میں سامنے آئے ہیں ۔ جو کی رومانی نظموں میں ذات کی گہرائی میں جھانکنے کا رجحان نسبتا کم ہے اور وہ زیادہ تر خارجہ کے حسن کو ہی روشن تر کرنے کی کا وش کرتے ہیں ۔ بالفاظ دیگر جوش کی رومانیت میں حسن ایک امی جمالیاتی قدر ہے جو شاعر کے نارنظر سے بندھی ہوئی ہے اور خطوں، رنگوں اور زاویوں کی دل فریب ترتیب کو اپنے حسن نگاه سے تاب جمال عطا کرتی ہے۔ جوش کی بو جمال پسندی العموم نسوانی حسن، مناظر فطرت اور رعنائی شباب کے منفرجہ زاویوں سے انعکاسی کرتی ہے اور انھوں نے اکثر اسی کیفیات مصور کی ہیں جن میں خدوخال کی رعنائیاں لفظوں میں سمٹ آتی ہیں ۔ اس قسم کی تنظیموں میں جوش نے جزبات کو اس خوبی سے سمیٹا ہے کہ موضوع کی کوئی تفصیل کن بیان نہیں رہتی۔
جذبہ اور احساس پر عبور حاصل کرنے کے باوجود جوش کا اپنے دال کے ساتھ رابط مضبوطی سے قائم نہیں ہوتا اور وہ اپنی ذات میں گہرا غوطہ لگانے کے بجائے خارجی عوامل سے زندگی کو متحرک رکھنے اور مایوسی پر غلبہ پانے کی سعی کرتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ رومانی عمل ہے۔ تاہم اس تم کی رومانیت میں شاعری ساده بیانیہ بن جاتی ہے اور اس کی علمیت چھپی نہیں رہ سکتی۔ جوش که کی کونے میں ہی گم ہوگیا۔ المیہ بھی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی پر جلال آواز سے گھن گرج پیدا کی ۔ چھوٹے سے خیال کی کی وادی کے گرد الفاند ،تشبیہات اور مترادفات کا کوہ ہمالہ چن دیا۔ لیکن جب اس وادی کے داخل میں جھانکنے کی سعی کی گئی تو خیلی زاویہ گہری کھدائی کے باو جوجلوہ فشاں نہ ہو سکا اور جب بافقوں میں زندگی کو ایک ماورائی خواب بنانے اور اس میں تیل کی آزاده روی سے رنگ و رعنائی میں جھانکنے کی سعی کی گئی تو کھلی زاویہ گہری کھدائی کے باوجوجلوہ فشاں نہ ہو سکا اور جذ بہ لفظوں سے سننے میں میں ترجیح دی ہے۔جو ایک رنگینی فضا میں ڈوب جاتا ہے۔
رومانی شاعر اختر شیرانی
اختر شیرانی نے سب سے زیاہ رنگینی کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ وہ رومانیت کی اولین اہم آوازوں میں شمار ہوئے ۔ اختر شیرانی کے ہاں زندگی ایک ایسا عمل ہے جسے صرف نسوانی حسن ہی کروٹ دے سکتا ہے۔ اختر نے اس عورت کو جو پہلے پردے میں محصورتی شاعری کی خار بی من پر پیش کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ رومان ایک ایسا لفظ بن گیا جو محبت کا ہم معنی تھا اور اختر کی دالبان شیفتگی کی بدولت ہی اس کے نام کا ایک اہم جزو بن گیا ۔ عورت اختر شیرانی کی نظر میں ایک خواب شیر میں ہے جو زندگی کے مطلع پر طلوع ہوتا ہے تو زبان پر نگاہوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔ سکوت نغمہ گویا میں تبدیل ہو جاتا ہے اور فضا معطر ہو جاتی ہے۔ اختر نے اس عورت کو بھی جوگن سکے روپ میں دیکھا اور بھی ختر صحرا کی شکل میں بھی پیس ٹی کے نام سے سامنے آئی اور بھی نا ہی کے نام سے۔ ان سب عورتوں میں اختر نے ایک ہی عورت کی نسوانی جھلک دیکھی ہے اور اس کے حسن کی والہانہ مدح سرائی کی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ گوشت پوست کا ایک بازی پیکر رکھے کے باوجود اختر کی شاعری میں عورت کا سرا پھیلی ہی نظر آتا ہے اور اس کی محبت افلاطونی انداز
