جنت کی تلاش تجزیاتی مطالعہ
ناول جنت کی تلاش کا تجزیاتی مطالعہ
رحیم گل کا شمار، بلاشبہ ایسے ناول نگاروں کی صف میں ہوتا ہے جو روایت کے نام نہاد خولوں میں بند ہونے کی بجاۓ تخیل کے زور پر نئے امکانات دریافت کرتے دکھائی دیتے ہیں اور فرد کو شعور ذات ،عرفان کا ئنات اور ادراک نفس کے سلسلے میں اجتماع اور کائنات سے رابطے کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔ ان کے ناول ’’جنت کی تلاش‘ کو ان کی دیگر تخلیقات کے مقابلے میں نہایت اہمیت حاصل ہے ۔اس کا مرکزی خیال اشعور ذات اور عرفان کائنات ہے ۔ جس کی منازل ،فطرت کے اقرار اور اجتماع سے رابطے میں پوشیدہ ہیں ۔ مجموعی طور پر ، ناول’’ جنت کی تلاش‘‘ محبت اور اس کے لوازمات کی تلاش کا استعارہ ہے ۔ جس کا سفر بہت حد تک، خارجی لوازمات کے بغیر ، اپنے انجام کونہیں پہنچ پاتا۔ مصنف اسے بے چین روح کا سفر قرار دیتا ہے ۔( ۱ ) لیکن حقیقت میں یہ کچی محب اور حقیقی خوشی کی علامت ہے ۔ جس کی خاطر ، مصنف کو، بہت سے مقامات پر سے گزرنا پڑا، جو داخلی اور خارجی ، ہر دو اعتبار سے فلسفیانہ نقطہ نظر میں مفلوج دکھائی دینے کے باوجود ، بہت حقیقی اور اصلیت سے بھر پور ہے۔ ’’جنت کی تلاش‘‘ کا یہ سفر ، مانسہرہ کے ڈاک بنگلے سے شروع ہوتا ہوا مختلف مقامات پر پڑاؤ ڈالنے کے بعد ،گلگت کے سر بفلک ،خشک پہاڑوں اور سبزہ زاروں میں اپنی تحمیل کو پہنچتا ہے ۔( ۲ ) تحمیل کے اس سفر میں ،مرکزی اور صنعتی کرداروں کے ساتھ ساتھ فکری اور جمالیاتی اسلوب بھی اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
مصنف ناول کے آغاز میں ہماری ملاقات اپنے مرکزی د مثالی کردار امتل سے کروا دیتا ہے اور وہ شعوری طور پر اس کردار کے حوالے سے ایسے مکالمات تخلیق کرتا ہے جو ناول کے آغاز میں تو قارئین کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں لیکن بعد ازاں دیم کامشاہد و اور آئندہ آنے والے حالات و واقعات مذکورہ خیال کی تکذیب کرتے ہوۓ قارئین کو اس کردار کے سحر سے آزاد کراتے ہیں اور ناول کو اپنے مثبت انداز نظر کی بدولت حتمی شکل عطا کرتے ہیں۔ مصنف اپنے مثالی کردار ’’امتل‘‘ کوغیر معمولی ثابت کرنے کے لیے دیگر کرداروں کو اس کے مقابلے میں معمولی ثابت کرتا ہے اور شعوری طور پر ایسی کیفیت پیدا کر دیتا ہے کہ جیس سے دیگر مرکزی اور ضمنی کردار اس سے متاثر ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ خاص طور پر ناول کے آغاز ہی میں یہ مثالی کردار ایسے مکالمات اپنی زبان سے ادا کر تا ہے کہ جس سے اس کے غیر معمولی ہونے کا احساس شد ید ہو جا تا ہے۔ مثال کے طور پر مانسہرہ کے ڈاک بنگلے میں مقیم دیم کے ساتھ جب یہ بڑامی کے ڈاک بنگلے میں پہنچتی ہے تو وسیم اس سے یہ سوال کرتا ہے کہ کیا وہ اس کے ساتھ اکیلے آنے پر گھبرائی نہیں ۔اس پر امتل کا جواب نفی میں سن کر وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ ایک کٹر ورلڑ کی اور میں ایک طاقت ور مرد ۔’’( ۳ ) جو مجموعی طور پر ہمارے روایتی معاشرے کا عکاس بن کر سامنے آ تا ہے ۔لیکن اس بات کا رومل انتہائی حیران کن اور چونکا دینے والا ثابت ہوتا ہے جب وہ یہ کہتی ہے کہ گو یا آپ کو گھمنڈ ہے کہ آپ میری عزت لوٹ سکتے ہیں ۔ ہرگز نہیں، آپ ، طاقت کے ذریعے شاید ایسا کر سکتے ہوں لیکن جس حرکت میں میری مرضی شامل نہیں اسے آپ ہرگز## مکمل نہیں کہہ سکتے ، یک طرفہ کارروائی سے میرا کچھ نہیں بگڑ تا ‘‘( ۴ )
