غزلیات غالب
تحقیق باعتبار قوافی
غزل میں قوافی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں ۔ان سے جہاں غزل کا داخلی آہنگ ہے وہاں ہر شعر اپنی مکمل صورت بھی اختیار رکھتا ہے ۔ غزل کے احتصار اور رمز و ایما کی ضرورتوں میں بھی قوافی مدد بہم پہنچاتے ہیں اور موضوع سے عہدہ برا ہوئے اور شعر کے جمالیاتی حسن کو اجاگر کرنے میں بھی ان کا واضح عمل داخل ہے ۔ اردو غزل میں غالب کو جو مقام حاصل ہے ۔ اس میں ان کی نظر اور فن دونوں کا برابر حصہ ہے ۔ فکر فن کے بغیرایک نا تراشید ہیرا ہے اورفن و فکر کے بغیر ایک گوہر کم عیار۔ غالب کی غزل میں جہاں ایک منفرد فکر سرا ابھارتی نظر آتی ہے وہاں کی اعتبار سے بھی گونا گوں خصوصیات سامنے آتی ہیں ۔ ان میں سے ایک قوالی کا پاؤ اور اشعار میں موزوں مقام پر ان کا جڑاؤ ہے۔ یہ پہلو ایک بڑی تحقیق کا متقاضی ہے ۔ تنقیدی حوالے سے بھی اور تخقیقی حوالے سے بھی ۔ اس مضمون میں میرے پیش نظر اس کا حقیقی پہلو ہے اور وہ یہ کہ غالب نے کون سے قوافی کے تحت تی رائیں اور اشعار کہے۔ ان میں سے کئی قرئیس بٹیر روایف کے ہیں اتی بغیر کس کے اور کتی ایسی ہیں جن میں انہوں نے مجلس کا استعمال کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسی تفصیلات بھی درج ہیں جو دوران تحقیق میرے سامنے آ ئیں اور جن کا تعلق با ظاہر موضوع سے ہیں لیکن براطن وو نہ صرف اس موضوع کا حصہ ہیں کہ اس کی وضاحت مر مومه ون میں ۔ غالب کے ہاں ایسے قوافی جن کا آخری حرف الف ہے (مترا مراء ہوا، پڑا۔ فر مار گوی غیرو) کا استعمال سب سے زیادو ملتا ہے۔ غالب نے ان قوافی میں ۳۰ ( پالیس)
غزلیں کہیں جن کے کل اشعار ۳۱۵ ہیں ۔ ان میں سے ۵ غزلیں بغیر مطلع کے ہیں۔ ۲ غزلوں میں تخلص اسد ، ۲۵ میں غالب اور ۹ غزلیں بغیر تخلص کے ہیں ۔ ایسے قوافی جن کا آخری حرف ب ہے (مثلا: آب، باب، گرداب، تاب وغیرہ ) میں غالب نے ۷ غزلیں کہیں جن کے اشعار کی کل تعداد ۵۶ ہے ۔ ۲ میں تخلص اسد م میں غالب اور ایک غزل بغیر تنص کے ہے۔ ت پر ختم ہونے والے قوانی ( مثلا: قیامت ، حضرت سلامت ، صورت وغیره) میں ۵ غزلیں کہیں ۔ ان میں سے ایک غزل بغیر مطلع کے ہے ۔اشعار کی کل تعداد 31 ہے ۔ ا غزل میں تخلص اسد ، ۲ میں غالب اور ۲ بطیرتکس کے ہیں۔ ڈ پرختم ہونے والے قوافی میں ۵ غزلیں ہیں ۔ ایک بغیر مطلع کے ہے ۔ کل اشعار ۳۶ ۔ ۲ غزلوں میں تخلص غالب ، ۲ میں اسد اور ایک بغیر کلص کے ہے۔ ر پر ختم ہونے والے قوافی (مثلا پار،خار، تار، دیوار وغیرہ) میں ۳۵ غزلیں کہیں ۔ ۵ غزلیں بغیر مطلع کے ہیں ۔اشعار کی کل تعداد ۲۲۸ ہے ۔ ۳۰ غزلوں میں تخلص . غالب، سے میں اسد اور ۸ بغیر تخلص کے ہیں ۔ ز پرختم ہونے والے قوافی ( مثلا ساز ، ناز ، راز ، باز وغیرہ ) میں ۲ غزلیں کہیں ۔ ابغیر مطلع کے ہے ، ا بغیر ردیف کے ۔اشعار کی کل تعداد ۲۲ ۔ ۳ میں تخلص اسد اور ایک میں تخلص امتعال نہیں کیا ۔ اس پرختم ہونے والے قوافی ( مثلا: آس، پاس، اداس وغیرہ) میں ایک غزل کھی ۔ غزل کے کل اشعار ہیں اور نلس اسد استعمال ہوا ہے ۔ ش پر ختم ہونے والے قوافی ( مثلا جوش، نیوش ،سروش وغیرہ) میں ایک غزل کھی ۔ اشعار کی کل تعداد ۱۳ اور تخلص غالب ہے ۔ ع پرلتم ہونے والے قوافی میں ایک غزل کی یکل اشعار عار تخلص کا استعمال نہیں۔