کبھی سلمی کے روبان حسین کے تذکرے کیجیے
کبھی عذرا کے افسانے کو عشق رائیگاں لکھیے
بھی پروین کی مرگ عاشقی پر فاتحہ پڑھیے
بھی شمسہ کے زہر آلود ہونیوں کا بیاں کاسے
چنانچہ اختر شیرانی نے ہر عورت میں کائنات کا جمالی روپ دیکھا اور بالآخر اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ کائنات بھی عورت کا ہی ایک نقش بیل ہے۔ یوں اختر شیرانی کی شاعری میں عورت اپنے مرئی وجود سے بلند ہوئر مابعد الطبیعاتی حیثیت اختیار کر لیتی ہے ایک ایسا مثالی پیکر
بن جاتی ہے جس کے ہاتھ میں نیض کا ئنات ہے۔ اختر شیرانی ایک فطری روانی کی طرح موجودات عالم سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ چنانچہ دنیا ان کے لیے نفرت بہ بستی اورلعنت به عالم ہے اور دو اس دنیا سے دور ایک ایسی بستی آباد کرنا چاہتے ہیں جو پھولوں اور ناجوں سے معمور ہے۔
اختر شیرانی نے اس بستی کی تصویروں میں حقیقی دنیا کو چاندنی کی پچھوار اور نغموں کے آبشار میں تخیلی طور پر زندہ کرنے کی کوشش کی ہے اور مقصد زندگی سے فرار نظر نہیں آتا بلکہ بین کی تمام تر جمالی کیفیات کو جذب کر لینے کی آرزو معلوم ہوتی ہے۔
اختر شیرانی کی رومانیت کا ایک اور زاویہ وطن کی محبت کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ تاہم وطن کا یہ روپ بھی نائیت کا حامل ہے اور اس کی آرائش و تزئین اختر کے ذوق جمال کی مرہون منت ہے۔ چنانچہ دن ایک ایسی محبوبہ ہے جس سے اختر نے ٹوٹ کر پیار کیا ہے اور اس کی مفارقت اس کے دل کو غموں اور دکھوں سے ہم کنار کر دیتی ہے۔
اختر کی رومانیت کا ایک پرتو ہلکورے لیتی ہوئی غنائیت میں بھی موجود ہے۔ یہ غنائیت اس وقت اور بھی تیر انگیز نظر آتی ہے جب اخر رات کی تنہائیوں میں وفور جذبات سے مال فراق بلند کرتے ہیں۔ اختر نے یہ موسیقی نرم و نازک الفاظ کے فنکارانہ استعمال، مترنم بوو کے انتخاب لفظوں کے آہنگ اور مصرعوں کی ترتیب سے پیدا کی ہے۔ بلاشبہ اختر شیرانی متنوع جہات کا شاعر ہیں اور اس کی رومانیت گئے سب زاو نے عورت کی ذات کا عکس ہیں یا پھر لوٹ کر عورت کے وجود میں ضم ہو جاتے ہیں، ان کی شاعری کی تھی جار بیت نے انھیں صرف نوجوانوں کا محبوب شاعر بنا دیا ۔ تاہم اس حقیقت کا اعتراف ضروری بینک کی اردو نظم کو بھی کروٹ دی ہے۔
ہے کہ اختر رومانیت کی توانا آواز ہے۔ اس کی شاعری میں جذبے کی بدوی صورت نمایاں ہے۔ اس میں شدت بھی ہے اور دل بستی بھی۔ چنانچہ اختر نے نہ صرف رومانی تحریک کو فروغ دیا۔
رومانی تحریک کے شعرا میں سے جوش، اختر شیرانی اور حفیظ جالندھری کی آواز میں اتنا جادو تھا کہ اس کا تاثر لمبے عرصے تک نو جوانوں کو دور کرتا رہا۔ چنانچہ ان کی تقلید نے شعرا کے ایک بڑے طبقے نے کی ۔ جوش کی عطا یہ ہے کہ انھوں نے مردانہ لکی میں نعرہ بنانے کا اسلوب