قارئین، امتل کی اس بات پر حیران ہوتے ہوۓ اس میں دل چسپی لینا شروع کردیتے ہیں اور اس کردار کی تہہ تک پہنچنے کے لیے مصنف کے ساتھ ساتھ سفر کی کیفیت میں رہتے ہیں ۔ مجموعی طور پر شعوری و لاشعوری طور پر مذکورہ بالا کردار کی اہمیت کو تسلیم کر لینے کے بعد اس سے بہت حد تک متاثر ہو جاتے ہیں ۔ لیکن مانسہرہ کے ریسٹ ہاؤس میں چار دن گزرنے کے بعد، اچانک منظر بدلنے لگتا ہے اور بخار میں مبتلا اس غیر معمولی لڑکی کے ماتھے کا بوسا لینے پر وو کراچی جانے کا حتمی فیصلہ کر لیتی ہے ۔ یہاں تک تو امتل اپنے عجیب وغریب کر دار کا ایک رخ معلوم ہوتی ہے ۔ لیکن تین دن کے بعد جب دیم کراچی کے ہوٹل سے اس سے فون پر براہ راست بات کرتا ہے تو یہ اسے اپنے گھر کھہرنے کی دعوت دیتی ہے اور اس سلسلے میں اپنی ذاتی گاڑی بھیجتی ہے۔ ہاں سے اس کردار کا دوسرا رخ شروع ہو جا تا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لان میں ٹہلتے ہوۓ اس کا انتظار کرتی ہے اور ویم سے مصافحہ کرنے کے بعد میز بانی کے تمام فرائض سرانجام دیتی ہے ۔( ۵ ) یہ تمام واقعات قاری کے لیے ایک پچوکے کی حیثیت رکھتے ہیں اور قاری جو اس مثالی کردار سے اس حد تک پچک کامتوقع نہ تھا،اچانک اپنے خیالات بدلنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور ’’انسان‘‘ کو اس کے اصلی روپ میں دیکھنے کو تیار ہو جا تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ قاری جو دیم کے ساتھ امتل کے ساتھ تمام تر سفر میں شریک رہتا ہے اور دیم کی طرح اپنے مشاہدے اور اس کے مکالمات کے نتیجے میں اس کردار کی گہرائیوں تک اتر تا جا تا ہے اور جان جاتا ہے کہ اس کردار کا تمام تر اضطراب ،اس کے گزشتہ تجربات کے نکس ریزوں کے سوا کچھ اور نہیں ۔ مجموعی طور پر ، مصنف کراچی میں امتل کی دیم سے ملاقات کے بعد اس کی پرتیں اس کی اپنی زبانی کھولنا شروع کر دیتا ہے اور وہ شعوری طور پر وسیم اور بعض اوقات ضمنی کرداروں سے ملاقات کے وقت اپنے خیالات کا اظہار کر جاتی ہے کہ جس سے اس کی ماضی میں محبت کے ردعمل میں پنہاں تع جنسی اختلاط کے تجربے کی واضح نشان دہی ہوتی ہے ۔ لیکن اس نشان دہی کے باوجود اس کردار سے گریز کی بجائے اس سے کی ہمدردی کار خان بڑھتا ہے اور قاری غیر محسوس انداز میں دیم کی طرح اس میں زندگی سے دنپی کا میلان دیکھنے کا متمنی ہو جا تا ہے۔ مصنف نے ناول کے آغاز میں اپنے اس مثالی کردار کے لیے جو واقعات تشکیل دیے ہیں وہ دیم کی کراچی میں آمد کے بعد بظاہر ربیت کر گھروندوں کی طرح ڈھلنے لگتے ہیں اور اس امر کا احساس شدت اختیار کر جاتا ہے کہ مصنف شعوری طور پر اس کردار کی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے اس کی زبانی ایسے مکالمات ادا کرا تا ہے جو بہت حد تک طبیعت پر بوجھ کا باعث بنتے ہیں لیکن درحقیقت مصنف نیتجے تک پہنچنے کے لیے ایسا ماحول تشکیل دینے میں مصروف رہا ہے کہ جس کے لیے قاری اور مرکزی کر دار ویم خود کو ذہنی طور پر تیار کر سکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امحل ایک لمحے زندگی اور اس کے متعلقات کے ساتھ ساتھ رشتوں کے خلوص کا انکار کرتی ہے ۔ لیکن دوسرے ہی لمحے وہ ان کی سچائی کی بھی معترف دکھائی دیتی ہے جو مجموعی طور پر اس کی زندگی کے انکار کے ساتھ اس کے اقرار کی شدت کی جانب واضح اشارے چھوڑتے ہیں ۔ اس مثالی کردار میں وسیم کے علاوہ’’مائی حوا‘( ۱ ) ’’وزیر خاں کی بیوی‘‘( ۷ ) حبت کے ریسٹ ہاؤس میں مقیم کراچی کا آئی سپیشلسٹ اور اس کی بیوی سلطان‘( ۸ ) جیے کر دار مجموعی طور پر شگاف پیدا کر تے ہیں اور حتمی طور پر نلتر کے ریسٹ ہاؤس میں موجود اتل کے ہاتھوں جنم لینے والی چوکیدار کی بیٹی ( ۹ ) اس کردار کو پانی طور پر بد لئے میں اہم کر دار ادا کر تے ہیں اور یہ کر دار اس امر کی جانب اپنی توجہ مبذول کر لیتا ہے کہ شعور ذات اور عرفان کا ئنات کی منازل کا حصول ،فرد یا اجتماع سے فرار میں پوشیدہ نہیں ، بلکہ ان کو قبول کرنے کا نتیجہ ہے ۔( ۱۰ ) مجموعی طور پر اس ناول کے مختصر سے تجزیے سے اس امر کا احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے ’محبت کی تلاش‘‘ کو شعور ذات اور عرفان کائنات سے تعبیر کیا ہے ۔ جس کاسفر کائنات میں رہتے ہوۓ فرد کے فرد سے باہمی رابطے اور ایک دوسرے کو اس کی خامیوں سمیت قبول کیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ معاف کر دینا اور درگزر کر نا حیات کا روشن پہلو ہے ور اس سے گریز کا نتیجہ نفسیاتی مسائل کی صورت میں لکھتا ہے اور فرد ردعمل کے طور پر قنوطیت کا شکار ہو کر اجتماع سے دور بھاگتا ہے ۔ امتل کی ڈینی گرہ نلتر کے ریسٹ ہاؤس میں قیام کے دروان دیم کا بوسا لینے کے بعد کھل جاتی ہے یوں اس کی تمام الجھنیں ہمارے سامنے آئینہ ہو جاتی ہیں ، جس کی سب سے پتہ گر ہ احساس گناہ لینی پشیمانی سے عبارت ہے ۔ مجموعی طور پر اس سلسلے میں می کہا جا سکتا ہے کہ بعض اوقات گناہ یا غلط فعل اتنی نفسیاتی الجھنوں کو جنم نہیں دیتا حقتنے مسائل پچتادے اور پشیمانی کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امتل ،نلتر کے ریسٹ ہاؤس میں ویم کو اپنی محبت کے نتیجے میں سمیع کے جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو نے کا واقعہ سناتی ہے تو کہتی ہے کہ اس نے خود کشی کر لی تھی ! میرا سارا غصہ اتر چکا تھا، کم بخت اتنا شرمسار تھا کہ صبح کا انتظار بھی نہ کرسکا ،دراصل اس میں سامنا کرنے کی ہمت نہ رہی تھی ۔ورنہ کچھ بعید نہ تھا کہ میں اسے معاف کر دیتی، کیونکہ نیت اور فطرت تو ہر مرد کی ایک ہی ہوتی ہے۔ پھر کیا ضرورت ہے کہ میں فرشتے کی تلاش میں رہتی ۔‘‘( ۱۱ ) مندرجہ بالا اقتباس میں میرا سارا غصہ اتر چکا تھا کم بخت . میں اسے معاف کر دیتی ، جیے فقرے جہاں ایک طرف اس کے پچھتاوے اور مسلسل پشیمانی کی عکاسی کرتے ہیں ، وہاں یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہنگامی حالات میں نازک صورت حال خراب ہونے کی بنیادی وجہ جذبات کا عقلی نہ رہنا ہے جس کے ردعمل میں فرد دوسرے فرد سے غصے یا نفرت کا اظہا رکر تا ہے جو نہ صرف فرد کو ابدی پچھتاوے سے ہمکنار کر دیتا ہے بلکہ اس کی روح پر ایسے زخم لگا تا ہے کہ سدا بہار پودوں کی طرح انسان کو اپنے ہونے کا احساس دلاتا رہتا ہے اور یوں انسان حیات و موت کی کشمکش میں اضطراب اور عذاب مسلسل کا شکار رہتا ہے۔ مجموی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ رحیم گل اپنے ناول’’جنت کی تلاش‘‘ کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ انسان نامکمل ہے یہی کرب اسے شعور کی منازل سے ہم کنار کرتا ہے ۔ نیز فردکوفرد سے گریز کی بجاۓ ایک دوسرے کے قریب رہنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں جس کا نتیجہ وہ عرفان کا ئنات اور شعور ذات کی صورت میں اخذ کرتے ہیں۔