اک پر ختم ہونے والے قوائی ( مثلا پاک، چاک، باک وغیرہ) میں ۲ غزلیں کھیں ۔ کل اشعار و ۱ میں اور دونوں میں تنص اسد استعمال ہوا ہے۔ ل پرستم ہونے والے قوائی ( مثلا آل ، چال ،سال وغیرہ میں سے غزلیں کہیں ۔ کل انشعار ۴۲ ۔ ۴ میں تنس غالب ۔ ۲ میں اسد اور ایک غزل میں تنکس استعمال نہیں ۔ ام پر ختم ہونے والے قوافی مثلا ( دم،کم ہم ہم وغیرہ ) میں ۸ غرز لیں کہیں ۔ کل اشعار ۶۷ ۔ ۷ غزلوں میں تنص غالب اور ایک میں اسد استعمال ہوا ہے ۔ ن پر ختم ہونے والے قوافی ( مثلا تن ، من ،خن وغیرہ) میں ۱۱ غزلیں لکھیں ۔ ایک غزل بغیر مطلع کے ہے کل اشعار ۹۱ ۔ ۸ غزلوں میں تخلص غالب ۔ ۲ میں اسد اور ایک غزال بغیر تقلص کے ہے۔ان پر ختم ہونے والے قوافی (مثلا نہاں، فشاں ، کہاں وغیرہ) میں ۲۳ غزلیں لکھیں ۔ کل اشعار ۱۹۱ ۔ ۱۲ غزلوں میں تخلص غالب ۔ ۵ میں اسد اور ۲ غزلوں میں تخلص کا استعمال نہیں ۔ و پرختم ہونے والی قوافی ( مثلا جو،کھو، دو، خو وغیرہ) میں ۴ غزلیں کہیں ۔ کل اشعار ۲۷ ۔ ایک غزل بغیر مطلع کے ہے ۔ ۳ غزلوں میں تخلص غالب اور ایک میں تخلص کا استعمال نہیں ۔ و پر ختم ہونے والے قوافی (مثلا خواہ،گناہ، نگاہ، وغیرہ) میں ۵ غزلیں کہیں ۔ ایک غزل بغیر مطلع کے ہے ایک میں ردیف کا استعمال نہیں ۔ کل اشعارا ۳ ۔ ۳ غزلوں میں تخلص اسد، ایک میں غالب اور ایک بعض کے ہے۔ ی پر ختم ہونے والے قوافی ( مثلا راضی،تسلی،معنی وغیرہ) میں ۱۷ غزلیں لکھیں ۔ دوغزلیں بغیر مطلع کے ہیں اور وو میں ردیف کا استعمال نہیں ۔ کل اشعار ااا ہیں۔ ۱۰ غزلوں میں تخلص غالب ۔ ایک میں اسد اور ۲ میں تخلص کا استعمال نہیں ۔ ے پر ختم ہونے والے قوافی میں ے غزلیں کہیں ۔ ایک غزل بغیر مطلع کے ہے۔
کل اشعار ۴۹ ہیں ۔ ۲ غزلوں میں تخلص غالب اور ایک میں اسد استعمال ہوا ہے ۔ ان تمام اعداد و شمار کو جمع کیا جاۓ تو نتائج کچھ یوں نکلتے ہیں۔ غالب نے کل ۱۸۳ غزلیں لکھیں جن کے اشعار کی تعداد ۱۳۷۳ ہے ۔ ایسی غزلیں جن میں تخلص غالب ہے ان کی تعداد ۱۰۵ ہے ۔ ایسی غزلیں جن میں تخلص اسد ہے ان کی تعداد ۳۸ ہے ۔ ایسی غزلیں جو بغیر تخلص کے میں ان کی تعداد ۴۰ ہے ۔ بغیر مطلع کے غزلوں کی تعداد 19 ہے ۔ بغیر ردیف کے غزلوں کی تعدادم ہے ۔
تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ای غزلیں جوصرف تین اشعار پر مشتمل ہیں ان کی تعداد ۲۲ ہے ۔ م اشعار پر مشتمل غزلوں کی تعداد ۱۴ ہے ۔ د اشعار پر مشتمل غزلوں کی تعداد ۱۳ ہے ۔ ا سے زائد اشعار پر مشتمل غزلوں کی تعداد ۲۸ ہے ۔ ۲ تا ۱۰ اشعار پر ر پر مشتمل غزلوں کی تعداد ۱۰۴ ہے ۔ غالب کی طویل ترین غزل ۱۷ اشعار پرمشتمل ہے ۔ غالب نے بھی بھی اپنے خلص کو بطور قافیہ استعمال نہیں کیا۔ یہ ساری تفصیل دیوان غالب (نسخہ طاہر مرتبہ ڈاکٹر گوہر نوشاہی ، سنگ میل پہلی کیشنز، لاہور، ۱۹۹۸ ء کی بنیاد پر درج کی گئی ہے اور دوران تحقیق دیوان غالب کا مندرجہ بالا ایڈیشن ہی میرے پیش نظر رہا۔