پیدا کیا اور الفاظ اور تراکیب کا ایک وسیع ذخیره فراہم کر دیا۔ اختر شیرانی نے نسوانی حسن کو آشکار کیا۔ چنانچہ بیش تر شعرا نے نہ صرف علمی کے معطر وجود کی تلاش شروع کر دی بلکہ شاعری میں انجم ، بیل اور عذرا وغیرہ کسی نے نسوانی کرداروں کو بھی متعارف کرایا۔ ہر چند کہ کردار علی کا تی رہے ہیں تاہم ہی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ اختر نے حسن کو عورت کا وجود عطا کیا اور اسے کائنات کی قوت ک طور پ متعارف کرایا۔ حفیط جاندھری نے اردشاعری کوگیت ک آچنگ وسن سے شناسا کیا اور نئے کی شاداب اور پر اثر کیفیات کو کاغذ پر ترک کر دیا۔
رومانی تحریک اور ترقی پسند تحریک کے سنگم پر جن شعرا کا ظہور ہوا ان میں علی اختر حیدرآبادی اختر انصاری، حامد اللہ افسر، روشن صد باقی ، ساغر صدیقی، احسان دانش اور الطاف مشہدی کو اہمیت حاصل ہے۔ علی اختر کی شاعری میں نری ، گھلاوٹ اور درد کی ریلی کسک ہے۔ ہر چند انھوں نے نسوانی حسن کی طرف بہت کم توجہ مبذول کی اور ارضی مناظر کو ماورائیت کی دھند میں کم کرنے کی سیمیں کی ام ان کی شاعری ایک خالص رومانی شاخرک وهند ل خوایوں۔ به آرزوؤں اور موجوم تمناؤں کو اس انداز میں پیش کرتی ہے کہ قاری ان کے ساتھ خود بھی خواب تاگ فضا میں سانس لینے لگتا ہے۔ علی اختر کی رومانیت پرانی یادوں اور ارض وطن کی رعنائیوں کی اساس پر ابھرتی ہے اور ہیجان پیدا کیے بغیر حقیقت کی گہرائی تک پہنچنے کی سعی کرتی ہے۔
اختر انصاری و بلوی نے غم دل اور مکانات دونوں کا احاطہ کر رکھا ہے۔ اس کا داخل آہستہ آہستہ سن رہا ہے۔ چنانچہ اس غم جاوید نے اختر انصاری کی ذات کو لندن کی طرح تھکا دیا اور آب صرف وہ وفور جذبات سے وقت کی رفتار روک دینا چاہتا ہے کہ اسے یہ احساس بھی ہے کہ وہ اپنی نوا سے محبت کو بھی جاودانی بنا سکتا ہے۔ اختر انصاری کی رو با نیت خوابوں کی تعبیر کے بکس شکست خواب سے مرتب ہوئی ہے اور یوں اس کے ہاں ایک ایسی دردمند کی جاتی ہے جو شاعر کو اندر ہی اندر کھن کی طرح کھا رہی ہے۔ اس کے دل میں مسرت کی چاندنی چنکے گی ہے۔ چنانچہ السر آرزوؤں کی گھمبیر کا کا شاعر نہیں بلکہ یہ میٹھے خوابوں اور رس بھری مسکراہٹوں کا شاعر ہے۔ روش صدای کی رومانیت ان کی اریت پندی کی رہین احسان ہے۔ ان کے ہاں حب وطن کا جذ بہ زیادہ نمایاں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے زمین کے ساتھ پینے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی رجائیت سے فروغ امید کا روح پرور خواب دیکھا اور حسن کو ازلی اور ابدی حقیقت بنا کر پیش کیا اور اسے آلودہ معصیت کرنے کے بجائے اس کی عبادت کو اپنا مسلک بنالیا۔ رومانیت کی ایک دل و یز امتزاجی صورت ساغر نظامی کی شاعری میں بھی ملتی ہے۔ ساغر کو جب قبول عام حاصل ہوا تو اس وقت اقبال ، حفیظ جالندھری اور اختر شیرانی کی رومانیت سے رائج الوقت کے طور پر مقبول ہوچکی تھی ۔ ساغر نظامی نے نہ صرف تینوں کے اثرات قبول ہے بلکہ اقبال کی حب ولن کی روایت ، حفیظ کی خستگی اور اختر شیرانی کی لا أبالی محبت کو نم کر کے رومانیت کا ایک ایسا زاویہ پیدا کیا جس میں جذبہ اور فکر دونوں موجود تھے۔ چنانچہ ساغر کی روبانیت خود پسندی اور انا کے ذات کا زاویہ بھی پیش کرتی ہے۔ اسے نہ صرف اپنے وجود کا احساس ہے بلکہ وہ یہ باور کرانے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ وہ اپنے عصر کی آواز ہے اور خیر کی تو اس کی ذات میں موجود ہے۔
ہواؤں کا ترنم بحر و بر کا شور سب کیا ہے
ہرا ایک نغمہ ہے جو سو ادا سے کارفرما ہے
ساغر کی انا اساسی طور پر داعلی قوت سے محروم ہے۔ یہ شاعر کو قوت کا سرچشمہ بنانے کے بجائے نرگسیت کا شکار کر دیتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی ذات کو ہی جان کا آئینہ سمجھتا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ عمر نامی کی شاعری میں رومانیت کی تمام کرنیں اس کی اپنی ذات کے گرد ہی قص کرتی ہیں ۔ اس لیے اس میں پینے کی قوت مفقود ہے۔
اختر شیرانی کی خالص رومانی جهت کا ایک اہم نمائندہ الطان مشہدی ہے۔ الطاف نے شعر کو فکر و فلسفہ سے گرانبار کرنے کے بجائے اس سے جمال پسندی کا زاویہ تراشا اور شاعری کو جذبات کی فطری تپش سے سلگا دیا۔ الطاف مشہدی نے بھی عورت سے ملکوتی حسن کو ہی اہمیت دی ہے اور اس کے وجود سے حسن کائنات پیدا کیا ہے۔ الطاف کا عشق ایک حساس دنیا دار عاشق کا عشق ہے اور اس میں زلف و رخسار سے تمازت کشید کرنے کا تمام جذبہ موجود ہے۔
الطاف مشہدی کی رو. نیت میں ستارے، پھول، چاندنی راتیں، بیکار کلیاں ، پر خواب فضائیں اور گھر کا ماحول نے بڑی خوبی سے جادو جگایا ہے اور اس فضا میں اس کا نسوانی کردار پیکان شمیم و عنبر کھیر رہا ہے۔ موضوعات کی کمی کے باعث الطاف مشہدی کے ہاں تنوع کا احساس نہیں ہوتا اور اس کی بیش تر میں ایک ہی مسلسل خیال کا بیان نظر آتی ہیں ۔ مجموعی طور پر وہ رومانی تحریک کی ایک ایسی آواز ہے جس میں اختر شیرانی کی آواز بھی شامل ہے۔
احسان دانش کی شاعری میں رومانیت
احسان دانش کی رومانیت نے غربت کے داخلی احساس سے جنم لیا ہے۔ ان کی شاعری میں مسرت کا لمحہ نایاب اور زندہ دلی کا شدید فقدان ہے تا ہم ان کے ہاں آنسوؤں اور آہوں کی کی نہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ بیشتر رومانی شعرا کے ہاں طغیان غم ایک بنیادی قدر کے طور پر موجود ہے اور ہمیں اپنے خواب محل کی شکستگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کی آنکھوں میں آنسو چھلک چھنک پڑتے ہیں ۔ تاہم احسان دانش کے آنسو انسانی دردمندی کے نور سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ اس وقت بہتے ہیں جب انسانیت پر زوال آ جاتا ہے اور پست و بلند میں امتیاز پیدا رویا جاتا ہے۔